صدائے حق

ایم ایم کی کتاب صدائے حق کا سرورق اُبھرتے سورج کا منظر پیش کر رہا ہے اور پرندے سفر کے لئیے اڑان بھر رہے ہیں کتاب کا سر ورق اتنا پر کشش ہے کے ہر شخص کو کتاب پڑھنے پر مجبور کر دیتا ہے کتاب کا انتساب مصنف نے اپنے والدین کے نام کیا ہے۔بلاشبہ وہ خوش قسمت ہیں جن کے ساتھ والدین کی راہنمائی اور حوصلہ افزائی شامل ہے۔اﷲ رب العزت سے دعا ہے والدین کا سایہ ان پر ہمیشہ سلامت رہے اور وہ ان کی دعاوٗں سے کامیابیاں سمیٹتے رہیں۔

’’پیش لفظ‘‘
کا آغاز وہ اپنے لکھنے کے سفر سے کرتے ہیں اور اختتام وہ اس خوبصورت دعا کے ساتھ کرتے ہیں’’اﷲ تعالیٰ مجھے حق اور سچ لکھنے کی توفیق عطا فرمائے‘‘یہ کتاب ہر شخص کے لیے ہے چاہے وہ بچہ ہو یا بوڑھامرد ہو یا عورت خاص طور پر نوجوان نسل کے لیے ہے۔ابتدائی کالمز بچوں کے لیے بہت ضروری ہیں وہ ان کالمز سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں بہت خوبصورت کتاب جو بچوں کو اﷲ اور اس کے رسول سے محبت کرنا سکھاتی ہے ۔ماہ صیام میں معاشرے کو رمضان کا احترام کرنے اور مسحق افراد کا خیال رکھنے کا بتایا گیا ہے کالم شریعت اور قانون پر مبنی جو خصوصاً نوجوانوں کے لیے ہے کے وہ شریعت کے مطابق زندگی بسر کر سکیں اور قانون سے واقف ہوں ارسطو کے قول سے ظاہر ہوتا ہے۔ ایم ایم علی نے خاصی محنت کے بعد اس کتاب کے لفظوں کو صفحے پر اتارا ہے،یہ کتاب مختلف کالمز کا مجموعہ ہے اور ان کالمز کو دس باب میں تقسیم کیا گیا ہے۔

پہلا باب ’’روح اسلام‘‘
جس میں مصنف اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا درس دیتے ہوئے کہتے ہیں’’اﷲ سے محبت ان کے محبوب سے محبت کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔اور رسول اکرم ﷺ سے محبت کا تقاضا یہ ہے کے اپنی زندگی کو قرآن و سنت کی روشنی میں گزارہ جائے‘‘ماہ صیام مقدس مہینہ ہے جس میں ہمیں موقع ملتا ہے ہم اپنی نیکیاں بڑھا سکیں یہاں مصنف ایک ایسے شخص کے چشم دید گواہ دکھائی دیتے ہیں جو خالصتاً اﷲ کی رضا کے لیے اس بابرکت مہینے میں مستحق افراد کی مدد کے لیے تیار رہتا ہے۔

’’شریعت اور قانون‘‘ نامی کالم میں مصنف نے سوالات اٹھائے ہیں کیا ہمارے ملک کا آئین امن و امان،مذہبی آزادی، جان و مال اور عزت کی حفاظت جیسے بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے؟ایسے سوالات صرف مصنف کے نہیں بلکہ یہ اس معاشرے میں بسنے والے ہر اس شخص کے ہیں جو بے انصافی کا شکار ہے جو روز مجرموں کو اپنے سامنے دیکھتا ہے لیکن سزا دلوانے سے قاصر ہے۔اسلام اور عورت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے قرآن و حدیث کی روشنی میں عورت کا مقام واضح کیا ہے۔وہ روشن خیالی کے نام پر عورت کی عزت کے رسوا ہونے پر رنجیدہ ہیں۔

آج کل کے بچے جو Spiderman اور doremoon سے متاثر ہیں ان کے لیے پہلا باب انتہائی اہم ہے ۔تا کہ وہ اسلامی تاریخ سے روشناس ہو سکیں اور ان خواتین کے لیے جو آزادی کے نام پر ہوس کا نشانہ بن رہی ہیں۔

دوسرا باب ’’امت مسلمہ‘‘
جس میں فلسطین کے علاقے ’’غزہ‘‘ کا ذکر کرتے ہیں جو اسرائیل کی بے حسی کا شکار ہوا وہ ان مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی سسکیاں سنتے ہوئے اپنے آنسوؤں کو الفاظ کی صورت میں بہاتے ہوئے نظر آتے ہیں غزہ کے ساتھ ساتھ ’’برما‘‘ میں ہونے والی دہشتگردی پر لکھے گئے الفاظ ایک انسان کے رونگھٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی ہیں۔کشمیر جو برصغیر پاک و ہند میں واقع ریاست ہے جہاں بھارتی فوج کشمیریوں پر مظالم ڈھا رہی ہے اس پر لکھ کر مصنف نے تاریخ کے طالب علم ہونے کا حق ادا کر دیا۔

