پڑھنا ہے تبھی آگے بڑھنا ہے

تحریرکلیم اﷲ قائمخانی
جتوئی ضلع مظفرگڑھ
آج 130 ملین بچیاں سکول سے باہر ہیں اور ان میں سے دو تہائی دولت مشترکہ اقوام سے تعلق رکھتی ہیں بمطابق یونیسکو پاکستان دوسرے نمبر پر ہے جسمیں بچوں کی تعداد سکولوں سے باہر ہے پنجاب میں 09ملین سے زیادہ بچے سکولوں سے باہر ہیں ان 9.2ملین بچوں میں تقریبا 5.3 ملین بچیوں کی تعداد ہے اور باقی 4.17 ملین بچے ہیں 2017 میں قومی مردم شماری کے مطابق ضلع مظفرگڑھ کی کل آبادی 4.34 ملین ہے جس میں 3.62 دیہی اور 0.7 ملین شہری آبادی شامل ہے انتمام میں 47.91% عورتیں شامل ہیں تعلیمی اعتبار سے ضلع مظفرگڑھ 28.50% ہے جسمیں 24.10% دیہی اور 55.5% شہری آبادی پڑھی لکھی ہے ۔ عورتوں کا تعلیمی تناسب 14.8% جبکہ مردوں کا تعلیمی تناسب40.9% ہے ۔ضلع میں آبادی کے بڑھنے کی رفتار 3.38% (DCR-1998) ہے پنجاب کے 36 اضلاع میں سے مظفرگڑھ تعلیمی لحاظ سے 36ویں نمبر پر ہے اور بچوں کی کم عمر شادی کے لحاظ سے بھی پنجاب میں اس ضلع کا شمار شروع میں ہی ہے۔ اگر ضلع مظفرگڑھ میں 25A آرٹیکل کے مطابق بچیو ں کی سکولوں میں تعداد بڑھانے کے ساتھ ساتھ معیاری تعلیم بھی فراہم کی جائے تو ضلع میں کم عمر کی شادی سے بچیوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ نئے نمبر شماریات کے مطابق پاکستان میں بچیوں کے پرائمری سکولوں میں تعداد تو بڑھ رہی ہے مگر جنسی فوقیت خواہ پرائمری ہو یا سیکنڈری اس قابو نہیں پایا گیا بے شک تعلیمی فقدان کی وجہ سے تعلیمی معیار پیچھے ہے مگر فیڈرل گورنمنٹ تمام صوبو ں کو تعلیم کی اہمیت اور خرچ کرنے پر ترغیب دے سکتی ہے تا کہ بچے اور بچیاں بہتر تعلیم حاصل کر سکیں بچیوں کی تعلیم نہ صرف معاشی خوشحالی اور آمدی کا زریعہ ہے بلکہ دوسرے سماجی پہلو وں جیسا کہ بچوں اور عورتوں کے صحت زندگی کے لئے آبادی کو کم کرنے ، کم عمری کی شادی روکنے ، بچوں کے حقووق کی پاسداری ، عوروں کو گھراور کاروباری جگہ پر ماحول کی بہتر فراہمی اور خوشگواری اعتبار سے بھی اہم ہے ۔

اہم نتائج:٭لڑکیوں کی تعلیم پر خرج کرنے سے معاشی اور زرعی خوشحالی بڑھتی ہے اور ذریعہ ٓمدن بھی وجود میں آتا ہے۔ اگر عورتوں کی سیکنڈری درجہ تعلیم کے موقع صرف 1فیصد بھی پڑھا لیے جائیں تو ملکی معیشت 0.3فیصد کے لحاظ سے بڑھتی ہے اور ترقی ہوتی ہے۔ خاص طور پر اگر ہم پڑھے لکھے افراد کو مزید اچھی تعلیم دیں تو ملکی ترقی کا حاصل ٓمدن اور زر مبادلہ 2فیصدبڑھایا جا سکتا ہے۔

