ڈاڈے روگ

فیکا بھینسوں کو چارے ڈالنے کےلیے باڑے میں آتا ہے تو دیکھتا ہے ایک طرح چارپائی پر کریم لیٹا ہوا پتا نہیں کیا سوچی جا رہا تھا۔ اس نے اس سے پہلے کریم کو اتنی گہری سوچ میں نہیں دیکھا تھا وہ تو ہمیشہ سوچوں سے کوسوں دور بھاگتا تھا مگر اب پتا نہیں کیا ہو گیا تھا اسے، جب سے شہر سے آیا تھا چپ چپ بیٹھا رہتا تھا نہ کوئی بات سناتا تھا نہ کچھ بولتا تھا حالانکہ پہلے تو بڑی چٹ پٹی کہانیاں لاتا تھا سنانے واسطے اس بار پتا نہیں کیا ہوا تھا ۔
فیکے سے رہا نہیں جاتا کی کرتا تجسس مارے جا رہا تھا کہ آخر گل کیا ہے پھر وہ ہمت کر کے کریم سے پوچھ ہی لیتا ہے ۔
فیکا :محمد کریم باو کیا بات ہے کیا سوچ رہا ہے ؟
جب سے شہر سے آیا ہے ایسے ہی منہ لٹکائے بیٹھا ہے خیر تو ہے نہ، کوئی نئی تازی ہی سنا دے شہر کی ۔
کریم : فیکے یار کیا بتاؤں،ہونا کیا ہے بس ایویں ای دل اداس ہو گیا ہے لگتا ناراض ہو گیا ہے۔ اب کچھ اچھا ہی نہیں لگتا ۔
فیکا: کیوں باو تیرے شہر کی رونقیں اب ختم ہو گئی کیا ؟
کریم : نا فیکے ساری رونقیں ویسے کی ویسے ہیں دل لبھانے والی ، دنیا جہاں بھلانے والی پر یہ سب اب اس دل کو اچھی نہیں لگتی ۔
فیکا : توں جھلا ہو گیا ایں کریم باو وگرنہ رونقیں کسے چنگی نہیں لگتی ۔
فیکے کے دھیان اب چارے سے زیادہ کریم کی طرف تھا جو اسے بہکا بہکا لگ رہا تھا ۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کریم کو کیا ہوا ہے آج سے پہلے تو اس نے ایسی باتیں کبھی نہ کی تھی وہ تو بڑا کام کاجی بندہ تھا سوچوں وچوں سے دور رہنے والا ۔
کریم آسمان کی طرف دیکھی جا رہا تھا اور بولی جا رہا تھا۔ اس کی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ وہ رات بھر سویا نہیں تھا۔
کریم : فیکے یار رونقیں تو ساری یاروں کے دم سے ہوتی ہیں جب یار نہ ہوں پاس تو رونقیں کہاں خوش کرتی ہیں ۔
فیکا : اللہ خیر کرے ۔ کی ہو گیا یاراں نوں، سب ٹھیک ٹھاک توں ہیں؟
کریم : سب ٹھیک ٹھاک ہیں بس بدل گئے ہیں ۔ کچھ ہو جائے تو پھر دل کو تسلی ہو جاتی ہے پر فیکے اگر کوئی ایسے ہی بدل جائے ، کسی وجہ کے بغیر منہ پھیر لے تو تسلی نہیں آتی حوصلہ نہیں آتا ۔ پتا فیکے شہر میں لوگ ہماری طرح سادہ نہیں ہوتے دل کے صاف نہیں ہوتے وہاں تو ہر چیز، ہر بندہ ایک راستہ ہوتا ہے جسے استعمال کیا جاتا اور پھر چھوڑ دیا جاتا ۔۔ سب ایسا ہی کرتے ہیں ۔ وقت پڑنے پر سب اہم ہو جاتے ہیں اور وقت ختم تو سب ختم۔
