بچوں کی تعلیم و تربیت

میرے مشاہدہ میں آیا ہے کہ اگر بچہ تین یا چار سال کی عمر میں بول نہیں رہا,یا دوسرے بچوں جیسے مشاغل نہیں کرپا رہا ہے. تو والدین کو فکر لاحق ہونے لگتی ہے اور وہ اپنے بچے کو لوگوں سے چھپانے لگتے ہیں. اور اسے کسی سکول میں بھی داخل نہیں کراتے اور بچے کو اپنے سوشل سرکل اور رشتداروں میں لے کے جانے سے بھی گھبراتے ہیں. اور ایسے پیرنٹس اپنے بچوں کو چائلڈ سپیشلسٹ کے پاس لے کے جاتے ہیں اور انہیں اگرخدانخواستہ وہ کہہ دے کہ مجھے لگتا ہے کہ آپ کا بچہ آٹیزم کا شکار ہے ہم تو بجائے اس کے کہ والدین اسے کسی سائیکالوجسٹ سے مکمل اور صحیح ڈائیگنوز کرائیں وہ انٹرنیٹ سے علامات ڈھونڈ ، ڈھونڈ کے اپنے بچے پر فٹ کرتے رہتے ہیں. میں یہاں یہ بتاتی چلوں کہ ہر وہ بچہ جسے اگر بولنے میں مسئلہ ہو رہا ہے تو ضروری نہیں کہ وہ اور آٹزم کا شکار ہی ہو اگر آپ کا بچہ تین سے چار سال میں اگر ایک یا دو الفاظ میں اپنی بات سمجھا دیتا ہے اور تھوڑی بہت سوشل ایکٹیویٹیز بھی کر لیتا ہے تو اسے سکول ضرور بھیجیں وہ ساتھ سپیچ تھراپی بھی شروع کرادیں. ہر بچے میں اللہ نے تجسس کا مادہ رکھا ہے وہ باہر نکل کر کر چیزوں کو دیکھتا ہے , چھوتا ہے اور انہیں پکڑکر جاننے کی کوشش کرتا ہے.

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بچے دوسرے بچوں کو دیکھ کر یا انکی نقل کرکے بہت زیادہ سیکھتے ہیں . اور ایسا بچہ جب دوسرے بچوں کو بولتا دیکھتا ہے اور مختلف ایکٹیوٹیز کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو اپنی پوری کوشش کرتا ہے کہ ان کی طرح بولے اور نظمیں وغیرہ پڑھے اس کے علاوہ ایسے بچے جو عام کے بچوں سے ذہانت میں تھوڑا پیچھے ہوں. تو وہ دوسرے بچوں کے ساتھ گروپ ایکٹیویٹی یا کاپی کرکے پڑھنا لکھنا, لینگویج اور دوسری بہت سی سوشل سکیلز سیکھتے ہیں جیسے کہ مل کر کھیلنا چیزوں کو ترتیب دینا اور اپنے سارے کام کرنا وغیرہ اس طرح وہ عام بچوں کی طرح نارمل زندگی میں آ جاتے ہیں. اور بچے کو سوشل سرکل میں بھی ضرور لے کر جائیں تاکہ وہ معاشرتی آداب سیکھے . انہیں اپنے چھوٹے چھوٹے کام کرنے کے لیے دیں اور اس کے بعد انکی بھرپور تعریف کریں اور مناسب انعام بھی دیں. ہمارے ہاں والدین ایسے بچوں کو نہ صرف لوگوں سے چھپاتے ہیں بلکہ ستم بالائے ستم انہیں سپیشل سکول میں ڈال دیا جاتا ہے جہاں وہ صرف اپنے جیسے ہی بچوں کو, یا اپنے سے بھی کم ذہانت والے بچوں کو دیکھ پاتے ہیں . اگر ایسے بچے جو ذہانت میں میں تھوڑے بہتر ہوں انہیں عام اسکولوں میں عام بچوں کے ساتھ بٹھایا , پڑھایا اور سکھایا جائے تو آپ یقینا دیکھیں گے کہ ان کی ٹریننگ کا لیول بہت اوپر اور بہت اچھا ہوگا.

Sadaf Umair, Psychologist
About the Author: Sadaf Umair, Psychologist Read More Articles by Sadaf Umair, Psychologist: 4 Articles with 3308 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.