فلکیات: مشاہداتی سائنس

مشاہدہ فلکیات کی اساس ہے، اور سائنسی طریقہ کار میں پہلا قدم ہے٬ سائنسی تحقیق کے لیے ایک ڈھانچہ ہے جو فلکیات سے حیوانیات تک ہر چیز کا احاطہ کرتا ہے- جب کسی کو کوئی شے یا واقعہ یا عمل نظر آتا ہے تو اگلا قدم اسے بیان کرنے کا ہوتا ہے کہ کیا مشاہدہ ہوا ہے- مشاہدہ کرنے والا پھر اس شے یا واقعے کو سمجھانے اور بتانے کے لیے مفروضہ کا ایک طریقہ وضع کرتا ہے- یہاں سے بات دلچسپ ہو جاتی ہے خصوصاً فلکیات میں- جیسے ہی کوئی مشاہدہ کرنے والا کوئی مفروضہ قائم کرتا ہے، ویسے ہی کئی اور ممکنہ مفروضات کا دروازہ بھی کھل جاتا ہے جو اسی مشاہدہ کی وضاحت اسی آسانی سے کر سکتے ہیں- جب ایک بار مثالی طور پہ ایک مفروضہ تجویز ہو جاتا ہے تو دوسرے ماہرین فلکیات کے لیے قابل استعمال ہونا چاہیے کہ وہ اسے بعد میں کسی وقت ملتے جلتے واقعات اور مشاہدات کی پیشن گوئی کے لیے استعمال کر سکیں- محققّق وہی مشاہدہ دوبارہ کر کے مفروضہ کی جانچ کرتا ہے- مشاہدے کی کامیابی پیشن گوئی کے جواز کی اور اس کے پیچھے کارفرما مفروضہ کی جانچ کرے گی- ہر فلکیاتی دریافت ۔۔۔۔ یہ متعّین کرنا کہ چاند پر غار کیسے بنے سے لے کر کائنات کی عمر کےمتعلّق جدید نظریہ تک۔۔۔۔ اپنی کامیابی کے لیے اسی سخت تحقیقاتی طریقۂ کار پر منحصرہے-

تقریباً سب فلکیاتی مشاہدات کو تین زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: عکس بندی، نور پیمائی اور طیف بینی -ریڈیائی مشاہدے حسّاس ڈشوں کی مدد سے جمع کیے جاتے ہیں جو ٹی وی یا طفیلی سیاّرے(سیٹلائیٹ) کی ڈشوں کے مشابہ ہوتی ہیں لیکن ان سے کافی بڑی ہوتی ہیں-

عکس بندی(امیجنگ):
عکس بندی میں اشارے یا سگنل کسی فلم یا شیشے پر نقش کر لیے جاتے ہیں یا برقی کیمرے سے حاصل کیے جاتے ہیں جنہیں سی سی ڈی یا برقی بار سے جڑا ہوا آلہ کہا جاتا ہے، جو اب بہت سے عام کیمروں میں بھی پائے جاتے ہیں، ان میں تصویری چپ سے مشابہ بار جمع کرنے والے گڑھے ہوتے ہیں - سی سی ڈی ایک مخصوص بھانپنے والا آلہ ہوتا ہے جس میں انتہائی حسّاس چپ (نیم موصل ورق) ہوتا ہے جو روشنی کو ایک بہت چھوٹے گڑھوں کے سلسلے میں محفوظ کرتا ہے جنہیں تصویری جز یا پکسل کہا جاتا ہے- جمع شدہ معلومات محفوظ کرنے اور تجزیے کے لیے ورق سے کمپیوٹر میں منتقل کی جاتی ہیں اور آخرکار ایک شبیہہ میں ڈھال دی جاتی ہیں- تصوّراتی طور پر اسی سے مشابہ عمل ریڈیائی دوربینوں کی قطاروں سے حاصل شدہ معلومات کو ایک جگہ جمع کر کے ایک ریڈیائی شبیہہ تشکیل دینے میں استعمال ہوتا ہے-

