سید وجاہت رسول قادری اور فروغ رضویات کی عالمی کوششیں

[ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا کی خدمات کے تناظر میں]
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اسلاف کے مسلک و منہج کی مدلل انداز میں ترجمانی و نمائندگی کی۔ آپ نے اپنے عہد میں نوپید فتنوں کا علمی محاسبہ کیا۔ ان پر شرعی حکم عائد کر کے سرمایۂ ملت کی نگہ بانی کی۔ آپ کی ذات اہلِ حق کی پہچان اور سُنیّت کا معیار بن گئی ہے۔ آپ کی خدماتِ علمیہ دانش گاہوں اور تحقیقی اداروں کا محور و مصدر ٹھہریں۔ آج عالم یہ ہے کہ جہانِ علم و فضل میں کارِ رضا، فکرِ رضا، یادِ رضا اور ذکرِ رضا کی دھوم ہے۔ ہر بزم میں اعلیٰ حضرت کا چرچا ہے۔ ہر فن کی بلندی پر فکرِ رضاؔ کا علَم لہرا رہا ہے۔ ہر جہت میں کارِ رضا کی گونج ہے۔ ہر گلشن میں بریلی کے گُلِ ہزارہ کی خوشبو ہے ؎
ملکِ سُخن کی شاہی تم کو رضا مسلّم
جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دیے ہیں
عالمی سطح پر علمی انداز میں اعلیٰ حضرت کی خدمات کی ترسیل و توسیع کے لیے ادارۂ تحقیقاتِ امام احمد رضا کراچی کی خدمات آبِ زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں۔ ادارہ نے اپنے سرپرستوں، بانیوں اور مشیروں کی رہبری میں فتوحات کے کئی پڑاؤ نصب کیے۔ کامیابیوں کے کئی پھریرے بلند میناروں پر لہرائے۔ جس کی روشنی میں بزمِ علم و فضل نہا گئی اور نغماتِ رضاؔ سے جہانِ سُنیّت گونج گونج اُٹھا ؎
گونج گونج اُٹھے ہیں نغماتِ رضا سے بوستاں
کیوں نہ ہو کس پھول کی مدحت میں وا منقار ہے

ادارۂ تحقیقاتِ امام احمد رضا کا قیام و ضرورت
۱۹۷۹ء میں حضرت سید ریاست علی قادری بریلی شریف تشریف لے گئے ، واپسی میں حدیث و فقہ پر لکھے گئے اعلیٰ حضرت کے حواشی بشکلِ مخطوطہ ساتھ لائے۔ کراچی پہنچے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نقشبندی سے ان کی قیام گاہ پر ملاقات کی۔ دورانِ ملاقات ان مخطوطات پر کام کے سلسلے میں تبادلۂ خیال ہوا۔ ڈاکٹر موصوف نے ایک تحقیقی ادارہ کے قیام پر زور دیا۔ اعلیٰ حضرت پر علمی کام کے لیے باقاعدہ فکر سازی ہوئی۔ ۱۹۸۰ء میں ’’ادارۂ معارفِ رضا‘‘ سے فروغِ فکرِ اعلیٰ حضرت کا سفر شروع ہوا۔جسے باقاعدہ ’’ادارۂ تحقیقاتِ امام احمد رضا‘‘ کا نام دیا گیا۔ ابتدا سے ہی حضرت سید وجاہت رسول قادری اس کارواں میں شریک رہے۔ پہلا رسالہ جو اعلیٰ حضرت کا شائع ہوا وہ ’’رسالہ درعلم لوگارثم‘‘ تھا۔ جس پر شان دار مقدمہ پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نقشبندی نے لکھا۔ اشاعت ۱۹۸۰ء میں ہوئی۔شیخ حمیداللہ قادری حشمتی کی بھی ابتدا سے ہی ادارہ پر توجہ رہی۔سید ریاست علی قادری صدر نشیں ہوئے۔
