”پرنس کریم آغاخان۔میرے امام“ ایک نظر میں

مجھے اسماعیلیہ برادری کی جس چیز نے بے حد متاثر کیا ہے وہ ہے دنیا بھر میں ان کا منظم نیٹ ورک۔ پرنس کریم آغاخان نے اپنے چاہنے والوں کو ایک مضبوط نیٹ ورک کے ذریعے دنیا بھر میں نہایت سلیقے سے مربوط کررکھا ہے اور زندگی کے تمام شعبوں میں نہ صرف رہنمائی کی ہے بلکہ زندگی کو دنیا کے تقاضوں کے مطابق ترتیب دینے کے لیے بہترین عملی اقدامات بھی کیے ہیں۔یہی اچھے، کامیاب اور اپنی قوم سے مخلص لیڈر کا کام ہوتا ہے۔ کتاب ہذا میں اس کامیاب لیڈر کی کاوشوں کو خوبصورت انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

برادرم عبدالکریم کریمی کے توسط سے سید حسین شاہ کاظمی صاحب کی نئی کاوش ”پرنس کریم آغا خان۔ میرے امام“ کا مسودہ ہم تک پہنچا اور حکم صادر ہوا کہ ہم بطور تقریظ چند کلمات تحریر کریں۔ ہم کیا تقریظ،تبصرہ یا تاثرات لکھیں گے۔ تعمیلِ حکم میں یہ چند سطور قلم بند کی جا رہی ہیں۔

یہ کتاب بنیادی طور پر آغاخانی اسماعیلیوں کے مذہبی پیشوا جناب پرنس کریم آغاخان کی حیات و خدمات پر لکھی گئی ہے، جبکہ ضمن میں بہت سی دیگر چیزیں بھی بیان ہوئی ہیں۔ میں کئی مواقع پر عرض کر چکا ہوں کہ میں آغاخانی کمیونٹی کے عقائد و مذہبی رسومات اور اطوار پر عموماً بات نہیں کرتا اور نہ ہی ہمارا سماج اس کا متحمل ہوسکتا ہے اور نہ اس کی کوئی خاص ضرورت ہے۔میں قرآن کریم کے اس آفاقی اصول: ”لکم دینکم و لی دین“ پر کاربند رہتا ہوں۔ اس کا مفہوم یہی ہے کہ تم اپنے راستے اور مسلک و منہج پر قائم رہو اور مجھے اپنی راہ چلنے دو۔تم اپنی راہ پر درست ہو، سو تمہیں مبارک ہو اور میں اپنی راہ پر۔ اسی طرح کا حکم سورہ الزمر اور سورہ سبا میں بھی آیا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جدلیاتی مباحث اور مناظروں سے کلامی مسائل سلجھنے کے بجائے الجھتے ہیں اور نت نئے مسائل پیدا کرتے ہیں، لہٰذا پر امن بقائے باہم اور قیام امن کے لیے ہم سب کو اس قرآنی اصول کو رہنما بنا لینا چاہیے،تاکہ بہتر معاشرتی زندگی ڈیویلپ ہوسکے۔ ”اپنا عقیدہ چھوڑو نہیں،دوسروں کے عقائد چھیڑو نہیں“ یہی اصول ترقی یافتہ قوموں کی کامیابی کی بنیاد ہے۔

ہمارے گلگت بلتستان کے آغاخانی اسماعیلیہ محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ ان کو محبتوں کا یہ سلسلہ جاری و ساری رکھنا چاہیے کہ جودلوں کو فتح کرلے، وہی فاتحِ زمانہ! مجھے اسماعیلیہ برادری کی جس چیز نے بے حد متاثر کیا ہے وہ ہے دنیا بھر میں ان کا منظم نیٹ ورک۔ پرنس کریم آغاخان نے اپنے چاہنے والوں کو ایک مضبوط نیٹ ورک کے ذریعے دنیا بھر میں نہایت سلیقے سے مربوط کررکھا ہے اور زندگی کے تمام شعبوں میں نہ صرف رہنمائی کی ہے بلکہ زندگی کو دنیا کے تقاضوں کے مطابق ترتیب دینے کے لیے بہترین عملی اقدامات بھی کیے ہیں۔یہی اچھے، کامیاب اور اپنی قوم سے مخلص لیڈر کا کام ہوتا ہے۔ کتاب ہذا میں اس کامیاب لیڈر کی کاوشوں کو خوبصورت انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔مجھے آغاخانی کمیونٹی کے ساتھ گھل ملنے اور متنوع موضوعات و حالات و واقعات پر ان کے اہل علم وفکر سے مکالمہ کا بھرپور موقع ملتا رہتا ہے۔ میں نے یہ بات محسوس کی کہ ان کی اپنے امام کے ساتھ کمٹمنٹ درجہ کمال کو پہنچی ہوتی ہے۔کتاب ہذا کے ایک ایک ورق سے یہی کمٹمنٹ جھلک رہی ہے۔ فہرست عنوانات پر نظر ڈالنے سے یہی پہلا تاثر جھلکتا ہے کہ یہ تالیف اپنے امام کی عقیدت میں ڈوب کر لکھی گئی ہے۔تاہم کتاب کے ذیلی عنوانات بہت لمبے رکھے گئے ہیں۔ عنوان میں اختصار اور جامعیت ہونی چاہیے۔ امید ہے آئندہ اشاعت میں اس پر توجہ دی جائے گی۔

