عافیہ بہنا ہم شرمندہ ہیں

ڈاکٹر عافیہ صدیقی جو ایک عرصہ سے دشمن کی قید میں ہے حالیہ امریکا بہت سے قیدی رہا کررہا ہے عافیہ کا تعارف اور رہاٸی ک مطالبہ

کسی بھی قوم کی غیرت و حمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی بیٹیاں کس حد تک محفوظ ہیں جس قوم و علاقہ میں عورتوں کی عزت محفوظ نہ ہو وہ لاوارث قوم اور غیرمحفوظ علاقہ کہلاتا ہے ہر دور میں ظالم نے اپنے ظلم سے مظلوم کو پیسا ہے اور مظلوم نے اپنی سی کوشش کی ہے ہمارے اس دور جہالت میں جہاں ہر طرف اندھیر نگری اور کفر کے تاریک و سیاہ ساۓ ہیں جہاں علاقاٸی جاگیر داری اپنے زوروں پر ہے جہاں غریب بھوکا سوتا ہے اور حاکم وقت غریب سے بے پرواہ اپنے بندکمروں میں مزے کی نیند سوتا ہے جہاں حق بولنے پر زبانیں خاموش کرا دی جاتی ہیں تو وہاں عالمی مساٸل پر خاک غور ہوگا! آج ہمیں کسی بھی مسٸلہ کے حل کے لیے سب سے پہلے اپنے معاشرہ کی درستی ضروری ہے ظاہری طور پر ہم ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں ہماری تعلیم کا معیار بھی شاید بنلد ہوجاۓ ہمارا محکمہ ہیلتھ بھی شاید مظبوط ہوجاۓ غالب گمان ہے کہ ہمارے تمام شعبہ جات بھی مادی طور پر بہت زیادہ ترقی کرجاٸیں ہم اپنی صنعتی معاشرتی اور سماجی ترقی کے ساتھ ساتھ عزت رفتہ اس وقت پاسکتے ہیں اور ہم ایک ترقی یافتہ ملک اس وقت بن سکتے ہیں جب ہماری عورتوں کی عزت محفوظ ہوگی اگر ہماری ماٸیں بہنیں دشمن کے نرغے میں ہیں اور ہم ترقی کے خواب دیکھیں تو وہ محض خیالی پلاٶ تک ہی محدود ہونگے! ہماری بہت ساری ماٸیں بہنیں اور بھاٸی آج دشمن کے نرغے میں ہیں اور ہم اپنی مستی میں مست ہیں

من حیث القوم ہم سے غیرت رخصت ہوچکی حمیت کا جنازہ نکل گیا ہم بے حس ہوگۓ اور احساس بھی داغ مفارقت دے چکا کہ آج ہم اپنی بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو سترہ سال گزرنے کے بعد بھی نہ لا سکے! ڈاکٹر عافیہ کون ہے! 2 مارچ 1972 کراچی کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں جنم لیا ان کے والد محمد صالح صدیقی صاحب ڈاکٹر تھے خود بھی ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیم کا شوق بھی بہت زیادہ تھا اسی ذہانت کے بل بوتے پر امریکہ کی سب سے بڑی یونیورسٹی ایم آٸی ٹی میں علم حیاتیات کے شعبہ میں 1995 میں ڈگری حاصل کی اس کے بعد ایک اعلیٰ تحقیقی ادارے سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور وہیں ایک ماہر ڈاکٹر امجد حسین سے شادی کرلی زندگی ایک خواشگوار طریق پر چلنے لگی ڈاکٹر عافیہ ایک حافظہ اور بہت زیادہ علم رکھنے والی خاتون تھی وہ ایک بہترین مقرر بھی تھیں انگریزی عربی فارسی فرانسیسی اور ہسپانوی زبان کے ماہر تھیں وہ ایک بہترین دانشور اور فلاسفر بھی تھیں یقیناً ان کی ذہانت کو دیکھ کر بندہ انگشت بدنداں رہ جاۓ۔ امریکہ میں ناٸن الیون حملے کے بعد وہ پاکستان میں کراچی اپنے والدین کے ہاں منتقل ہوگٸی تھی اور وہیں اپنی زندگی خوشی خوشی گزارنے لگی تھی مختصر یہ کہ 30 مارچ 2003 وہ اپنے بچوں سمیت اسلام آباد کے لیے روانہ ہوٸیں لیکن جیسا کہ مشہور ہے سفر مشقتوں سے بھر پور ہوتا ہے وہ بھی اس داٸمی مشقتوں بھرے سفر پر روانہ ہوگٸی اور یوں اپنی منزل پر پہنچنے سے قبل ہی ظالم نے ان کو اغوا کرکے امریکی ایجنسی ایف بی آٸی کے حوالے کردیا گیا ماں بیٹی کو پہلے تو علم ہی نہ ہوسکا جب علم ہوا معلوم کرنا چاہا آواز اٹھانی چاہی خاموش رہنے کا حکم ہوا یوں سفاکیت کی ایک نٸی مثال قاٸم کردی گٸی