اسی سال مجلہ ’’معارفِ رضا‘‘ کی تاسیس کی گئی۔جس کا نام مؤرخ و مترجم علامہ شمسؔ بریلوی نے تجویز کیا۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے تمام تر مواد محققانہ، علمی اور تحقیقی ہوتے۔ جس کا حوالہ اپنی نگارشات میں اہلِ علم و تحقیق اب تک دیتے چلے آ رہے ہیں۔ مجلہ کی اشاعت سے بزم میں روشنی پھیل گئی۔ شرق و غرب میں اعلیٰ حضرت کے افکار کا غلغلہ بلند ہوا۔ چراغ سے چراغ جلنے لگے۔ پہلے مجلہ معارفِ رضا کے ابتدائیہ میں یہ عبارت درج ہے کہ:
’’ہمیں محترمی جناب سید شاہ تراب الحق قادری، جناب سید وجاہت رسول قادری اور جناب ایچ آر خاں صاحب کا خصوصیت سے ذکر کرنا ہے کہ ان حضرات نے ہمارے ساتھ بھرپور تعاون فرمایا ہے؛ اور ہماری توقعات سے بڑھ کر ہماری مدد فرمائی ہے۔‘‘
(مجلہ معارِف رضا، اداریہ، ص۵، ۱۹۸۰ء کراچی، تاریخ و کارکردگی ادارۂ تحقیقاتِ امام احمد رضا انٹرنیشنل،پروفیسر ڈاکٹر مجیداللہ قادری، ص۱۱،۲۰۰۵ء)

منزل بہ منزل
ادارہ کا قیام عمل میں آیا۔ لوگ ساتھ آتے گئے۔ کارواں تشکیل پاتا گیا۔ افراد جُڑتے گئے۔ کام کی رفتار بڑھتی چلی گئی۔ابتدا ہی میں حضرت سید وجاہت رسول قادری شامل ہوئے۔ کام سے منسلک ہوئے۔ اعلیٰ عہدے پر فائز تھے ہی؛ ادارہ میں بھی آپ کی سرگرمی بڑھتی گئی۔ رونق دوبالا ہوئی۔ سید ریاست علی قادری کے دست راست ہوئے اور بعد از وصال صدر نشیں ہوئے۔
[۱] سالانہ امام احمد رضا کانفرنس کا انعقاد ہونے لگا۔ جس میں علما، مشائخ، ججس، بیرسٹر، وکلا، پروفیسرز، طلبہ اور عمائدین و ماہرینِ علم و فن جمع ہوتے۔ مقالے پڑھے جاتے۔ تدابیر تیار کی جاتیں۔ اشاعت کے نئے نئے منصوبے بنتے ۔ علمی کام کیے اور کروائے جاتے۔ کانفرنس کے موقع پر منظور حسین جیلانی کی تجویز پر ’’مجلہ امام احمد رضا کانفرنس‘‘ کی اشاعت بھی عمل میں لائی گئی؛ جس کے لیے ساری دُنیا کی مقتدر ہستیوں سے اعلیٰ حضرت پر تاثرات اور کانفرنس کے لیے پیغامات لکھوائے جاتے۔ الحمدللہ! راقم نے کئی ہندی اکابر کی طرف سے پیغامات بھیجے؛ جن کی اشاعت بھی عمل میں آئی۔ یہ بھی اہم پیش رفت تھی جس کے خوش گوار اثرات رونما ہوئے کہ اعلیٰ حضرت پر مختلف میادین کے ماہرین نے اظہارِ خیال کیا اور بارگاہِ رضاؔ میں محبتوں کا خراج، عقیدتوں کا توشہ نذر کیا۔
[۲] مجلہ معارفِ رضا پابندی سے چھپنے لگا۔اردو کے ساتھ ہی عربی و انگریزی میں بھی چھپنے لگا۔
[۳] بعد کو معارف رضا(اردو) ماہ نامہ کے بطور چھپنے لگا۔ راقم کی بھی کئی تحریریں گزرے کئی برسوں سے چھپ رہی ہیں۔
[۴] ہر سال فکرِ رضا پرتحقیقی انداز میں کتابوں کی اشاعت ہونے لگی، اردو کے ساتھ ہی عربی و انگریزی میں بھی اشاعت کا سلسلہ دراز ہوا۔پھیلتا چلا گیا۔ غبار چھٹتے گئے۔ جھوٹ کی تہیں چاک ہونے لگیں۔ سچ اُبھرنے لگا۔ چھانے لگا۔ صبح نمودار ہوئی۔