ہمارے معاشرے میں معلومات کی کمی کی وجہ سے اسماعیلیہ کے حوالے سے عامة الناس میں بہت سارے توہمات پائے جاتے ہیں۔اس کتاب کے مطالعے سے بہت سارے توہمات ختم ہوسکتے ہیں۔کتاب میں پرنس کریم آغاخان اور ان کی فیملی اور ان کی طرز زندگی اور خدمات و سرگرمیوں کو کافی تفصیل سے بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس حوالے سے اگرچہ انگریزی میں بالخصوص IISکی ویب سائٹ پر خاصا مواد موجود ہے، تاہم اردو دان طبقے کے لیے یہ اس سلسلے میں کتاب میں بہت مفید اور معلومات افزا سمجھی جا سکتی ہے۔ کتاب کو جستہ جستہ دیکھنے کا موقع ملا۔ بلاشبہ یہ کتاب اسماعیلی کمیونٹی اور پرنس کریم آغاخان پر تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے ریفرنس بک کے طور پر کام آسکتی ہے۔ آغاخان فاو ¿نڈیشن اور اس کے ذیلی تعلیمی ، رفاہی،مذہبی اور طبی اداروں کے حوالے سے بھی کتاب میں اچھی خاصی معلومات دی گئی ہیں جن سے بھرپور اسفادہ کیا جاسکتا ہے۔ کتاب میں پرنس کریم آغاخان کے معمولات اور گلگت بلتستان آمد پر بھی تفصیلی معلومات مندرج ہیں۔کتاب کے آخر میں ”میرا انتخاب“ کے زیر عنوان راقم الحروف کا ایک کالم بھی کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ میری اس تحریر کو دنیا بھر کی اسماعیلی کمیونٹی میں بڑی پذیرائی ملی۔مختلف احباب نے انگریزی ترجمے بھی کیے۔ کتاب کے آخر میں حوالہ جات بھی دیے گئے ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر اصل کی طرف مراجعت کی جاسکے۔مجموعی طور پر ایک اچھی کاوش ہے۔

اس کتاب میں ایک پوشیدہ سبق دوسرے مکاتب فکر کے لوگوں کے لیے بھی ہے۔چونکہ یہ بدیہی حقیقت ہے کہ انسانی حیات کی بقا اور افزائش کے لیے ہوا اور پانی کے بعد تعلیم اور صحت سب سے زیادہ ضروری اور اہم ہیں۔ طائرانہ جازہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ تعلیم و صحت کو اسماعیلی کمیونٹی نے بالکل اسی انداز میں ضرورت کی طرح برتا ہے، جس طرح ہوا اور پانی کو ہم زندگی کے ایک لازمے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اندازہ ہوتا ہے اسماعیلی کمیونٹی تعلیم اور صحت کے لیے کسی بھی حد تک جانے اور کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتی ہے۔ یہ لوگ اس سلسلے میں جان کی بازی تک لگا دیتے ہیں اور ان کے امام نے بھی تعلیم اور صحت کو سب سے زیادہ فوکس کر رکھا ہے۔ تعلیم پر کمپرومائز کرنا اسماعیلیوں کے لیے کسی صورت ممکن نہیں، جو ایک قابل رشک طرز عمل ہے۔ اس کتاب میں تعلیم اور تعلیمی اداروں کے قیام اور ان کے نتائج پر بہت سارا مواد دستیاب ہے۔دوسری کمیونٹیز بھی تعلیمی ایمرجنسی اور اداروں کے قیام کے ساتھ ہیلتھ کے حوالے سے بھی ان سے سیکھ سکتی ہیں، بلکہ باقاعدہ سیکھنے کے عمل کا آغاز ہونا چاہیے۔بہر صورت میری قارئین سے گزارش ہے کہ ایک دفعہ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریںاور مولف سے گزارش ہے کہ گلگت بلتستان کی تمام لائبریریوں اور مجھ جیسے طالب علموں کو ایک ایک نسخہ ضرور عنایت کریں، تاکہ مولف کی محنت درست ٹھکانے لگ جائے۔
 

Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 443 Articles with 383616 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More