پالف (PALF)کے زیرِ اہتمام تقریب اجراء کتب۔بہ زبانِ قلم اور دنیا رنگ رنگیلی

تقریب اجرا کتب “بہ زبان قلم“ اور “دنیا رنگ رنگیلی“ سے مقررین اظہار خیال کر رہے ہیں۔

آسٹریلیا کی معروف علمی، ادبی اور ثقافتی تنظیم پاکستان-آسٹریلیا لٹریری فورم (پالف) کے زیرِ اہتمام گزشتہ دنوں آسٹریلیا کے معروف کالم نگارطارق مرزا اور پاکستان سے آئے ہوئے معروف مضمون نگارایس۔ایم۔ ناصر علی کے اعزاز میں تقریب کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت فلنڈرز یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر ابوالخیر محمد فاروق نے کی جب کہ تقریب کی کارروائی عاطف مجید ملک، ڈپٹی سیکرٹری جنرل پالف، نے سر انجام دی۔ تقریب کا آغازحماد ناصرنے تلاوتِ قرآنِ مجید سے کیا۔ عاطف مجیدنے سب مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔بعد ازاں سدرہ طاہر چوہدری اور ایشل ناصر نے مقامی باشندوں کو بالترتیب انگریزی اور اردو میں خراجِ تحسین پیش کیا جس کے بعدپاکستان اور آسٹریلیا کے ترانے بجائے گئے جس پر تمام شرکاء نے کھڑے ہوکر احترام کا مظاہرہ کیا۔

پالف کے صدرافضل رضوی نےؔ صدر ِ تقریب ڈاکٹرابوالخیر فاروق اور مہانانِ گرامی پاکستان سے تشریف لائے جناب ایس۔ ایم۔ ناصر علی اور سڈنی سے تشریف لائے جناب طارق محمود مرز ا کا اسٹیج پر استقبال کیا اور مہمانوں کوڈاکٹر گفتار، محمد معاذ اور عاطف مجید نے گلدستے پیش کیے۔صدارتی کلمات میں پروفیسرڈاکٹر ابوالخیر محمد فاروق نے کہا کہ میں جناب افضل رضویؔ صدر پالف اور ان کی پوری ایگزیکٹو کمیٹی کا شکر گزارہوں جنہوں نے مجھے آج کی اس تقریب کی صدارت سے نوازا۔انہوں نے طارق محمود مرزا اور ایس ایم ناصر علی کو ان کی نئی کتابوں کے اجراء پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں آج کی اس تقریب ِ اجراء کتب میں شرکت کرکے بے حد مسرت ہورہی ہے۔ ویسے تو آج کل ہمارا تقاریب میں جانا نہیں ہوتا لیکن پالف ایگزیکٹو کمیٹی کی محبت ہے جو ہمیں ان کی اکثر تقاریب میں کھینچ لاتی ہے۔جیسے ہی افضل صاحب نے کہا کہ دو کتابوں کی تقریب اجراء ہے یعنی ”یک نہ شد دو شد“ تو ہم نے کہا کہ ضرور آئیں گے اور کیوں نہ آتے، یہی تو وہ درسگاہ ہے جہاں زندگی کے کئی مہ وسال علم کی روشنی پھیلاتے بسر ہوئے۔ہم دونوں کتابوں کا کماحقہ‘ مطالعہ تو نہیں کرسکے لیکن یہ سمجھتے ہیں کہ دونوں مصنفین نے اپنی اپنی سوچ و فکر کے مطابق بہت خوب لکھا ہے۔

طارق محمود مرزا نے اپنے خطاب میں کہا کہ سب سے پہلے میں PALFُٖٓؒکی انتظامیہ اور خصوصاََ محترم افضل رضوی کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے سٹی آف چرچز کی اس مشہورِ زمانہ فلنڈرز یونیورسٹی میں اس خوبصورت تقریب کا انعقاد کیا۔ آپ سب کی یہاں موجودگی میرے لیے باعثِ مسرت و افتخارہے۔میں بھی آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ کتاب کی تقریب اور ادبی پزیرائی سے زیادہ میرا مقصد آسٹریلیا کے اس خطے میں بسنے والے بہن بھائیوں سے ملاقات اور اپنی محبتوں کا اظہار ہے۔ سیر و سیاحت میرا شوق ہے اور محبتیں بانٹنا اور سمیٹنا میری فطرت ہے۔ میں ربع صدی سے آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم ہوں اس دوران آسٹریلیا کے بیشتر شہر اور دنیا کے درجنوں ملک دیکھ ڈالے مگر جنوبی آسٹریلیا آنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ اسے دیکھنے کی خلش میرے اندر کب سے موجود تھی۔ کچھ عرصہ قبل میں نے یہاں آنے کا اردہ ظاہر کیا تو محترم افضل رضوی صاحب نے کمال مہربانی سے کام لیتے ہوئے میرے لیے اس تقریبِ پزیرائی کا اہتمام کر لیا جو میرے لیے بادِ نسیم کا خوشگوارجھونکا ثابت ہوا۔ مجھے اس تقریب میں شرکت کرکے انتہائی مسرت ہورہی ہے۔ انہوں نے پالف انتظامیہ کے ساتھ ساتھ سامعین وحاضرین کی بھرپور ستائش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک نہایت منظم اور پروقار تقریب ہے جس کے لیے سبھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔بلاشبہ یہ تقریب اور ایڈیلیڈ میں پاکستانی کمیونٹی کا حسن سلوک قابل ستائش ہے اور یہ انتہائی خوشگوار یادیں میرے ساتھ جائیں گی۔