تیسرا باب ’’فلاح انسانیت‘‘
جس میں معصوم بچوں کی ٹھوکریں، معاشرے کا بچوں کے ساتھ رویہ اور سڑک کنارے ننگے پاؤں چلتے ہوئے بچے دکھائی دیتے ہیں۔

بچوں کے ساتھ مصنف کی گہری وابستگی ان کے خوبصورت دل کی ترجمانی کرتی ہے۔بچوں کا اغوا ہو جانا جو دن بدن سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے

اس کے لیے وہ پنجاب میں چائلڈ پروٹیکشن بیورو نامی ادارے کی وسعت کے لیے حکومت سے عرض خواہ ہیں۔وہ تھر میں موجود بھوک پیاس سے بلکتے بچوں کو بھی نہیں بھولے وہاں قحط سالی اور سندھ حکومت کے رویے پر اظہار افسوس کرتے ہیں انہوں نے اپنے ہر کالم میں معاشرتی مسائل کی نشاندہی کی ہے ۔اور ان مسائل کی وجہ یہی نظر آتی ہے کے آج کا مسلمان قرآن و سنت کے مطابق زندگی نہیں گزار رہا۔
خدمت انسانیت کے جذبے سے سرشار لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ ایسے لڑکے سے متعارف کرواتے ہیں جس کے بارے میں پڑھ کر دل چاہتا ہے دنیا کا ہر شخص اُس 16 سالہ لڑکے جیسا بن جائے جو ہسپتال میں بنا کسی غرض کے مریضوں کی خدمت کرتا ہے۔اس لڑکے کو جنم دینے والی ماں پر رشک صرف مصنف کو ہی نہیں بلکہ ہر پڑھنے والے کو آتا ہے۔

’’قدرتی آفات‘‘
ملک میں بڑھتے ہوئے حادث،ٹریفک قوانین کو نظر انداز کرنا اور ڈرائیونگ لائسینس جاری کرتے وقت ضروری کاروائی کو عمل میں نہ لاناان سب کو مصنف نے حادثات کی اولین وجوہات قرار دیا ہے۔اگر ہر شخص ٹریفک کے قوانین پر عمل پیرا ہونے لگے تو ان حادثات میں کمی پیدا ہو سکتی ہے ۔سیلاب جیسی قدرتی آفت کے بارے میں لکھتے ہیں’’ہمارے ملک میں جب بھی کوئی قدرتی آفت آتی ہے تو حکومت اس آفت سے چھٹکارا پانے کے لیے حفاظتی اقدامات اٹھانا شروع کر دیتی ہے۔اور اس آفت سے گزر جانے کے بعد ایسی آفات سے بچنے کے لیے کوئی دیرپا حکمت عملی ترتیب نہیں دی جاتی‘‘یہاں وہ قدرتی آفات سے بچانے کے لیے مستقل انتظامات کرنے کی طرف حکومتی توجہ دلواتے ہیں۔آٹھ اکتوبر 2005 میں آنے والے قیامت خیز زلزلے کا ذکر کرتے ہوئے مصنف نے قوم کے عزم کو سراہا ہے ۔اور وہ پاکستانی قوم کی ثابت قدمی اور اتحاد سے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔دھوئیں اور دھند کے مرکب سموگ سے بچنے کے لیے چند حفاظتی تدابیر بیان کی ہیں’’کھلی جگہوں پر کام کرنے والے اور موٹر سائیکل پر سفر کرنے والے افراد کو ماسک کا استعمال کرنا چاہیے آنکھوں میں جلن کی صورت میں بار بار تازہ پانی سے آنکھوں کو دھویا جائے اور نیم گرم پانی سے غرارے کئے جائیں۔

پانچواں باب’’تعمیر وطن‘‘
جس میں تعلیم کی افادیت کے ساتھ ساتھ،حلال و حرام میں تمیز کرنے، بددیانتی اور کرپشن جیسے جرائم سے بچنے کو ہی اصل تعلیم قرار دیتے ہیں

’’روٹی،کپڑا،مکان اور روزگار‘‘مصنف نے اس نعرے پر عملی جامہ پہننانے کی طرف حکومت کی توجہ دلوائی ہے۔’’یوم تکبیر‘‘ میں جہاں وہ پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے پر فخر کرتے ہیں وہاں اس قوم کے ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

پاک چین دوستی کو سراہتے ہوئے لکھا ہے’’پاک چین دوستی ہمیشہ مثالی رہی اور اس مثالی دوستی کو عظمتوں تک پہنچانے میں پاکستانی عوام اور چینی عوام کا کردار بہت اہم رہا‘‘

