پروفیسر جیمز اللّٰہ سے ڈرتا تھا۔

پروفیسر جیمز اللّٰہ سے ڈرتا تھا۔
اتوار کا دن تھا، بارش بھی خوب برس رہی تھی میں کسی کام کے لیے نکلاتومیری نظر" جامعہ کیمبرج" کے مشہورماہرِ فلکیات " سر جیمز جینس" پر پڑی جو بغل میں" انجیل مقدس" دبائے ہوئے چرچ کی طرف جارہے تھے۔ میں نے قریب ہو کر سلام کیا انہوں نے جواب نہ دیا تو میں نے دوبارہ سلام کیا جس پر وہ متوجہ ہو کر کہنے لگے، تم کیا چاہتے ہو۔ میں نے کہا دو باتیں جاننا چاہتا ہوں پہلی یہ کہ اتنی زور سے بارش برس رہی ہے اور آپنے چھاتا بغل میں داب رکھا ہے، پروفیسر جیمز اپنی اس بدحواسی پر مسکرائے اور چھاتا تان لیا، میں نے کہا دوسری بات یہ کہ آپ جیسا شہرۂ آفاقآدمی گرجا میں عبادت کے لیے جارہاہے یہ کیا؟ اس سوال پر پروفیسر جیمز لمحہ بھر کے لیے رک گئے اور پھر یہ کہہ کر روانہ ہوئے کہ" آج شام کی چائے تم میرے ساتھ پیو"

عزیزانِ من۔ علامہ عنایت اللہ خان مشرقی ( جس نے یہ سوال پوچھا تھا) دعوت قبول کرکے شام کے وقت پروفیسر جیمز کے گھر پہنچ گئے۔ ٹھیک چار بجے لیڈی جیمز باہر آکرکہنےلگی پروفیسر آپ کے منتظر ہیں۔ میں اندر گیا تو ایک میز پر چائے لگی ہوئی تھی۔ پروفیسر جیمز تصورات میں کھوئے ہوئے تھے، کہنے لگے تمہارا سوال کیا تھا" میرےجواب کا انتظار کیے بغیر پروفیسر نے اجرام آسمانی کی تخلیق، ان کے حیرت انگیز نظام، بےانتہا پنہائیوں اور فاصلوں، ان کے پیچیدہ راہوں اور مداروں نیز باہمی کشش اور طوفان ہائے نور پر ایسے ایمان افروز تفصیلات پیش کیں کہ میرا دل اللّٰہ کی اس داستان کبریا و جبروت پر دہلنے لگا اور ان کی اپنی کیفیت یہ تھی کہ سر کے بال سیدھے اٹھے ہوئے تھے، آنکھوں سے حیرت و خشیت کی دو گونہ کیفیتیںعیاں تھیں، اللّٰہ کی حکمت و دانش کی ہیبت سے ان کے ہاتھ قدرےکانپ رہے تھے،آوازلرز رہی تھی اور فرمانے لگے" عنایت اللہ خان" جب بھی میں خدا کے تخلیقی کارناموں پر نظر ڈالتا ہوں تو میری تمام ہستی خدا کے جلال سے لرزنے لگتی ہے، اور جب میں کلیسا جاکر خدا کے سامنےسرنگوں ہوکر کہتا ہوں " توبہت بڑا ہے" تو میری ہستی کا ہر ذرہمیرا ہمنوا بن جاتا ہے۔ مجھے بےحد سکون اور خوشی ملتی ہے مجھے دوسروں کی نسبت عبادت کا زیادہ کیف ملتا ہے، عنایت اللہ خان ! اب تمہاری سمجھ میں آیا کہ میں گرجے کیوں جاتا ہوں۔ علامہ مشرقی کے دماغ میںپروفیسر جیمز کی اس تقریر نے عجیب کہرام پیدا کردیا۔ اس نے کہا " جنابِ والا، میں آپ کی روح افروز تفصیلات سے بےحد متاثر ہوا ہوں اس سلسلے میں قرآنکی ایک آیت یاد آگئی ہے اگر اجازت ہو تو پیش کردوں۔ انہوں نے کہا " ضرور" چناں چہ میں نے سورۃ فاطرکی آیاتپڑھی جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے " پہاڑوں میں سفید اور سرخ رنگ کے قطعاتہیں اور بعض کالے سیاہہے،انسانوں اور کیڑوںاور چوپاؤں کے بھی کئی طرح کے رنگ ہے، اللّٰہ سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہے" یہ آیات سنتے ہی پروفیسر جیمز بولے کیا کہا ....اللّٰہ سے صرف اہل علم ڈرتے ہیں، حیرت انگیز، بہت عجیب، یہ بات جو مجھے پچاسبرس کے مسلسل مطالعہ و مشاہدہ کے بعد معلوم ہوئی ہے پیغمبرِ اسلام کو کس نے بتائی؟ کیا قرآن میں واقعی یہ آیت موجود ہے اگر ہے تو عنایت اللہ خان میری شہادت لکھ لو کہ قرآنایک الہامی کتاب ہے، کیوں کہ پیغمبرِ اسلام ٱمی تھے انہیں یہعظیم حقیقت خود بخود معلوم نہیں ہو سکتی، انہیں یقیناً اللّٰہ نے بتایاہوگا، بہت خوب، بہت عجیب۔

