عورت مارچ اور کچھ نئے عہد

عورت مارچ کیا واقعی بری چیز ہے یا اس میں بھی کوئی اچھا پہلو نکالا جاسکتا ہے

خالق کائنات کی بنائی حسین مخلوقات میں سے ایک اشرف المخلوقات پیغمبروں اور نبیوں کی ہم رکاب نسل انسانی کی بقا اور اضافے کی روح رواں عورت. تصویر کائنات کا حسین رنگ, ایک خوبصورت احساس, صنف نازک, سراپا محبت اور ایثار ان تمام خوبصورت تشبیہات کا مجموعہ ہے "عورت" اور یہ عورت جیسی کل تھی آج بھی ویسی ہی ہے.

زمانہ بدلا, وقت بدلہ, لباس بدلا تہذیبوں نے ترقی کی نئی نئی ایجادات نے نوع انسانی زندگی کو سہل بنایا لیکن عورت کا کام آج بھی ویسا ہی ہے بلکہ زیادہ مشکل ہو گیا ہے.

عورت کا اصل کام جو ازل سے ابد تک ہے وہ ہے نسل انسانی کی بقا حفاظت اور اسے سجانہ سنوارنا. کہنے کو تو یہ گنتی کے چند کام ہے لیکن انہیں میں پوشیدہ ہے دنیا کی ساری ترقی اور سارے کام عورت جو ماں بہن اور بیٹی تو ہے ہی اس کے علاوہ سب ہے جو کوئی مرد ہو سکتا ہے استاد سیاستدان فلاسفر کاریگر وہ جنگ بھی لڑ رہی ہے اپنے محاذ پر سیاست بھی کر رہی ہے پہاڑوں کی چوٹیاں سر کر رہی ہے آسمان کو چھو رہی ہے اور سمندروں کی گہرائیوں کے پوشیدہ راز کھول رہی ہے.

الیکٹرانک میڈیا پرنٹ میڈیا سوشل میڈیا غرض کوئی ایسا میدان نہیں جہاں عورت نے اپنی کامیابی کے جھنڈے نہ گاڑی ہو. وہی اسی کرہ ارض پر ایسی عورت بھی ہے جو چند روپوں کے حصول کے لیے مٹی میں رل رہی ہے جسےنہ، پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہے نہ تن پر صاف کپڑا ،نہ تو سے قرآن کے لفظ " اقراء" کا علم ہے نہ حرف تہجی کی پہچان اسے عورت کی بنیادی حقوق تو کیا بنیادی انسانی حقوق اور ضروریات کا بھی علم نہیں اسے یہ بھی نہیں پتہ کہ زندگی کی حفاظت کے لیے کونسے حفظان صحت کے اصول اپنانے چاہیے اور نہ ہی اسے اس بات کا احساس ہے کہ وہ بھی مرد جیسی ہی مخلوق ہے، جسے اللہ نے مرد کی دلجوئی اور غمگساری کے لئے پیدا کیا ہے نہ کہ اس کی غلامی اور نوکری کے لیے، اور خود یہی عورت صدیوں سے چلے آرہے ہیں فرسودہ نظام کو خود اپنےآنچل تلے پرورش کر رہی ہے ،اسی عورت کی گود سے پل کر مزید غلام عورتیں اور انھیں غلام بنانےمرد پرورش پا رہیں، دراصل عورت کو خبر ہی نہیں کہ وہ اپنے ناپسندیدہ ماحول کو خود تشکیل دے رہی ہے اس بات سے انکار نہیں کہ ہمارے معاشرے میں مرد کی اجارہ داری ہے۔ صحیح یا غلط گھر کے اندر یا باہر حکم مرد کا ہی چلتا ہے جس میں کہیں نہ کہیں تھوڑا بہت عورت کا بھی قصور ہے ہر معاشرے میں طبقات کے درمیان کئی طبقات پائے جاتے اور ان طبقات کو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی ضرورت پڑی ہے بحیثیت مرد جس طرح عورت آواز بلند کر رہی ہے کیوں شاید اس لئے کہ مرد کبھی ظلم ہوتا ہی نہیں، مرد کبھی دھتکارا نہیں جاتا، اسے کبھی تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جاتا ،