چھٹا باب’’عدل و انصاف کا قیام‘‘
جس میں طوطے اور مینا کی مشہور حکایت سے بے انصافی کی وجہ بتائی گئی اور حضرت علی ؓ کے اس فرمان سے انصاف کی اہمیت واضح کی’’ایک معاشرہ کفر کے ساتھ تو زندہ رہ سکتا ہے لیکن انصاف کے بغیر نہیں‘‘ جنوری 2016 میں ضلع مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والی آمنہ کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا پڑھ کے آنکھیں نم ہو گئیں۔آخر کب تک ہمارے ملک کی بیٹیاں اندھے قانون کی بھینٹ چڑھتی رہیں گی اور درندے یونہی آزادانہ گھومتے رہیں گے۔انصاف میں عظمت ہے کی مثال دیتے ہوئے وہ دوسرے مذاہب کے افراد سے حسن سلوک کا درس دیتے ہیں اور ثمرقند پر اسلامی ریاست قائم ہونے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں’’ثمرقند،جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسلام تلوار سے نہیں اخلاق سے پھیلا‘‘

سانحہ ساہیوال ،میں معصوم بچوں کے ساتھ ظلم کی داستان وہ بچے جو تقریب کی بجائے مصیبتوں کے جہان میں پہنچ گئے مصنف ان کے درد میں برابر کے شریک نظر آتے ہیں۔ساتواں باب ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ جس میں انہوں نے 2004 سے لے کر 2014 تک ہونے والی بدترین دہشت گردی اور پاکستانی قوم پر ٹوٹنے والی مشکلات بیان کی ہیں کہیں ڈرون حملوں سے امن کی امید خاک میں ملی تو کہیں معصوم بچوں پر ظلم و ستم ہوا۔

آٹھواں باب’’بدترین ہمسایہ بھارت
جس میں بھارت کی چالاکیوں کے ساتھ ساتھ سانحہ صفورا چورنگی میں بھارتی وزیراعظم کا کردار اور کرکٹ کے میدان میں بھارت کی طرف سے کھڑی کی گئیں رکاوٹوں کا ذکر کرتے ہیں۔باچا خان یونیورسٹی پر حملے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بھارت کا چہرہ بے نقاب کیااور سانحہ گلشن اقبال پارک کے بارے میں لکھتے ہیں’’اگر ماضی کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح نظر آتی ہے کہ سانحہ گلشن اقبال پارک بھی ’’را‘‘ کی ہی کارستانی ہے‘‘مودی سرکار کی سازشوں پر بھی کھل کر اظہار خیال کیا گیا ہے۔

نواں باب ’’سیاست‘‘
سیاست پر انہوں نے اس قدر دلچسپ الفاظ استعمال کیے ہیں کہ پڑھنے والے کی دلچسپی سیاست میں بڑھ جاتی ہے۔اسلام آباد کے ڈی چوک سے شروع ہونے والے دھرنے،سول نا فرمانی کی تحریک، آزادی مارچ اور جلسوں پر ہونے والی شاہ خرچیوں کو دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے ایک کالم میں لکھتے ہیں’’یار لوگوں کا خیال ہے کہ پانامہ ایشو اب ایک مردہ گھوڑا بن چکا ہے اس ایشو میں کوئی جان نہیں رہی‘‘
انہوں نے وہ سارے حالات قلمبند کیے ہیں جو سیاست کی چکی میں پس کر عوام کے ایک عام آدمی کا مسئلہ مہنگائی اور بے روزگاری جو تا حال حل نہ ہو سکا۔سیاست دانوں کے کھوکھلے دعوے اور روایتی تقریریں موضوع بنائی گئی ہیں۔

دسواں باب ’’شخصیات‘‘
یہ آخری باب وطن عزیز کے عظیم معماروں پر ہے۔وہ اہم شخصیات کا ذکر قائداعظم ؒ سے شروع کرتے ہیں جنہوں نے وطن عزیز کے لیے انتھک محنت کی۔ذوالفقار علی بھٹو جنہوں نے قادنیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیاان کا ذکر بھی شامل ہے جنرل ضیا الحق کی جرائم پر توجہ اور ان کے خاتمے کے لیے کی گئی کوششیں بھی یاد رکھنے کے قابل ہیں۔بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم جو ہمارے لیے باعث فخر ہیں

ان کی کوششوں کو بھی سراہا گیا ہے۔عبدالستار ایدھی جنہوں نے اپنی مثال آپ پیش کی جو دردمندوں کا سہارا بنے جنہوں نے تڑپتے ہوئے بے سہارا افراد کی مدد کی ان کو بھی دعاؤں سے نوازا گیا ہے ۔میاں محمد نواز شریف کا سیاسی سفر بیان ہوئے ان کے دور میں ہوئے ریکارڈ ترقیاتی کاموں کا ذکر کرتے ہیں ۔ اور ساتھ ساتھ عمران خان کی کرکٹ کے میدان میں کامیابی سے لے کر وزیر اعظم بننے تک کے سفر کو خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں۔ اور آخر میں لاہور سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیت زبیر احمد انصاری کی خوبیوں کو احسن طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔
 

Khirad Fatima
About the Author: Khirad Fatima Read More Articles by Khirad Fatima: 12 Articles with 8624 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.