سرزمینِ مہر و ماہ (مکہ مکرمہ میں ستائس سالہ قیام کی روداد)/نجیب عمر

عرضِ مقدس، سرزمینِ مہر و ماہ میں چند لمحے گزارنا خوش نصیبی ہوتی ہے، اگر یہ قیام مہینوں اور سالوں پر محیط ہو تو اس خوش بختی کو اللہ کی جانب سے خصوصی انعام ہی کہا جائے گا۔ پیش نظر کتاب کے تخلیق کار نے ستائس برس مکہ مکرمہ میں گزارے، اس طویل عرصہ کی یہ روداد ”سرزمینِ مہر و ماہ“ کے نام سے قلم بند کی۔ اس کتاب میں بیان کی گئی روداد نے میری روح کو گرما دیا، یادوں کو تازہ کردیا، میں اس کتاب کا مطالعہ کرتا جاتا اور وہ مناظر اور وہ لمحات میرے نظروں کے سامنے آجاتے جو میں نے وہاں کئی بار جا کر گزارے۔ الحمد اللہ مجھے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، طائف، جدہ، بدر، جیذان اور فیفا جیسے شہروں میں کئی کئی بار جانے اور اللہ کے گھر حاضری اور مدینہ منورہ میں روضہ رسول ﷺ پر کئی بار سلام عرض کرنے کی سعادت حاصل ہوچکی ہے،الحمد اللہ حج کی سعادت بھی نصیب ہوئی،میں اس کتاب کو پڑھنے کے دوران کئی بار مقدس مقامات کے بارے میں پڑھتے پڑھتے یہ بھول جاتا تھا کہ مجھے تو اس پر تبصرہ لکھنا ہے۔یہ تصنیف جسے روداد کہا گیا ہے، مقدس مقامات زیارت کراتی ہے اور یہ مصنف کی آپ بیتی بھی کہی جاسکتی ہے۔ مصنف نے دو مقاصدبیا ن کیے ہیں ”ایک اپنی یادداشت کو تازہ کرنا اور قارئین کو اس میں شامل کرنا۔دوم اپنی زندگی میں سیرت پر ایک منفرد کتاب مرتب کرنے کی بنیاد فراہم کرنا“۔مصنف اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب و کامران دکھائی دیتے ہیں جس پر وہ بجا طور پر عمر مبارک باد کے مستحق ہیں۔

نجیب عمر صاحب کی یہ بارہویں کتاب ہے۔افسانہ نگاری، مترجم، کہانی کار، انشائیہ نگار، نثر نگاراور سفرنامہ نگار اور روداد نگار ی میں کمال تصانیف تحریر کر چکے ہیں۔ شاعر بھی ہیں ان کی ایک حمد ِ باری تعالیٰ اور ایک نعت رسول مقبول ﷺ بھی شامل کتاب ہیں۔ وہ ”کچھ اپنی زبان میں“ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ ”حجاز مقدس کے دیدار کے لیے لوگ تڑپتے ہیں، ساری زندگی آروزو کی تکمیل کے لیے بدست دعا، قبولیت کی صورت میں مکہ و مدینہ کی زیارت جسے ہو مومن اپنے لیے اعزاز جانتاہے۔ اس سرزمین مہر و ماہ میں مسلسل ستائس برس قیام، کعبتہ اللہ کا طواف، صفا و مروہ کی سعی، حرمین کے رکوع و سجود اور روضہئ اقدس کی بار بار زیارت۔ اے ملک دو جہاں ہم کہاں تیرا شکر ادا کرسکتے ہیں“۔ بے شک نجیب عمر نے سچ لکھا، ہر مسلمان کے دل میں کچھ یہی آرزو ہوتی ہے۔