طارق مرز انے مزید کہا کہ اس سفر میں میرے دوست زاہد مرزا صاحب بھی میرے ساتھ شامل ہو گئے جو ادیب اور شاعر تو نہیں مگر ادب سے انتہائی لگاؤ رکھتے ہیں۔وہ اس نایاب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں عصرِ حاضر میں بھی کتب بینی سے رغبت ہے۔ سڈنی کے علاقے بلیک ٹاؤن کی لائبریری کے اردو سیکشن کی کوئی کتاب ان کے دست برد سے محفوظ نہیں ہے۔ دست برد کا کا لفظ میں نے دانستہ استعمال کیا ہے کیونکہ جو کتاب یہ پڑھتے ہیں اس پر اپنا آٹو گراف بھی ثبت کرتے ہیں۔جہاں تک موجودہ کتاب یعنی دینا رنگ رنگیلی کا تعلق ہے اس کے لیے میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے نہ صرف مجھے صحت و سلامتی کے ساتھ ا پنے حُسنِ تخلیق کے کرشماتی مناظر دیکھنے کی توفیق عطا فرمائی بلکہ اسے کتابی شکل میں لانے کا ہنر بھی عطا کیا۔اس کی توفیق کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں ہے۔میں اپنی فیملی خصوصاََ اپنی اہلیہ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ہمیشہ مجھے سپورٹ مہیا کی ہے۔

طارق مرزا نے کہ”میں دنیا میں جہاں بھی گیا اور جتنے حسین منظر دیکھے، تصور کی آنکھ سے پاک سرزمین اور اس کے باسیوں کو اس منظر کا حصہ دیکھا۔ جہاں میں نے محسوس کیا کہ میرے اپنے ان نعمتوں سے محروم ہیں جو غیروں کو حاصل ہیں تو دُکھ کی لہر مجھے لپیٹ میں لے لیتی ہے۔انسان جب کوئی اچھی شے دیکھتاہے تو لا محالہ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ یہ نعمت اُسے اور اس کے قریبی لوگوں کوبھی حاصل ہو۔ میرا بھی یہ خواب ہے کہ یہ سارے منظر، یہ سارے حسن اور یہ رنگ و نکہت میرے آبائی وطن کے آنگن میں بھی اُتریں۔ کاش میرا یہ خواب جلد شرمندہِ تعبیر ہو۔“انہوں نے آخر میں PALF اوراس کے تمام ممبران سمیت تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا کہ جنہوں نے یہ تقریب منعقد کرکے مہمان نوازی اور ادب دوستی کے ساتھ ان کی حوصلہ افزائی فرمائی۔انہوں نے کہا کہ ”آپ کی یہ محبت ہمیشہ میرے صفحہِ دل پر نقش رہے گی۔“