کبھی کبھی دوربین کا رخ ایک ایسے مقام کی طرف کیا جاتا ہے جہاں اجرام فلکی کا اژدھام ہوتا ہے، جیسا کہ ستاروں کے گچّھے- اگر ہم اس گچّھے میں سے کسی ایک ستارے پر تحقیق کر رہے ہوں اور اگر آلہ ایک ستارے کو دوسرے سے الگ کر کے دکھا سکے تو بڑی مدد ہو جاتی ہے- یہ مکانی تحلیل کا تصوّر ہے- یعنی مقام اژدھام میں سے اشیاء کو ایک دوسرے سے الگ کر کے نمایاں کرنے کی صلاحیت اور ان کی صاف اور واضح شبیہہ کا حصول-

کائنات میں کچھ اجسام بہت تیزی سے تغیّر پذیر ہوتے ہیں، اگر ان تغیّرات کی جتنی زیادہ ممکن ہوسکے تصویریں حاصل ہو جائیں تو سائنسدانوں کو زیادہ سیکھنے کا موقع ملتا ہے- دوربینوں سے جڑے کیمرے یقینی طور پہ ایک مشاہدے کے دوران کسی چیز کی کئی تصویریں اتار سکتے ہیں یا انسانی آنکھ کے مقابلے میں کہیں زیادہ دیر تک دیکھ سکتے ہیں، لیکن عام کیمرے،پلیٹ اور سی سی ڈی سے کتنی تصویریں لی جاسکتی ہیں اسکی ایک حد ہے، اس لیے خاص قسم کے کیمرے اور سراغ رساں آلات ان واقعات کی عکس بندی کے لیے استعمال ہوتے ہیں جو وقت کے کسی ایک دور کے دوران وقوع پذیر ہوتے ہیں- اعلیٰ وقتی یا دوری تحلیل کے پیچھے یہی تصوّر کارفرما ہے- بہترین آلہ ہمیں سیکنڈ کے ایک جزو قلیل میں کسی واقعہ کی کئی تصویریں فراہم کرتا ہے-

نور پیمائی( فوٹو میٹری):
نور پیمائی کسی شے سے آنے والی روشنی کی شدّت کی پیمائش کرنے کو کہتے ہیں- اور یہ اکثر اس آلے پر منحصر ہوتا ہے جو اعلیٰ دوری تحلیل سے مشاہدے کو محفوظ کر سکتا ہو- نور پیما کو ایک نہایت حسّاس روشنی ناپنے والا آلہ کہا جاسکتا ہے- یہ روشنی کے لپکے والی عکس بندی میں استعمال ہونے والے آلات سے ملتے جلتے ہوتے ہیں- نور پیما، مثال کے طور پر، کسی متغیّر ستارے سے آنے والی روشنی کی شدّت میں اتار چڑھاؤ کی پیمائش کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں- کائنات میں ستاروں اور دیگر اجسام سے آنے والی روشنی کی شدّت کا تعیّن انتہائی ضروری ہے کیونکہ ان مطالعات سے انکی چمک دمک یا بصری حجم(میگنیٹیوڈ) کا تعیّن ہوتا ہے- اکثر و بیشتر ماہرین فلکیات 8ویں حجم کا ستارہ یا 5ویں حجم کا دمدارستارہ جیسے حوالے دیتے رہتے ہیں-بصری حجم کا عدد دراصل اشیاء کی دوسری اشیاء کے مقابلے میں چمک کے تناسب کا حوالہ ہے- تیز چمکیلے تارے کے بصری حجم کا عدد کم ہوتا ہے جبکہ مدھم چمکیلے تارے کا بصری عدد زیادہ ہوتا ہے- سیریس منفی 5۔1 بصری حجم کے ساتھ آسمان شب کا چمکدار ترین ستارہ ہے کینوپس منفی 7۔0 اور بیٹلگس قریب قریب 5۔0 ہے- معیاری حالات میں ہم اپنی آنکھ سے جو مدھم ترین ستارہ دیکھ سکتےہیں اسکا بصری حجم 5ویں یا چھٹے کے قریب ہوتا ہے- نظام شمسی میں ہمارا سورج منفی 27 کے بصری حجم سے چمکتا ہے جبکہ دورافتادہ پلوٹو کا حجمی عدد 8۔16 ہے- کچھ دوردراز مبہم کہکشائیں 30 کے حجم سے چمکتی ہیں یا اس سے بھی کم!