عزیزانِ من اللہ سے صرف وہی بندے ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہے۔ اس آیت میں ذکر شدہ صاحب علم کی تفسیر میں اربابِ علم نے کافی دوڑ دھوپ کی ہیں، اور اس کا اصل مفہوم جاننے کے لیے سب نے اپنی تحقیق کے گھوڑے دوڑائے ہے۔ کسی نے علم کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے تو کوئی اختصار کے ساتھتین علوم کا قائل ہوا یعنی علم توحید، علم رسالت اور علم آخرت۔ امام زمانہ شاہ ولی اللہ محدث دہلویتو پانچ سے بھی زیادہکے قائل ہیںجس کی تفصیل کے لیے" الفوز الکبیر فی اصول التفسیر" کا مطالعہ کیا جائے۔ یہاں تک کہ حکیم الامت علامہ محمد اقبال مرحوم بھی یہ موتی نکالنے علم کے سمندر میں غوطہ زن ہوئے تھے۔ انہوں نے علم کی تقسیم ایک دوسرے زاویہ نگاہ سے کی ہے۔ چناں چہ ماہنامہ البیان امرتسر میں لکھا ہے کہ علامہ اقبال نے " حکیم عرشی امرتسری" سے ایک بار دوران گفتگو فرمایا کہ علم کے چار ذریعے ہے۔ اور قرآنمجید نے ان چاروں کی طرف رہنمائی کی ہے۔ مسلمانوں نے ان کی تدوین کی ہے اور دنیائے جدید اس باب میں ہمیشہ مسلمانوں کی منت کش رہی گی۔ پہلا ذریعہ وحی ہے جو ختم ہوچکا ہے۔ دوسرا ذریعہ آثار قدیمہ اور تاریخ ہے جس پر قرآنکی آیاتمتوجہ کر رہی ہے " سیروا فی الارض" اس آیت نے علم آثار کی بنیاد رکھ دی جس پر مسلم مصنفین نے عالی شان قصر تعمیر کیے " ذكرهم بأيام اللّٰہ" یہ آیتتاریخ کا ابتدائی نقطہ ہے جس نے ابن خلدون جیسے باکمال محقق پیدا کیے۔ علم کا تیسرا ذریعہ علم النفس ہے جس کا آغاز " وفی انفسکم افلا تبصرون" سے ہوتا ہے، اس علم کو جنید بغدادی اور ان کے رفقاء نے کمال تک پہنچایا۔ آخری ذریعہ صفحۂ فطرت ہے جس پر قرآن کی بےشمار آیاتدلالت کررہی ہیں مثلاً" والی الارضکیف سطحت" اس پر علمائے اندلسنے توجہ مبذول کرائی۔ علامہ اقبال نے یہ بھی فرمایا کہ موجودہ دنیااپنے علوم و تہذیب اور صنائع و بدائع سمیت مسلمانوں کی مخلوق ہے۔ بہرحال جتنے بھی مفسرین نے قلم و قرطاس کو گواہ کرکے علم کی تفسیر کی ہے وہ ہمارے سر آنکھوں پر،سب کی نقطۂنگاہ ہمارے لیے واجب الاحترام ہے ۔ لیکن آجمیری اس تحریر کا روئے سخن یہ نہیں ہے کہ علم کا اصل مفہوم کیا ہے، اور صاحب علم کے اس آیتکا حقیقی مصداق کون ہے۔ آج صرف یہ بات آپکےگوش گزار کرنا ہے کہ بندگانِ خدا میں سے ایسے لوگ بھی گزرے ہیں جن کی زندگی کے پچاس سال خدا کے قدرت کا مطالعہ اور مشاہدہ کرنے میں گزری۔ وہ پروفیسر جیمز جب خدا کی کبریائی بیان کرتاتو حیرت و خشیت الٰہی سے اس کے سر کے بال سیدھے اٹھ جاتے اور خدا کی حکمت و دانش کی ہیبت سے اس کا جسم کانپ اُٹھتاتھا اور آواز لرز جاتی تھی۔ پروفیسر جیمز جو ایک ممتاز ماہر ہیئت، عظیم ریاضی داں، اور ایک جید عالم طبعیات تھا ، 28 سال کی عمر میں وہ رائیل سوسائٹی کے فیلو منتخب ہوئے۔ 1918 میں کیمبرج یونیورسٹی کی طرف سے ان کے ایک مضمون " نظریہ تخلیق اور کوکبی حرکیات کے مسائل" پر انہیں آدمس پرائز دیا گیا۔ کیمبرج فلاسوفیکل سوسائٹی نے بھی " نظریہ گیس" اشعاع اور سیاراتی نظام کے ارتقاء" جیسی تحقیقاتپر انہیں ہاپ کنس پرائز عطا کیا گیا۔ الغرض سر جیمز کو 1928 میں " نائٹ ہوڈ" اور 1939 میں " آرڈر آف دی میرٹ" جیسے بلند اعزازات سے نوازا گیا۔