نجیب عمر صاحب سعودی عرب کی ٹیلی کسم کمپنی میں ملازم رہے اور اپنی مدت ملازمت مکمل کر کے واپس وطن آئے۔ راقم کو نجیب عمر کے افسانے پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا، یہ کتاب سلسلہ ادبی فورم و ادبی جریدے کے ایڈیٹر انچیف مرتضیٰ شریف صاحب نے مجھے پہنچائی،وہ اکثر اس قسم کے نیک کام کرتے رہتے ہیں۔مجھے ’ہماری ویب رائیٹرز کلب‘ کے صدر ہونے کے ساتھ ساتھ’سلسلہ ادبی فورم اور ادبی جریدہ سلسلہ‘کی سرپرستی کا اعزاز بھی حاصل ہے، پڑھنا،لکھنا اور کتابوں کے بارے میں لکھنا میرا شوق ہے۔ پیش نظر کتاب 47 موضوعات پر پر مبنی ہے۔ سعودی عرب میں اپنی ملازمت کے آغاز سے کیا ہے عنوان ”جستِ بے اختیار“،سے اپنے ستائس سالہ قیام کی روداد کی ابتدا کی ہے۔ مسجد حرام اپنی حاضری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ”میں اس کیفیت کو‘ اس لذتِ دید کو ہمیشہ تازہ کرنے کی سعی کرتا رہتا ہوں اس کی عظمت کو جاننے اور سمجھنے کی جستجو بھی کرتا رہتا ہوں“۔ یہ حقیقت ہے کہ کعبتہ اللہ پر پہلی نظر پڑتی ہے وہ حسین منظر زندگی بھر ذہن میں نقش رہتا ہے۔ مَیں سب سے پہلے 2012ء میں سعودی عرب گیا، خانہ کعبہ پر پڑنے والی وہ پہلی نظر کا نظارہ میرے دل و دماغ میں ایسا نقش ہوچکا ہے کہ اس کے بعد میں کئی بار گیا اور اب بھی اس کورونا کی وجہ سے رکاوٹ آگئی، جوں ہی اس صورت حال سے نجات ملے گی، انشاء اللہ خانہ خدا اور روضہ رسول ﷺ پر حاضری ہوگی، اس لیے کہ وزا لگا ہوا ہے، سعودی ائر لائن کی ٹکٹ کینسل ہوچکی ہیں، خیال ہے کہ حالات بہتر ہوتے ہی کسی تاریخ کی روانگی کا پروانہ آجائے گا۔ایک باب ”مکہ مکرمہ کی زیارتیں“ کے عنوان سے ہے جس میں عثمان ابن طلحہ کا وہ واقعہ بیان کیا ہے جس میں طلحہ نے خانہ کعبہ کی چابی جو کہ اس کے پاس تھی رسول مقبول ﷺ کے لیے کھولنے سے انکار کردیا تھا، بلکہ تکبر سے جواب دیا کہ وہ دن قریش کی زندگی کا بدترین دن ہوگا جب میں آپ ؑ کے لیے در کعبہ کھولوں گا۔ پھر یہ وقت آیا کہ قریش سردار آپ ؑ کے سامنے سرنگو تھے، طلحہ کا خیال تھا کہ آپ ؑ اسے حکم دیں گے کہ در کعبہ کھولنے کے لیے یا پھر اس سے چابی لے لیں گے قربان جائیے نبی آخر الزاما حضرت محمد ﷺ کے آپ نے فرمایا کہ ”اے طلحہ یہ کلید قیامت تک تمہارے اور تمہارے خاندان میں رہے گی اور وہ ظالم ہوگا جو تم سے یہ کلید چھینے گا“۔ مصنف نے لکھا ہے کہ ”کہا جاتا ہے کہ یہی کلید کوئی اور لے کر آئے قفل نہیں کھلتا یہ بشارت آج چودہ سو سال سے اس خاندان پر سایہ کیے ہوئے ہے اور انشا ء اللہ قیامت تک باقی رہے گی“۔