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس عظیم خاتون جو پاکستان کا فخر تھی کا قصور کیا تھا بس اس کا قصور یہی تھا کہ اتنی ذہانت و ذکاوت رکھنے والی خاتون اسلامی تحقیق اور مطالعہ کیوں کررہی ہیں؟بس ان کا یہی جرم تھا جس نے اس کی ہمیشہ کی زندگی کے گل خراب کردیے! یہ وہ جرم ضعیفی تھا جس نے اس کی بوڑھی والدہ کو ایک دوامی تکلیف و اذیت میں ڈال دیا وہاں سے کہاں لیکر جایا گیا معلوم نہیں پانچ سال تک خاموشی چھاٸی رہی پھر 6 جولاٸی 2008 میں مشہور صحافی خاتون ایوان ریڈلی نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ کابل کے قریب بگرام اٸیربیس میں ایک پاکستانی خاتون کو بغیر کسی جرم کے چار سال مردوں کی جیل میں رکھا ہوا ہے قیدی نمبر 650 کی بیرک میں اس خاتون پر ہونے والی تشدد کی صداٸیں پوری جیل میں سناٸی دیتی ہیں مزید کہا وہ مسلمان عورت اپنا ذہنی توازن کھو بیھٹی ہے“ اس کے جواب میں امریکہ مکمل انکاری تھا چانچہ جب سوالات بڑھے تو 5 اگست 2008 نیویارک کی وفاقی عدالت یو ایس کورٹ سدرن ڈسڑکٹ میں ان کو پیش کیا گیا ستم ظریفی یہ کہ ان کی برہنہ تلاشی لی گٸی۔ بزدلی و حماقت یہ کہ ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے امریکی فوجیوں پر گولی چلاٸی حالانکہ ایک خاتون چھ فوجیوں پر کیسے گولی چلا سکتی ہے! جب ان کے پاس کوٸی شواہد نہ بن پاۓ تو 4 فروری 2010 میں ان پر فرد جرم عاٸد کردی اور آج تک وہ ہماری بہن دشمنوں کے ہاتھوں کے تشدد کا نشانہ بن رہی ہیں

ہمیں افسوس امریکہ کے ستم کا نہیں کیونکہ وہ تو فطرتاً مجبور ہے لیکن دکھ افسوس اور درد کے ساتھ اس آمر کو کیا خطاب دوں ؟ جو انسانیت کی کشت زعفران میں خاردار زہریلی جڑی بوٹی کی مانند تھا جو آج اپنے ہی زہر کی آگ میں بھسم ہورہا ہے نہ اب اس کا کوٸی مقام ہے نہ پس منظر نہ پیش منظر اب وہ نفسیاتی مرض بن چکا ہے نام آوری کا متلاشی غیروں سے داد کا ہمیشہ طلبگار رہا

تم داد حسن طلب کرتے ہو پھر وہ بھی غیروں سے
مجھے تو سن کے بھی اک عار سی معلوم ہوتی ہے

وہ اس خبط بیماری میں بھول گیا کہ انسانیت کسے کہتے ہیں وہ بھول بیٹھا کہ نام آوری اور جگ ہنساٸی میں کیا حد فاصل ہے پذیراٸی اور رسواٸی میں کیا فرق ہے! اور آج سترہ سال گزرنے کے بعد جب کٸی حکومتیں تبدیل ہوچکی زرداری صاحب سے لیکر نواز شریف تک دعوے وعدے سب نے کیے پھر موجودہ وزیر اعظم عمران خان صاحب وہ آخری کرن تھے جن کے دعوٶں پر پوری قوم کو یقین تھا آج 6213 دن گزر چکے تحریک انصاف جو انہی وعدوں پر حکومت میں آٸی تھی عمران خان صاحب جنہوں نے ہزاروں وعدے کیے تھے فقط ان کو ان کے کیے وعدے یاد دلا رہے ہیں قوم کی بیٹی ہے اور آپ کے وعدے بھی بجا ہیں تو خدا را کچھ کیجیے کرونا کی وجہ سے امریکہ دھڑا دھڑ قیدی رہا کررہا ہے ہماری بہن عافیہ کا کچھ سوچ لیں ہماری آپ سے اب بھی امیدیں وابستہ ہیں۔ پوری قوم اپنی بہن کی منتظر ہے مگر اے عافیہ بہنا ہم شرمندہ بھی ہیں۔
 

Hafiz umair hanfi
About the Author: Hafiz umair hanfi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.