ایسے لگ رہا تھا جیسے کسی نے کریم کے دل پر گہری چوٹ ماری تھی ۔ وہ اس کی طرف دیکھے بغیر بولی جارہا تھا پر فیکے کو ایسی باتیں کہاں سمجھ آتی تھی اسے یہ سب اور الجھائی جا رہا تھا اس کا چارا ابھی ڈالنے والا رہتا تھا اور اوپر سے شام ہونے والی تھی۔ پینو گھر میں انتظار کر رہی ہو گی وہ سوچنے لگا۔ اسے شہر کی دنیا سے کیا لینا دینا وہ اپنی چھوٹی سی دنیا سے بڑا خوش تھا وہ اور اسکی پینو ۔اللہ کے فضل سے دو وقت کی روٹی بھی آرام سے مل جاتی تھی اور بندے کو کیا چاہیے ہوتا ہے ۔ وہ اب جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگا اسے شام ہونے سے پہلے گھر جانا تھا وگرنہ پینو خفا ہو جاتی تھی یہ وہ واحد چیز تھی جس سے وہ ڈرتا تھا۔
فیکا : تو باو انہیں سمجھایا کر نہ تو جو اتنا سمجھ دار ہے کہ جسے اہم بنا لیا جاتا ہے نہ اس کو پھر حالات بدلنے پر کاٹ کر پھینکا نہیں جاتا بلکہ وقت پڑنے پر اس کے لیے راستہ بنایا جاتا ہے یہی اصل وفاداری ہے اور وفاداری ہی تو انسان کی پہچان ہے۔
کریم : تم ان پڑھ ہو کر یہ بات سمجھتے ہو پر لوگ پڑھ لکھ کر نہیں سمجھتے آج کے دور میں جانور انسان سے زیادہ وفادار ہیں ۔ یہاں نہ محبت ہوتی ہے اور نہ مخلصی آجکل تو حسد، بغض اور کینہ کا راج ہے یہاں گنتی کے چند لوگ ہونگے جو اس برائی سے بچے ہونگے مگر یہ معاشرہ تو انہیں بھی نہیں چھوڑتا، ان پر بھی طرح طرح کے بہتان لگا کر ان کو بھی بدنام کر رہا ہے اور لوگ ، لوگوں کا تو کام ہی یہی ہے "باتیں اور باتیں " کرنا۔۔۔
فیکا : میرے بھائی تو دل چھوٹا نہ کر اور لوگوں کی باتوں کی کون پروا کرتا ہے وہ تو کہتے ہی رہتے ہیں ان کا اور کیا کام ۔۔
فیکے کو سمجھ کچھ نہیں آئی پر اس نے جو کچھ آیا اس نے کہہ دیا اس کے نزدیک تو محبت سے بڑھ کر کچھ نہیں تھا اسے کیا لوگوں کی باتوں سے ۔ اسے یاد تھا جب پینو سے اس نے شادی کی تھی، سارا خاندان ناراض تھا کہ لڑکی کالی ہے کوجی ہے مگر اس کا دل تھا کہ پینو کے سوا کسی کو تکنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ اس نے سب سے بیر لے کر شادی کی تھی آج بھی عورتیں رشک کرتی ہیں فیکے کی پینو کے لیے محبت دیکھ کر ۔ کریم ہنستا تھا کہ فیکے کا دماغ اور دل خراب ہے جو پینو جیسی کالی عورت کو دے بیٹھا ہے ۔ کریم تو کہا کرتا تھا یہ سب فضول باتیں ہوتی ہیں ان کا اصل زندگی سے کیا لینا دینا اصل چیز تو پیسہ ہے جتنا کماو اتنا کم ۔ اسی لئے وہ چاچے رفیق کی ناراضگی مول لیے شہر چلا گیا۔ چاچا بیچارہ پیچھے سے ہی دم توڑ گیا اسے ڈر تھا کہ اسکا اکلوتا پتر اگر شہر چلا گیا پھر وہاں کا ہی ہو کر رہ جانا اس نے ۔ اسکا ڈر صحیح نکلا تھا پہلے پانچ سال میں تو ایک بار بھی کریم نے گاوں کا چکر نہیں لگایا تھا حالانکہ کئی بار اسے بلایا گیا پر وہ نہ آیا۔ چاچا کے مرنے وہ پانچ سال کے بعد پہلی بار پنڈ آیا اور پھر اکثر آنے لگا ، اب وہ باو بن گیا تھا وہ لمبی گاڑی، بڑی کوٹھی بنا لی تھی اس نے سب پنڈ والے اسے دیکھ کر رشک کرتے کئی تو اس سے مشورے کرتے کہ انہیں بھی اپنے پتر کو شہر بھیجا ہے ۔ پنڈ میں اسکی تور ہی وگری ہو گئی سب اسے باو کہتے۔ فیکے اور کریم کی بچپن کی یاری تھی اسی لئے وہ اکثر فیکے سے بات چیت کر لیا کرتا تھا اس نے فیکے کو بھی شہر لے جانے کا کہا پر فیکا تھا کہ اسے پنڈ کی پینو اور بھینسوں کے سوا کچھ اور سوجھتا ہی نہ تھا وہ اپنی دنیا میں بڑا خوش تھا۔
کریم : نہیں کرتا پروا فیکے پر کیا کروں چھپتی ہیں، اِن باتوں نے کئی دل توڑے ہیں اور کئی خاندان ۔
کریم کی اداسی عیاں تھی مگر فیکا بھی کیا کرتا وہ اپنے یار کےلیے کچھ نہیں کر پا رہا اسے وہ صاف صاف کہاں کچھ بتا رہا تھا بس گھمائی جا رہا تھا اور فیکے کو تو صاف گل سمجھ نہیں آتی تھی اس کی باتیں کہاں آتیں سمجھ ۔ وہ بس اتنا ہی کہہ سکا ۔
فیکا : تو اداسں نہ ہو چھوڑ لوگوں کو ، جب ہم لوگوں کا کچھ نہیں کر سکتے پھر کڑنا کیوں ۔ بندے نوں خود مخلص ہونا چاہیے دا ہور محبت بانٹنی چاہی دی باقی چھڈ ہر گل ۔۔ پینو کہندی اے ،" یہ بڑا خوب صورت جذبہ ہے، جوڑے رکھتا ہے، ٹوٹنے نہیں دیتا، ہر حال میں سنبھالے رکھتا ہے ۔" چل اب میں چلتا ہوں پینو انتظار کر رہی ہو گی تو زیادہ سوچ نا بس خوش رہ، اماں بخشتن کہتی تھی سوچیں بندہ کھا جاتی ہیں ۔
اس کے بعد وہ اپنا چارے والا ٹوکرا اٹھائے باڑے سے نکل جاتا ہے اور محمد کریم وہیں سوچتا رہ جاتا ہے ۔ اسے کہاں کوئی دیر ہو رہی تھی اور نہ کوئی اسکا انتظار کر رہا تھا پھر شام پڑے یا رات ہو اسے کیا ۔
وقت بھی کیسے بدل جاتا ہے بالکل لوگوں کی طرح کبھی یہ آپ کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ ساری دنیا آپ کے قدموں میں آ گئی ہے اب آپ ہی آپ ہو مگر یہ تو وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ وقت کبھی بدلے گا اور ریت کی ماند ہر چیز ہاتھوں سے بہا کر لے جائے گا، خالی ہاتھ کر دے گا۔ کریم نے بھی یہی سوچا تھا کہ وقت اب مٹھی میں ہے سب اس کی دسترس میں ہے ۔اچھا خاصا پیسہ کما رہا تھا اب تو شہر میں بھی لوگ اسے جاننے لگ گئے تھے وہ خوشی سے سرشار تھا، اس کے خواب حقیقت ہو رہے تھے کہ ایک دن فضل اسکا شہر کا دوست اسے روزی سے ملاتا جو کہ اسکی خالہ زاد تھی ۔ روزی میں کوئی بات تھی کہ کریم جیسا شخص جسے پیسے کے سوا کچھ اور دکھائی نہ دیتا تھا وہ بھی متوجہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔اسکی باتیں، اسکی چال ڈھال، اسکا اٹھنا بیٹھنا سب شاندار تھا ۔ حسن و جمال میں کوئی اسکا ثانی نہ تھا لمبے قد، گورے رنگ گہری آنکھوں نے کریم کو اثیر کر لیا تھا اور پہلی ہی نظر میں اسے اپنا دیوانہ بنا لیا تھا ۔کریم کو اب زندگی میں پیسے کے سوا بھی کچھ دکھائی دینے لگا تھا وہ شخص جو پیار محبت کو فضول قرار دیتا تھا اب خود اس میں گرفتار تھا اسکےلیے اب دنیا میں رنگ اسی کے دم سے تھے ۔ فضل کے توسط سے اکثر و بیشتر اسکی ملاقات روزی سے ہوتی ہی رہتی تھی اور روزی بھی اس سے مل کر اتنی ہی خوشی کا اظہار کرتی جتنی اسے ہوتی تھی ۔ آخر دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس نے اپنے دل کی بات فضل کو کہہ ڈالی جس پر اس نے کسی اچنبھے کا اظہار کیے بغیر روزی سے بات کرنے کا کہا روزی تو جیسے پہلے ہی پیغام کے انتظار میں تھی ۔ ملاقاتیں ہونی لگیں، قول و قرار ہوئے،زندگی بھر ساتھ نبھانے کی قسمیں کھائی گئیں ۔ کریم کو تو جیسے جنت دنیا میں ہی مل گئی ہو اس نے خوب دولت لٹائی اسے یقین تھا محبت کے ساتھ ساتھ دولت کی زنجیر روزی کو اس سے کبھی دور نہیں جانے دے گی ۔ وہ ہر بار اسے مہنگے سے مہنگے تحفے دیتا جس پر روزی قربان جائے بغیر نہ رہتی ۔مگر پھر وہ دن جب وہ روزی کے گھر بنا بتائے ہی ملنا چلا گیا اسے شادی کا کارڈ دکھانا تھا وہ بہت خوش تھا اتنا کہ خوشی سے مر سکتا تھا۔ مگر دروازے پر جو سنتا ہے اس نے اس کے پاوں کی زمین کھینچ لی تھی، اندر فضل اور روزی ہنس رہے، فضل روزی کی ایکٹنگ کی داد دے رہا تھا جس پر روزی کہتی ہے کہ وہ اب زیادہ دیر تک اداکاری نہیں کرسکتی، پک گئی ہے فضول پینڈو شخص کی باتیں سن کر، تو فضل اسے سمجھاتا ہے میری جان بس تھوڑی دیر اور ایک دفعہ میں اپنے کاروبار کےلیے بڑی سی رقم نکلوا لوں پھر ہم دونوں یہاں سے چلے جائیں گے اور ساری زندگی آرام سے رہیں گے ۔ اب کمرہ ہنسی کی گونج سے گونج رہا تھا مگر کریم کو لگ رہا تھا جیسا وہ بہرہ ہوگیا ہے- اس کا دماغ بند ہو گیا تھا۔ وہ الٹے قدموں واپس آ گیا سامان باندھا اور پنڈ چلا آیا شہر نے پیسوں کے بدلے اس سے اسکا ابا،جوانی سب چھین لیا تھا اور آخر انہی پیسوں کی وجہ سے کسی نے اسکا دل بھی چھین لیا تھا جسے اس نے ہمیشہ سنبھالے رکھا تھا ۔ اب وہ بالکل خالی ہاتھ تھا اس سے اچھا تو فیکا تھا جو اپنی چھوٹی سی زندگی میں خوش تھا۔وہ کیا بتاتا فیکے کو اسے کیا ہوا ہے، وہ گر سنتا تو خوب ہنستا اور کہتا باو کھا گئے نہ دھوکہ بڑے سیانے بنتے تھے ۔

 

Asma Tariq
About the Author: Asma Tariq Read More Articles by Asma Tariq: 86 Articles with 60458 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.