دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے؟

کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ انسان کا اس فانی دنیا میں آنے کا کیا مقصد تھا ؟کیا کبھی آپ نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں کیوں بھیجا؟کیا کبھی آپ نے یہ خیال کیا کہ ہر انسان اس دنیا سے کوچ کر جاتا ہے اور آپ کو بھی اس دنیا سے ایک دن جانا ہوگا قرآن مجید کے پہلے پارے میں کچھ اس طرح کا ارشاد ہے جس کا مفہوم ہے ”جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنانے کا ارادہ کیا تو فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانا چاہتا ہوں“یعنی انسان زمین میں اللہ کا نائب اور اس کا خلیفہ ہے پھر اللہ نے انسان کو ایسے گندے نطفے سے پیدا کیا جو کسی چیز پر لگ جائے تو وہ بھی غلیظ ہو جائے جیسا کہ اللہ قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ’کہ انسان کو پیدا کیا ایک نطفے سے ‘پھر اس قطرے سے پیدا ہونے والے انسان کو اشرف المخلوقات بنا دیا یعنی تمام مخلوقات میں سے افضل ترین مخلوق انسان کو قرار دیا حتیٰ کہ جنات اور فرشتوں سے بھی افضل اور بہتر مخلوق انسان ہے،
فرشتوں سے بہتر ہے انسان ہونا
لیکن لگتی ہے اس میں محنت زیادہ

حضرت انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو ایک ننّھا سا معصوم سے نومولود کے روپ میں ہوتا ہے پھر بڑا ہوتا چلا جاتا ہے بچپن اور لڑکپن کی منازل طے کرتا ہوا دنیا کے بکھیڑوں میں گم ہوتا ہوا نوجوانی کے مراحل میں داخل ہوتا ہے نوجوانی کی عمر میں شادی،پھر بچے اور اس کے بعد عمر ڈھلنا شروع ہوجاتی ہے اور بڑھاپے کی طرف گامزن ہوجاتا ہے اسی طرح وہ زندگی کے مدارج طے کرتا ہوا زندگی کے خاتمے تک پہنچ جاتا ہے یہاں ایک قابل غور بات یہ ہے کہ انسان کے اس دنیا میں آنے اور مختلف سٹیجز تک پہنچنے کی تو ایک خاص ترتیب ہے لیکن دنیا سے جانے کی کوئی ترتیب نہیں، بچپن میں بھی انسان اس دنیا سے رخصت ہوسکتا ہے اور بڑھاپے میں پہنچنے کے بعد اور زندگی کی رنگینیاں دیکھنے کے بعد بھی اس فانی دنیا سے کوچ کا پروانہ مل سکتا ہے غرض اس کی کوئی Limitمقرر ہے نہ ہی کوئی مخصوص عمر یا وقت مختص ہے۔

لیکن ہمارا سوال ابھی تک جوں کا توں ہے کہ انسان کا اس دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے ؟آج اس پرفتن دور میں ہر انسان دنیاوی بکھیڑوں اور ٹینشنوں میں گم ہو چلا ہے ہر کسی نے اپنے ٹارگٹ مختص کر رکھے ہیں اور اپنے بنائے ہوئے انہیں ٹارگٹوں کو Achiveکرنے کے لیے ہر انسان مسلسل تگ و دو اور کوششوں میں لگا ہوا ہے لیکن انسان دنیا میں مصروف ہو کر یہ بھولا ہوا ہے کہ جس ٹارگٹ کے پیچھے وہ بھاگ رہا ہے اور جسے Achiveکرنے کے لئے وہ مسلسل تگ ودو میں ہے کیا وہی اس کا حقیقی مقصد ہے؟ یا پھر دنیا میں آنے کا کوئی اور مقصد بھی ہے؟قرآن مجید کے انتیسویں پارے میں فرمان باری تعالیٰ ہے جس کا مفہوم ہے ”اس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے بہتر عمل کرنے والا کون ہے“یہاں پر پھر یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کون سے عمل اور کس کام کے بارے اللہ تعالیٰ ارشاد فرما رہے ہیں اس کے بارے میں ستائیسویں پارے میں ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے ”ہم نے جنوں اور انسانوں کو عبادت کے لیے پیدا کیا ہے “لیکن آج ہم دنیا میں گم ہو چکے ہیں اپنے دنیا میں آنے کے مقصد کو بھلا چکے ہیں ہم دنیاوی مال و اسباب جمع کرنے میں مصروف ہیں اور کئی سالوں بعد کے اور مستقبل کے پلان بناتے وقت موت کو بھلایا ہوا ہوتا ہے اور تقدیر کھڑی ہم پر ہنس رہی ہوتی ہے۔
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں

اس لئے ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہمارا دنیا میں آنے کا مقصد کیا تھا؟ کیا ہم اس مقصد کو لے کر چل رہے ہیں؟ اگر نہیں چل رہے تو آج سے عہد کریں کہ دنیا میں آنے کے مقصد کو سامنے رکھ کر زندگی گزاریں گے تاکہ ہم اس فانی دنیا میں کامیاب ہو سکیں اور کل آخرت میں رب ذوالجلال کے سامنے سرخرو ہو سکیں ۔
AbdulMajid Malik
About the Author: AbdulMajid Malik Read More Articles by AbdulMajid Malik: 171 Articles with 188419 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.