عزیزانِ من۔ دنیا بھر کے پروٹوکولز اور اعزازات کے باوجود وہ عیسائی پروفیسر عجائباتقدرت میں غور وفکر کرتاہے ۔ اور خدا کے تخلیقی کارناموں پر جب بھی وہ نظر ڈالتا ہے اس کی ہستی خدا کے جلال سے لرزنے لگتی ہے۔ جب بھی وہ کلیسا میں سرنگوں ہوکر خدا کی بڑائی کا اعلان کرتاہے اور عبادت کرتاہے تو اسے سب سے زیادہ سکون اس وقت ملتا ہے۔ یہ عیسائی پروفیسر دنیا کا وہ انسانہے جس نے خالص اپنی تحقیق کے بل بوتے پر قرآن کریم کو الہامی کتاب اور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی مرسل تسلیم کیا ہے۔ آج ہم ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ہم جو اللّٰہ کیتوحید کے علمبردار ہیں اور آخرت میں جنت جانے کے بھی امیدوار ہیں کیا ہم پر بھی اپنے رب کی عبادت کرتےوقت وہ کیفیت طاری ہو جاتی ہے جو پروفیسر جیمز پر ہوتی تھی۔ آج عبادات، معاملاتو معاشرتی زندگی میں ہم اللّٰہ کے احکامات کا کتناپاس رکھتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ہے۔ ہم اللّٰہ کے قدرت میں غور وفکر کرتے ہیں اور نہ اللّٰہ سے ڈرتے ہیں لیکنپھر بھی ہم صاحب علم ہیں۔ اور پروفیسر جیمز جو اللّٰہ کے قدرت میں غور وفکر کرتاہے اور اللّٰہسے ڈرتا بھی ہے لیکن پھر بھی وہ صاحب علم نہیں ہے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں۔
 

Gohar Iqbal Malak
About the Author: Gohar Iqbal Malak Read More Articles by Gohar Iqbal Malak: 34 Articles with 30258 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.