[۵] جامعات و یونیورسٹیز میں پی ایچ ڈی و ایم فل کے لیے مقالات لکھے جانے لگے۔ ادارہ کی رہنمائی و رہبری ہر مقام پر شامل رہی۔سید وجاہت رسول قادری نے مواد کی فراہمی کے لیے ہمیشہ تن دَہی و فراخ دلی کا مظاہرہ کیا۔ از خود مواد کے لیے رہنمائی کرتے اور بذریعۂ ڈاک یا دَستی اسکالرز تک مٹیریل پہنچاتے۔ اس پہلو سے انڈیا کے اکثر محققین گواہ ہیں کہ جب بھی کسی عنوان پر ریسرچ کے لیے ان سے رابطہ کیا گیا؛ بروقت تعاون فراہم کیا۔ خاکہ میں مدد دی۔ اعلیٰ حضرت پر کام کے لیے عنوان کا تعیین کیا۔ پھر عنوان کی منظوری سے مقالہ کی تکمیل تک۔ Thesisکی تیاری میں مسلسل رابطہ قائم رکھتے ہوئے ہر ممکن اعانت کرتے۔ راقم نے خود کئی عناوین پر مقالہ نویسی میں سید وجاہت رسول قادری صاحب سے مدد لی۔ آپ نے کتابوں کے سیٹ بھیجے۔حوصلہ افزائی کی۔ ترسیل کے اخراجات خود کرتے اور کتابیں فوراً بھیجتے۔

معارفِ امام احمد رضا کانفرنس
ادارۂ تحقیقاتِ امام احمد رضا کے قیام سے ہی امام احمد رضا کانفرنس کے انعقاد کا دائرہ وسیع ہوتا رہا۔ پہلے ملکی سطح پر کانفرنس ہوتی رہی۔ پھر عالمی سطح پر ہونے لگی۔ ان کانفرنسوں میں بڑی بڑی شخصیات نے شرکت کی۔ صاحب زادہ سید وجاہت رسول قادری کی صدارت نے کام کو پختگی عطا کی۔آپ نے حضرت سید ریاست علی قادری کی نیابت خوب ادا کی۔ ان کے منصب و مشن کی تقویت کا سامان مہیا کیا۔ ٹیم فعال تھی۔ افرادی قوت میسر تھی۔ ارادے نیک تھے۔چشم و چراغِ خانوادۂ اعلیٰ حضرت مفتی تقدس علی خاں بریلوی کی دُعائیں ساتھ تھیں۔ مقاصد میں کامیابی ملتی گئی۔ذکر تھا کانفرنسوں میں شریک مشاہیر شخصیات کا، جن میں نمایاں شرکا کے نام یہاں ذکر کیے جاتے ہیں، جن کی زینت سے بزم میں سیکڑوں چراغ جَل اُٹھے اور آج بھی بزمِ رضا ؔ میں کلامِ رضاؔ کے نغموں کی گونج ہے :
۱۔ حضور پیر سید طاہر علاؤالدین القادری الجیلانی
۲۔ حضور تاج الشریعہ علامہ اختر رضا خان ازہری(بریلی شریف)
۳۔ حضور سرکار کلاں مولانا سید مختار اشرف اشرفی الجیلانی (کچھوچھہ شریف)
۴۔ حضرت سید یوسف ہاشم الرفاعی(سابق وزیر اوقاف کویت)
۵۔ علامہ شمسؔ بریلوی
۶۔ علامہ سید شاہ تراب الحق قادری
۷۔ علامہ ارشد القادری
۸۔ علامہ شاہ احمد نورانی
۹۔ خواجہ ابوالخیرعبداللہ جان نقشبندی مجددی
۱۰۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نقشبندی
۱۱۔ علامہ قاری رضاء المصطفیٰ اعظمی
۱۲۔ علامہ عبدالحکیم شرف قادری
۱۳۔ مفتی ڈاکٹر سید شجاعت علی قادری(شیخ الحدیث دارالعلوم نعیمیہ)
۱۴۔ پروفیسر ڈاکٹر شیخ حازم محمد احمد المحفوظ الازہری(استاذ شعبۂ اردو ادب، الازہر یونیورسٹی مصر)