حرمینِ شریفین میں ماہ مبارک کے عنوان سے کعبتہ اللہ میں عبادات کی تفصیل اور اس میں گزرے لمحات کے بارے میں تفصیل بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح ”عازم مدینتہ النبی ﷺ“ کے عنوان سے مدینہ منورہ میں روضہ رسول ﷺ پر حاضری کا احوال اور رقعت آمیز واقعات کا بیان ہے، مسجد نبوی کے بارے میں تفصیل بیان کی گئی ہے، مسجد نبوی کی توسیع کبریٰ کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ مدینہ منورہ کی تاریخی مساجد جن میں مسجد ابو ذر غفاری، مسجد عبریہ، مسجد قبا، مسجد الزایہ، مسجد مالحۃ، مسجد مغیسلہ، مسجد شمس، مسجد الفح، مسجد بنی قریضہ اور سبعہ مساجد کے بارے میں تفصیل بیا کی گئی ہے۔ ایک باب بدرِ کبریٰ یعنی بدر کے میدان کی زیارت کی روداد ہے۔غزوہئ بنو قریضہ کے بارے میں تفصیل بیان کی ہے جس میں اس قوم کا حال بنی قینقاع اور بنی نضیر کی طرح ہوا، صلحِ حدیبیہ کا ذکر ہے، غزوہئ خیبر،غزوہئ موتہ،غزوہ ئ حنین،غزوہئ طائف کا بیان ہے، فتح مکہ کی تفصیل ہے، غزوہئ تبوک کے بارے میں عمدہ معلومات فراہم کی گئی ہیں۔غلافِ کعبہ کی تفصیل ہے۔ ان کے علاوہ مختلف اسلامی موضوعات جیسے الصلوٰۃ، توکل علی اللہ، شکر، صبر، احسان، غیبی امداد، مولودِ النبی ؑ یعنی ہمارے بنی حضرت محمد ﷺکی پیدائش جس مکان میں ہوئی، جو اس وقت ایک عوامی لائبریری ہے کے بارے میں تفصیل بیان کی گئی ہے، راقم کو اس لائبریری میں جانے اور اس کے سربراہ سے گفتگو کا شرف حاصل ہوچکا ہے۔ غارِ حرایا جبل نورکے علاوہ ڈاکٹر ذاکر نا ئک سے مصنف نے اپنی ملاقات کا حال اختصار سے بیان کیا ہے۔ مصنف نے اپنے ایک خواب کا ذکر بھی کیا ہے جس میں وہ منیٰ کے مقام پر جنرل ضیاء الحق کی آمد اور ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کا بیان ہے جس میں جنرل ضیاء الحق اللہ کو پیارے ہوجاتے ہیں، ان کے لکھنے کے مطابق یہ حادثہ پاکستان میں ضیاء الحق کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ سے قبل کا ہے۔ خواب تو برحق ہوتے ہیں لیکن خواب پھر خواب ہی ہوتا ہے۔

جبل احد، سید الشہدا ؓ، غزوہ ئ اوحد میں صحابہ کرام ؓ کی سرفروشی کے عنوان سے صحابہ کرام کے بارے میں الگ الگ تحریر کیا گیا ہے۔منیٰ میں آ تشزگی کا واقعہ ہے، ترتیب قرآن کے عنوان سے قرآن کی ترتیب وجمع کے بارے میں اور منازلِ قرآن و اعجاز قرآن کی تفصیل بیان کی گئی۔ بسمہ اللہ الرحمٰن الرحیم کی تفصیل اعداد کی مدد سے بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کے شہروں مکہ اور مدینہ کے تقریبا ً تمام ہی متبرک مقامات کے بارے میں معلومات کتاب میں مل جاتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بعض باتیں سیرت النبی ﷺ کے حوالے سے بھی شامل ہیں۔ مصنف نے درست لکھا کہ یہ روداد بھی ہے اور اسے وہ آئندہ اپنی کسی ایسی کتاب کی بنیاد بنانا چاہتے ہیں جس کا موضوع کسی بھی اعتبار سے سیرت ہوگا۔ مصنف کی زبان سادہ، عام فہم ہے، مشکل الفاظ سے گریز کیا گیا ہے۔ شاہنواز فاروقی صاحب نے کتاب کے فلیپ پر مذہبی تحریروں کے لیے جو تین خوبیوں کا ذکر کیا ہے یعنی عقیدت،محبت اورعلم، ان کی یہ بات درست ہے کہ مصنف کی تحریر میں عقیدت، محبت اور علم یکجا ہوگئے ہیں۔ کتاب کا مطالعہ ہر مسلمان کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگا ان کے لیے خاص طور پر جو مقدس سرزمین پر حاضری دے چکے ہیں، جنہوں نے مکہ اور مدینہ اور مقدس مقامات کی زیارت کی ہے یہ کتاب مطالعہ کے دوران انہیں مکہ و مدینہ پہنچادیتی ہے۔ خوبصورت تصنیف کو مصنف کو دلی مبارک باد۔ اپنی بات مصنف کی نعت جو فلیپ پر ان کی تصویر کے ساتھ چھپی ہوئی ہے پر اختتام۔
کوئی حد ہے اُن ؑ کے کمال کی
نہیں مثل انُ کے جمال کی
کرو بات جُملہ خصال کی
صلّو علیہ و اٰ لہٖ
(22مارچ2020ء)
 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1281194 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More