ایس۔ایم۔ ناصر علی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں پالف کی پوری ٹیم اور اس کے محرک افضل رضوی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جن کی کاوش اور منصوبہ بندی کے نتیجہ میں یہ رنگا رنگ محفل سجی اور مجھے امسال بھی پالف کے ممبران سے مخاطب ہونے کا موقع ملا۔انہوں نے کہا کہ افضل رضوی کی محبتوں اور ہمتوں کو سلام پیش کرتا ہوں کہ آسٹریلیا میں بیٹھ کر وہ اردو کی خدمت کے ساتھ ساتھ کلامِ اقبال پر وہ کام کر رہے ہیں جو اب تک اقبال کے مداحوں اور نقادوں کی نظر سے اوجھل تھا۔کلام اقبال میں نباتات کے تذکرہ کو جس طرح افضل رضوی نے زیرِ قلم لاکر اجاگر کیا ہے اور ”در برگِ لالہ وگل“ جیسی ضخیم کتاب کی جلد اول نے آسٹریلیا کے ساتھ پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک کے اہلِ دانش کو چونکا دیا ہے، وہ یقینا قابلِ رشک ہے۔اس کتاب پر اصحابِ علم کے جو تبصرے منظرِ عام پر آئے ہیں انہوں نے افضل رضوی کوہی نہیں بلکہ اس کتاب کے طابع بقائی یونیورسٹی پریس کو بھی سربلندی عطا کی ہے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میزبانِ تقریب صدر پالف افضل رضوی نے مصنفین کی کاوش کو سراہا اورطارق محمود مرزا کے سفر نامے ”دنیا رنگ رنگیلی“ اور ایس۔ایم۔ ناصر علی کی کتاب ”بہ زبانِ قلم“ سے حاضرین کو متعارف کراتے ہوئے کہا کہ طارق مرزا نے اپنے سفر نامے میں حقیقت کے رنگ بھر دیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اسے اول تا آخر پڑھ کر ایک تفصیلی ریویو لکھا جو دنیا بھر کے کئی اخبارات ورسائل و جرائد کی زینت بنا۔ انہوں نے ناصر علی کی کتاب پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس میں بہت اعلیٰ پائے کے مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ ان کتابوں کو سامنے رکھا جائے تو دونوں مصنفین کے کہنہ مشق ہونے کا بخوبی علم ہو جاتا ہے۔

راقم الحروف (سینئرنائب صدر)نے طارق محمود مرزا کے سفر نامے کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ ادب، ادیب اور اور زبان کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہوتا ہے اور اردو زبان تو ایک ایسی زبان ہے جو تعلیم وتربیت اور ادب نیز ادب ِ عالیہ کی زبان ہے۔ اس زبان میں شاعری بھی ہوتی ہے اور نثر بھی لکھی جاتی ہے۔ نثر کی بہت سی اقسام ہیں جن میں سفر نامہ ایک ایسی صنفِ ادب ہے جس نے زمانہ حال میں بے حد ترقی کی ہے۔ یوں تو بے شمار سفر نامے لکھے گئے اور لکھے جارہے ہیں لیکن میں سمجھتی ہوں کہ سفر نامہ”دنیا رنگ رنگیلی“ ایک بہترین فن پارہ ہے، جو نیوزی لینڈاور جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک اور تھائی لینڈ جیسے ترقی پذیر ملک کی سیاحت کے بعد لفظوں میں ڈھل کر زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا ہے۔سیاحت کے اعتبار سے ان ممالک کا انتخاب زبردست تو ہے ہی؛ لیکن مصنف کا اندازِ تحریر اُس سے بھی بڑھ کر ہے۔مصنف ان ممالک کا چند دن سیر سپاٹا کرکے واپس نہیں آجاتے بلکہ وہ ایک ایک ایک منظر کو اپنی آنکھ کے کیمرے سےsketch کرتے ہیں اور پھر صفحہ ئ قرطاس پر بڑی ہنر مندی اور خوب صورتی سے بکھیر دیتے ہیں۔

قبل ازیں ڈاکٹرسید مفضل محی الدین نائب صدر پالف اور ارشد درانی ایگزیکٹو ممبر پالف نے بالترتیب”بہ زبانِ قلم“ اور ”دنیا رنگ رنگیلی“ سے اقتباسات نظرِسامعین کرکے داد حاصل کی۔علاوہ ازیں ڈاکٹر محسن نے اپنی نظم”اے وادیئ کشمیر“ پیش کرکے حاضرین کے جذبات گرما دیے۔
تو جہد مسلسل کی ابھرتی ہوئی آواز!
برہان کے افکار میں ڈوبی ہوئی للکار
خالدؓ کی شجاعت ہے تو ٹیپوؒ کی ہے تلوار
اے مردِ مجاہد، تیرا اللہ مددگار
ہاں تیرے ہی ہاتھوں میں لکھی ہے تیری تقدیر
اے وادیئ کشمیر، اے وادیئ کشمیر

بعد ازاں ذکی خاں سیکرٹری جنرل پالف نے حاضرین کو بتایا کہ 9نومبرکو اس سال کی بڑی تقریب بیادِ علامہ اقبال رکھی گئی ہے اس موقع پرکل آسٹریلیا مشاعرے کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ نیز انہوں نے اس تقریب کے پہلے پوسٹر کی نمائش بھی کی۔ تقریب کے اختتام پر ڈاکٹر ناصر علی نے اپنی آواز کا جادو جگایا جس سے حاضرین بے حد محظوظ ہوئے۔ مہمانوں کی ریفریشمنٹ سے تواضع بھی کی گئی۔

 

Syeda F GILANI
About the Author: Syeda F GILANI Read More Articles by Syeda F GILANI: 38 Articles with 63539 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.