۱۵۔ مفتی محمد نصراللہ خان افغانی(سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افغانستان)
۱۶۔ مفتی محمد حنیف خان رضوی مصباحی
۱۷۔ ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی
۱۸۔ ڈاکٹر غلام یحیٰ انجم مصباحی
۱۹۔ مولانا یٰسٓ اختر مصباحی
۲۰۔ ڈاکٹر مفتی مکرم احمد نقشبندی(شاہی امام مسجد فتح پوری دہلی)
۲۱۔ پروفیسر شاہ فریدالحق
۲۲۔ خواجہ رضی حیدر
۲۳۔ پروفیسر ڈاکٹر مختارالدین احمد (سابق صدر شعبۂ عربی، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ)
۲۴۔ پروفیسر ڈاکٹر پیر زادہ قاسم رضا صدیقی(صدر شعبۂ فزیالوجی، کراچی یونیورسٹی)
۲۵۔ پروفیسر ڈاکٹر حافظ عبدالباری صدیقی
۲۶۔ پروفیسر ڈاکٹر محمود حسین بریلوی
۲۷۔ ڈاکٹر سید جمال الدین اسلم مارہروی
۲۸۔پروفیسر سید عبدالرحمٰن بخاری
کانفرنسوں کے انعقاد کا سلسلہ کراچی، لاہور و اسلام آباد میں ہوا۔ عالمی سطح پر کئی ملکوں میں تحقیقی کانفرنسوں کا اہتمام ہوا۔ اب تک ادارہ کے زیر اثر کانفرنسوں کا انعقاد ہو رہا ہے۔ ایک اہم شروعات ادارہ نے یہ کی کہ اعلیٰ حضرت پر جامعات میں ریسرچ کرنے والے اسکالرز کو ’’امام احمد رضا گولڈ میڈل‘‘ پیش کرنا شروع کیا۔ خود ہند کے کئی اسکالرز اس میڈل سے سرفراز ہو چکے ہیں۔ کچھ دقتوں کے باعث اِدھر کچھ مدت سے سید وجاہت رسول قادری ہند نہ آسکے۔ راقم کو کئی مرتبہ موصوف نے کہا کہ ہند میں اعلیٰ حضرت پر تحقیق کا مرحلۂ شوق طے کرنے والے متعدد اسکالرز کے گولڈ میڈل ادارہ میں رکھے ہوئے ہیں؛ جنھیں ان تک پہنچانا ہے۔ راقم نے اِس سلسلے میں اپنی سی کوشش کی لیکن کامیابی نہ مل سکی۔ سالِ گزشتہ ڈاکٹر امجد رضا امجدؔ سے میری اس سلسلے میں گفتگو بھی ہوئی تھی کہ سید وجاہت رسول قادری صاحب نے آپ سمیت متعدد محققین رضویات کے میڈلز کا مجھ سے ذکر کیا تھا۔
سید وجاہت رسول قادری نے کانفرنسوں میں جو خطباتِ استقبالیہ پیش کیے۔ وہ اعلیٰ حضرت پر علمی اعتبار سے اہمیت کے حامل ہوتے تھے، جن کا تجزیہ ایک وسیع مقالہ کا متقاضی ہے۔کوئی صاحبِ قلم اِن جہتوں سے جائزہ لے سکتا ہے: اعلیٰ حضرت پر علمی کام کی ضرورت:تحقیقی سفر میں مشاہدات کے اوراق، منزل بہ منزل رضویات کا پڑاؤ، بحیثیت فرع علم مطالعہ رضویات کے جدید تقاضے، اسلوبِ تحقیق کی عصری معنویت۔
ادارۂ تحقیقاتِ امام احمد رضا کے منصوبوں کو عملی شکل دینے کے لیے مال و اَسباب اور وسائل کی فراہمی کے لیے بھی سید وجاہت رسول قادری نے اراکین کے ساتھ مل کر جدوجہد کی۔ کتابوں کی اشاعت کی راہ ہموار کی۔ معارفِ رضا میں مدتوں اداریہ لکھا جو حال کے شامیانے میں فکر رضاؔ کی روشنی میں تاباں مستقبل کی طرف رہنما ہوتے تھے۔

تاباں وجاہتیں
ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا کے سفر میں نشیب و فراز بھی آئے، لیکن ادارہ استقامت کے ساتھ منزل کی سمت گامزن رہا۔ ۳؍جنوری ۱۹۹۲ء میں صدر ادارہ سید ریاست علی قادری کا وصال اسلام آباد میں ہوا، یہ زخم بہت شدید تھا۔پھر اب سید وجاہت رسول قادری کا وصال ۲۶؍ جنوری ۲۰۲۰ء/۳۰؍جمادی الاول ۱۴۴۱ھ کو ہوا جو تازہ زخم ہے۔ سید وجاہت رسول قادری کو فروری ۱۹۹۲ء میں سید ریاست علی قادری کے وصال کے بعد ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا کا صدر منتخب کیا گیا۔ آپ نے اپنے منصب کو بحسن و خوبی انجام دیا۔۱۹۹۳ء کی ایک تحریر میں وجاہت صاحب ادارہ کی خدمات کے ضمن میں لکھتے ہیں:
’’یہ سعادت ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا کے حصہ میں آئی کہ وہ امام احمد رضا محدث بریلوی کے فکر و مشن کو عام کرنے میں ہمہ تن مصروف ہے۔ ناشر رضویات سید ریاست علی قادری رحمۃ اللہ علیہ نے آج سے ۱۳؍ سال قبل جس مشن کی داغ بیل ڈالی تھی، ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا کی شکل میں؛ آج الحمدللہ وہ ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اور اس کے ثمرات ملکی و بین الاقوامی سطح پر ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ امام احمد رضا محقق بریلوی کے معاندین و حاسدین کا قائم کردہ غلاف تارِ عنکبوت کی طرح تار تار ہونا شروع ہو گیا ہے۔ رات کی ظلمت چھٹ رہی ہے، جوں جوں صبح ہوتی جا رہی ہے، کھوٹے سکوں میں سے کھرے سکے کی پہچان ہوتی جا رہی ہے اور اس بیش قیمت ہیرے کی چکاچوند سے آنکھیں خیرہ ہو رہی ہیں۔‘‘ (مجلہ امام احمد رضا کانفرنس ۱۹۹۳ء، ص۱۱۔۱۲)
ادارہ نے اپنا ایک شعبہ برائے مطبوعات ’’المختار پبلی کیشنز‘‘ قائم کیا۔ جہاں سے عربی، اردو، انگریزی، فارسی اور سندھی میں کتابیں ترجمہ ہو کر منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئیں۔ یوں ہی مشنِ امام احمد رضا استقامت فی الدین و اخلاقی خوبیوں کی تعمیر کے تئیں اصلاحی و اخلاقی لٹریچرز بھی منظر عام پر آئے۔ کئی کتابیں تو خود سید وجاہت رسول قادری نے تحریر فرمائیں۔جن کی فہرست آگے ذکر کی جائے گی۔

دورۂ قاہرہ مصر
سید وجاہت رسول قادری نے علامہ عبدالحکیم شرف قادری کے ساتھ فروغِ رضویات کی غرض سے جامعۃ الازہر قاہرہ مصر کا دورہ کیا۔ یہ سفر ۶؍ستمبر ۱۹۹۹ء کو شروع ہوا۔۱۷؍ روزہ دورہ میں کئی اہم تقاریب مختلف شعبوں کے اسکالرز کے ساتھ منعقد کی گئیں۔ بالخصوص شیخ الازہر سے بڑی اہم ملاقات رہی؛ جس میں اعلیٰ حضرت کے ترجمۂ کنزالایمان سے متعلق ان کا مثبت تاثر اور اعلیٰ حضرت کی تصانیف سے متعلق اظہارِ خیال اہمیت و افادیت کے حامل ہیں۔ اسی دورہ میں ایک اہم تقریب جامعۃالازہر کے کیمپس میں منعقد کی گئی؛ جس میں اعلیٰ حضرت پر علمی کام کرنے والی درج ذیل شخصیات کو گولڈ میڈل سے نوازا گیا:
۱۔ دکتور حسین مجیب المصری
۲۔ دکتور فوزیہ عبدربہ
۳۔دکتور رزق مرسی ابوالعباس
۴۔شیخ حازم محمد المحفوظ
اسی تقریب میں مصر سے شائع ہونے والی کتاب ’’المنظومۃ السلامیۃ‘‘ (سلامِ اعلیٰ حضرت ’’مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘ کا عربی ترجمہ)شرکاے بزم کو پیش کی گئی، جسے دکتور حسین مجیب مصری نے ترجمہ کیا ہے۔
اسی سفر میں جامعہ عین الشمس قاہرہ کی مختلف کلیات میں اعلیٰ حضرت نیز دیگر علماے اہلسنّت کی ۳۷۵؍کتابیں عطیہ کی گئیں۔
عرب دُنیا میں اعلیٰ حضرت کی مقبولیت پر پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد کی کتاب ’’امام احمد رضا اور عالم اسلام‘‘ اور ’’امام احمد رضا اور دُنیاے عرب‘‘ کا مطالعہ کریں۔ یا راقم کا مقالہ ’’امام احمد رضا: تحقیق کے آئینے میں‘‘ (مشمولہ یادگارِ رضا، مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی)کا مطالعہ مفید ہوگا۔
جنوری ۲۰۰۱ء میں عالمی میلاد کانفرنس کا انعقاد کراچی میں ہوا، برکاتی فاؤنڈیشن نے اس کا اہتمام کیا، تواس موقع پر عرب و عجم کے سیکڑوں علما مدعو کیے گئے۔ ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا کی طرف سے علما و مشائخ کے استقبال کے لیے ایک پروگرام حضرت سید وجاہت رسول قادری کی نگرانی میں ہوٹل ریجنٹ پلازہ میں منعقد کیا گیا، جس میں علما ے عرب نے اعلیٰ حضرت کی خدمات پر کھل کر اپنے تاثرات پیش کیے۔
۱۴۲۲ھ میں دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف کا صد سالہ جشن منایا گیا۔ ادارہ کا ایک مؤقر وفد سید وجاہت رسول قادری کی سربراہی میں عازمِ ہند ہوا۔ بریلی شریف میں ہونے والے عالمی جشن میں شرکت کی۔ اعلیٰ حضرت پر ہند میں ہونے والے علمی کاموں کا جائزہ لیا۔ بعد کو صد سالہ جشن منظر اسلام کا آنکھوں دیکھا حال کے زیر عنوان سید صاحب نے اس کی روداد لکھ کر شائع کی۔ اس سفر میں بھی کارِ رضاؔ پر کئی اہم نشانات طے کیے گئے۔ کئی مشاہدات کے اَوراق روشن ہوئے۔اس موقع پر خانقاہِ رضویہ بریلی شریف نے ادارہ سے وابستہ چار شخصیات کو اعزاز و اعترافِ خدمات سے نوازا؛ ان میں سید وجاہت رسول قادری بھی شامل ہیں، چار شخصیات کے نام اس طرح ہیں جنھیں وثیقۂ اعتراف و شیلڈ تفویض ہوئی:
۱۔ صاحب زادہ سید وجاہت رسول قادری
۲۔ حضرت علامہ شمس بریلوی
۳۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد
۴۔ پروفیسر ڈاکٹر مجیداللہ قادری