مرد کو اس کے تمام حقوق مل رہے ہیں کیا واقعی ایسا ہی ہے؟؟؟ اپنے ارد گرد نظر ڈالیں، ناکام نامراد ،غربت کی چکی میں پسے، بیماریوں سے لڑتے، اور ہارتے ناکامی پر خودکشی کرتے، دکھ بھرے گیت گاتے، گمنامی کی بے قدر زندگی گزار کر مر جانے والے مرد نظر نہیں آتے؟؟؟ کم عمری میں زیادتی کا نشانہ بننے والی کیا صرف لڑکیاں ہی ہیں کیا صرف کم عمر لڑکیوں سےہی مزدوری کا کام لیا جاتا ہے؟؟ وہی کم عمری میں محنت کر کے خاندان کا معاشی بوجھ اٹھاتی ہیں ؟؟صرف تعلیم یافتہ خواتین کی ڈگریوں کے باوجود بے روزگار ہیں، فرسودہ نظام کی خرابیوں کا خمیازہ کیا صرف عورت بھگت رہی ہے؟ ہرگز نہیں پھر کیا وجہ ہے کہ ہم عورتوں کو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے ان نعرون کا سہارا لینا پڑا۔گزشتہ یوم خواتین پر نکالے جانے والے عورت مارچ کے بعد پڑھے لکھے طبقے نے عورت کو جتنا سرزنش کیا اتنا آس سے پہلے نہیں کیا گیا تھا ہر فورم پر اختلاف رائے رکھنے والے مرد و خواتین نے ان خواتین کو آڑے ہاتھوں لیا جنہوں نے متنازع پلے کارڈ اور بینرز اٹھا رکھے تھے اور نعرے لگائے تھے اور ان نعروں کی توجیہہ میں ان خواتین کو کس قدر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا کتنی وضاحتیں دینی پڑیں۔۔۔۔۔۔۔ درحقیقتوہ نعرے ہمارے معاشرے کی ذہنی پستی نہیں بلکہ ادبی بستی کا مظہر تھے۔۔۔۔۔۔۔ ہر معاشرے میں ہر دور میں ہر طرح کے افراد اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کے خواہشمند ہوتے ہیں اور اس کے لئے کوشیں کرتے ہیں۔۔ لیکن جن کو تمدن چھو کر گزر جاتا ہے اور جو تعلیم حاصل کرنے کے مراحل طے کر لیتا ہے وہ خود پر تہذیب کا لبادہ ضرور چڑھا لیتا ہے اور زبان پر ادب کی ملمع کاری ضرور کر لیتا ہے۔

تاکہ اسے مہذب سمجھا جائے لیکن سوشل میڈیا کے اس دور میں بعض اوقات بلکہ اکثر اوقات لوگ وہ کچھ کہ سن لیتے ہیں جس کا انہیں خود بھی اندازہ نہیں ہوتا شاید کچھ ایسا ہی "عورت مارچ" کے ساتھ بھی ہوا مثبت ارادوں کو لے کر ایک بھیڑ کو جمع کیا گیا اور اس بے قابو بھیڑ کےبے قابو خیالات اور ان کے اظہار کے بے قابو طریقوں پر قابو نہیں حاصل نہ کیا جا سکا۔ نتیجتاً سوائےاس کے کہ ان خواتین کو تنقیدکا سامنا کرنا پڑا ۔سوائے ان خواتین کے ان نعروں سے بہت سوں نےاپنی دکان چمکائی۔ الفاظ کے غلط چناو کو صحیح ثابت کرنے میں ہی سال گزر گیا اور مارچ میں اٹھائے گئے جائز اور معقول مطالبات کا پورا ہونا دور کی بات الٹا جگ ہنسائی اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔" یوم خواتین" پھر آگیا ہے کیا ہی اچھا ہو اگر اس بار خواتین پھر آگیا ہے۔اس بارپچھلے معقول مطالبات کے علاوہ کچھ اور مطالبات بھی رکھیں جایں تو اچھا رہے۔۔۔جیسے نمبر 1 عورت کے ہاتھوں عورت کا استحصال بند کرو (گھر اور گھر کے باہر)

نمبر2 لڑکی پسند کرنے کے نام پر لڑکی کی تذلیل بند کرو نمبر3 جہیز کے نام پر ماں باپ کی چمڑی اتار نے والوں کے خلاف کاروائی کرو نمبر 4 خواتین کے لیے کم سے کم تعلیم مقرر کرو ۔۔۔۔۔خواتین کو آگے بڑھانے کے لئے منتظمین خود عہد کریں! بلکہ حلف اٹھائیں! کہ اگلے مارچ تک وہ خود کسی نہ کسی عورت کو اس کا حق دلوائیں گی یا تعلیم دلوائی گی یا شادی کروائی گی یا کوئی بھی جائزحق جو وہ مانگ رہی ہوں اسے دلوائیں گی ۔اگر ایسا ہوا تو یقین جانیں! آپ کے لیے بھی صدارتی ایوارڈ بنتا ہے ،یہ صرف فلم اور ڈراموں کی خواتین کے لئے ہی نہیں بنے ہیں ان پر آپ کا بھی حق ہے۔ لیکن احتیاط کریں نعروں کے انتخاب میں، اپنی خواتین کو اپنے ایجنڈے اور ارادوں سے آگاہ کریں، ان کی تربیت کر یں اور منتخب شدہ نعروں کو ہی مارچ کا حصہ بننے دیں تاکہ آئندہ سال نعروں کی وضاحت کے بجائے کچھ بہتری کا سال ثابت ہو اور یہ مارچ خواتین کی ترقی کا "سنگ میل "ثابت ہو نہ کہ "سنگ گراں"۔
 

Tazeen fatima
About the Author: Tazeen fatima Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.