٭صدیوں کی ریسرچ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اگر خواتین مزید تعلیم حاصل کر کے بہتر نوکریاں حاصل کریں تو وہ نہ صرف اپنا بلکہ اپنی پوری نسل اور خاندان کے لیے کما سکتی ہیں۔ جو خواتین دنیا بھر میں بغیر معاوضے اور ہر نوعیت کے کام بلا کسی صلے کے کر رہی ہیں اگر ان کو بھی معاوضہ یا کمائی دی جائے تو و ہ اپنے پورے خاندان کو خوشحال کر سکتی ہیں۔ اور بہتر معاشرے اور خاندان تشکیل پا سکتے ہیں۔ ہر آنے والے سال میں خواتین کے سکولوں میں انکو 12فیصد کے اعتبار سے اضافہ دینا چاہیے خصوصی طور پر ریاضی پڑھانے والی استاد یا ریاضی سمجھنے اور پڑھی لکھی ہونے پر اسکو 18فیصد معاوضہ چاہیے۔٭لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دینے سے وہ پڑھی لکھی ماں ثابت ہو گی مزید یہ کہ بچوں کی پیدائش کے فوراً بعد جو اموات ہوتی ہیں وہ کم ہوں گی۔ پڑھی لکھی مان بہتر طور پر اپنی اور بچے کی صحت ، زچگی کے روک تھام ، کم بچوں پر اکتفا کرنے اور اپنی اور بچوں کی صحت اور زندگی کا خیال رکھ سکے گی۔ ٭پڑھی لکھی خواتین کے کم بچے ہوں گے اور وہ اپنی شادی کے کچھ عرصے بعد ہی کم بچے پیدا کریں گی جن میں کم از کم دو سال کا وقفہ ضرور ہو گا۔ خاص طور پر بچیوں کو پرائمری تعلیم دینے سے وہ 17سال سے پہلے بچے پیدا کرنے سے بچ جائیں گی ان کا خاندان چھوٹا ہو گا اور وہ صحت مند رہیں گی۔ بچوں کی پیدائشی اموات میں 10% کمی ہو گی۔ مزید یہ کہ اگر بچیوں کی سیکنڈری تعلیم مکمل ہو گی اور 15 - 18 سال کی عمر میں بچوں کو جنم دینے سے 59% تک کمی ہو جائے گی۔٭بہتر پڑھی لکھی ماں کے بہتر صحت مند اور اچھی تعلیم والے بچے ہوں گے جن کو قوت مدافعت اور بہترین غذائیت ملی ہو گی جو سکول روزانہ جائیں گے اور جلد ہی پڑھ لکھ جائیں گی۔ ٭ہر آئے سال میں اندازاً ہر ماں اپنے بچے کے 4ماہ سکول میں پورے کرتے ہی 15سے18 سال کی عمر میں ہو گی۔٭وہ بچیاں اور مائیں جو تعلیم یافتہ ہوں گی ان کے AIDS/HIV سے بچنے کے طریقے زیادہ ہوں گے کیونکہ وہ بہت طور پر جان سکیں گی کہ کیسے صیح طریقہ جنسی کے لیے اپنا یا جائے اسی لیے ہی لڑکیوں کی تعلیم کو زیادہ تر ــ’’ معاشرتی ویکسین‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ بالکل یہی بات ملیریا کے لیے بھی کہی گئی ہے۔ ٭اگر تمام بالغوں نے پرائمری تعلیم مکمل کی ہو تب ہمیں 7لاکھ کم کیس سننے میں آئیں گے۔ جو HIVانفیکشن سے منسوب ہیں یا پھر 7ملین ایک صدی میں کم کیسز ہوں گے۔بالکل ایسے ہی ملیریا کے بارے میں کہا گیا ہے۔ اگر تمام خواتین ماؤں نے سینکڈری تعلیم پوری کی ہو بچوں کے لیے ملیریا پیراسائیٹ کے امکان 36فیصد کم ہوجائیں گے۔ ٭اعلیٰ تعلیم کا حصول ایک خصوصی طریقہ کار بتاتا ہے خواہ وہ کم عمری کی شادی سے بچنا ہو یا شادی شدہ خواتین کی زندگیوں کو بہتر بنانا ہو۔٭ہر 20میں سے 18 ملکوں میں جس میں بچیوں کی کم عمری کے امکان زیادہ ہوں ان میں بچیوں کی تعداد ایسی 6لازمی ہوں گی جو پڑھی لکھی نہیں ہوں گی وہ صرف پرائمری ہوں گی سیکنڈری پاس لڑکیاں نہیں ہو ں گی۔٭ تعلیمی فراہمی لڑکیوں کو مضبوط اور بہت طرز زندگی دینی ہیں مثال کے طور پر ایسی خواتین جس نے زیادہ تعلیمی درجات پڑھے ہوں گے وہ گھریلو ناچاکی اور جھگڑا برداشت نہیں کرے گی۔ اس کا گھریلو وسائل کے استعمال اور فیصلوں پر زیادہ عبور ہو گا۔ اور اپنی مرضی اور آزادی ہو گی کہیں بھی آنے جانے کے لیے۔ ٭ایک افریقن ملک کی تحقیق کے مطابق ہر آتے سال میں خواتین جن کی تعلیم زیادہ ہو گی وہ 10فیصد کم اس بات کو مانے گی اور یقین رکھے گی کہ گھریلو تشدد برداشت نہیں کیا جا سکتا۔٭ لڑکیوں کی تعلیم انکو قائدانہ صلاحیتوں کا ہنر سکھاتی ہے۔ تاکہ وہ عوامی سطح پر اسے استعمال کر سکے۔ ایسے معاشرتی معاملات میں انکو فیصلہ سازی، پالیسی درجے کے معاملا ت میں شمولیت، تعلیمی بہتری اور معاشرتی درجے کی نوکریوں کے حصول کے لیے اہمیت دی جائے گی۔ ٭انڈیا میں اگر 8فیصد ایسی خواتین کا اضافہ کیا جائے جو لکھ اور پڑھ سکتی ہوں وہ خواتین کا 16فیصد امیدوارانہ حصہ ڈال سکتی ہیں۔ 13فیصدخواتین کے ووٹ کا حصہ ہو گا اور خواتین کی ووٹر شرح کاسٹ 4فیصد ہو گی۔ ٭دنیاوی سطح پر ایک زیادہ پڑھی لکھی خاتون اپنے آپ کو اور اپنی فیملی /خاندان کو قدرتی آفات سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ اور اپنے بچوں اور خاندان کی صحت، انکا خیال اور حفاظت بہتر طور پر کر سکتی ہے۔ مزید یہ کہ آنے والے مسائل اور مشکلات کا سامنا دلیرانہ طریقے سے کر کے جلد سے جلد حل کر سکتی ہے۔ ٭ 2050 میں قدرتی آفات سے ہونے والی اموات 60فیصد تک کم ہو جائیں گی اگر 20 سے 39 سال کی تمام خواتین 70 فیصد تک اپنی سیکنڈری تعلیم تک پہنچ جائیں۔
 

Dr.Rukhsana Asad
About the Author: Dr.Rukhsana Asad Read More Articles by Dr.Rukhsana Asad: 6 Articles with 5063 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.