سید صاحب نے معارفِ رضا کا خصوصی شمارہ ۴۲؍ مقالات پر مشتمل ’’صد سالہ جشن دارالعلوم منظر اسلام بریلی‘‘ شائع کیا۔اسی موقع پر ایک کتاب بھی بعنوان ’’دارالعلوم منظر اسلام‘‘ شائع کی گئی جس میں سید وجاہت رسول قادری اور پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد کے مقالات شامل تھے۔اس سال دارالعلوم منظر اسلام کی تعلیمی خدمات کے تناظر میں کئی اشاعتی کام رضویات کے زیر عنوان ادارہ سے ہوئے، جن میں تین کتابیں سید وجاہت رسول قادری نے تحریر کیں۔
تصانیف
سید صاحب کو تحریر و تصنیف سے گہرا شغف تھا۔ نثر عمدہ، سلیس، رواں دواں تھی۔ اسلوب دل کش اور محققانہ تھا۔ آپ کی تصانیف کی فہرست یہاں پیش کی جاتی ہے:
۱۔ امام احمد رضا اور تحفظ عقیدۂ ختم نبوت
۲۔ تاریخ نعت گوئی میں امام احمد رضا کا مقام
۳۔ تذکرہ مولانا سید وزارت رسول قادری
۴۔دارالعلوم منظرِ اسلام
۵۔ اصلاحِ معاشرہ
۶۔ رحمت عالم ﷺ امن و اخوت کے داعی اعظم
۷۔ اسوۂ حسنہ کے چراغ
۸۔ اسلام میں عدل و احسان کا تصور
۹۔ خانوادۂ نبوت کا اسوۂ حسنہ
۱۰۔ حقیقت عید میلادالنبی ﷺ
۱۱۔ فروغِ صبحِ تاباں (مجموعۂ کلام)
۱۲۔ معلم کائنات
۱۳۔کنزالایمان کی عرب دُنیا میں پذیرائی
۱۴۔ اصلاحِ معاشرہ سیرت رسول ﷺ کی روشنی میں
۱۵۔ امام احمد رضا کا اسلوبِ تحریر و تحقیق
۱۶۔ اہلِ تصوف کا تصورِ جہاد
۱۷۔ امام احمد رضا اور انٹرنیشنل جامعات
۱۸۔ لال قلعہ سے لال مسجد تک
۱۹۔ فضیلتِ اعتکاف
۲۰۔ Imam Ahmed Raza Barelvi
۲۱۔ معارفِ اسلام
۲۲۔ سفر نامۂ قاہرہ
۲۳۔ سفر نامۂ بنگلہ دیش
علاوہ ازیں سال نامہ معارفِ رضا، ماہ نامہ معارفِ رضا کے اداریے، شذرے، تبصرے، تجزیے اور مجلہ امام احمد رضا کانفرنس کے ابتدایے بھی اِس قدر جامع ہیں کہ جنھیں مرتب کر لیا جائے تو کئی جلدیں بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ! ادارہ کے موجودہ اراکین کو استحکام بخشے کہ وہ ان اثاثوں کو جلد منظم طریقے سے کتابی شکل دے کر بزمِ علم کو معطر کر دیں۔
آپ نے شمع علم روشن کی۔ مینارِ رضا سے جو روشنی لی وہ تا حیات بانٹتے رہے۔ اُجالے پھیلاتے رہے۔ عشقِ رسول ﷺ کو دلوں میں جگاتے رہے۔ جذبات کو تازگی فراہم کرتے رہے۔ دُشمنانِ ناموسِ رسالت سے بچنے کی تلقین کرتے رہے۔مسلکِ اعلیٰ حضرت کی تقویت کا ساماں کرتے رہے۔ انھیں کی بارگاہ میں انھیں کے اشعار نذر کرتے ہوئے قلم کو روکتا ہوں ؎
اویسی جنت الفردوس میں پہنچے یہی کہتے
تِرے دُشمن سے کیا رشتہ ہمارا یا رسول اللہﷺ
نصابِ عشق تاباںؔ ہے ہمارا یارسول اللہﷺ
تِرے دُشمن سے کیا رشتہ ہمارا یا رسول اللہﷺ
٭ ٭ ٭

[email protected]
+919325028586
۱۶؍ فروری ۲۰۲۰ء
بروز اتوار بوقت ۲؍بجے شب
 

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 256397 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.