مختلف نور پیما مختلف طول موج کی پیمائش کرتے ہیں- اسلیے ان آلات کے علیحدہ علیحدہ سیٹ ہیں جو زیریں سرخ ، بالائے بنفشی اور نظر آنے والی یا مرئی روشنی کے لیے حسّاس ہوتے ہیں- اجرام فلکی کی درجہ بندی کرنے کے لیے اور یہ مشاہدہ کرنے کے لیے کہ ان سے آنے والی روشنی کے تغیّرات کس طرح ان کے ظاہری طور پر نظر آنے والی شبیہہ پر اثر انداز ہوتے ہیں، نور پیمائی ایک بہت مربوط نظام ہے-

طیف بینی( اسپیکٹروسکوپی):
طیف بینی روشنی کو اس کے طول موج کے اجزاء میں تقسیم کرتی ہے- ہم سب کچھ نہ کچھ روز مرّہ کی طیف بینی سے واقف ہیں جیسے منشور میں سے روشنی کا انتشار یا بارش کے قطروں میں سے گزر کر قوس قزح بناتی ہوئی روشنی- یہ مظاہر سادہ طریقے سے ظاہر کرتے ہیں کہ سورج کی روشنی طیف میں موجود تمام ہی طول کی موجوں پر مشتمل ہے-

اشیاء کے مطالعہ کے لیے طیف بینی ان بہت سے سوالات کے جوابات حاصل کرنے میں مدد کرتی ہے جن کے جوابات غیر منتشر روشنی پر بھروسہ کر کے نہیں دیے جا سکتے- بین الاجرامی گیس کے بادل کی کیمیائی ترکیب کیا ہے؟ ستارہ کتنا گرم ہے؟ دمدار ستارہ کس قسم کی گیسوں اور برف پر مشتمل ہے؟ کسی کہکشاں کے مرکز سے نکلنے والی مادّے کی دھار کی کیا رفتار ہے؟ طیف بینی کے طریقے ستاروں ، کہکشاؤں ، شہابیوں اور سیّاروں کے روشنی کو جذ ب اور خارج کرنے کے عمل کا مطالعہ کر کے اس قسم کے سوالات کے جوابات تک رسائی دیتے ہیں-

سادہ ترین آلہ طیف بین (اسپیکٹرواسکوپ) ہے جو روشنی کو طول موج کے مطابق بہت مہین ٹکڑوں میں تقسیم کرتا ہے- ایک منشور یہ کام کرتا ہے ، لیکن جدید ترین فلکی طیف پیما ( وہ آلہ جو روشنی کو مجتمع کر کے تقسیم کرتا ہے اور ایک فلم پر یا کمپیوٹر میں اعداد و شمار کی صورت میں ریکارڈ کرتا ہے) میں انکساری جالی استمال ہوتی ہے- یہ آئینہ یا شیشے کا قرص (پلیٹ) ہوتی ہے جس پر نہایت باریک خطوط کھنچے ہوتے ہیں- جب روشنی ان خطوط میں سے گزرتی ہے تو وہ بہت مہین طول موج کے درجوں میں تقسیم ہو جاتی ہے- آپ سورج کی روشنی میں کسی سی ڈی( قرینہ سے ٹھنسا ہوا قرص) کو دیکھ کر سمجھ سکتے ہیں کہ انکساری جالی کیسے کام کرتی ہے ، ایک بہت باریک مسلسل رنگوں کی قوس قزح نظر آتی ہے !
Tariq Zafar Khan
About the Author: Tariq Zafar Khan Read More Articles by Tariq Zafar Khan: 25 Articles with 43839 views I am a passionate free lance writer. Science , technolgy and religion are my topics. Ihave a Master degree in applied physics. I have a 35 + years exp.. View More