کورونا : لاک ڈاوَن کا مرحلہ وار خاتمہ کیا رنگ لائے گا (قسط ۔ 15)



کورونا : لاک ڈاوَن کا مرحلہ وار خاتمہ کیا رنگ لائے گا (قسط ۔ 15)
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
انسان آزاد پیدا ہوا، آزاد رہنا چاہتا ہے ، یہ آزاد ہی اس دنیا سے وپس بھی جاتا ہے، اسے بہت زیادہ وقت کے لیے قید نہیں رکھا جاسکتا ۔ کورونا کی تباہ کاریوں اور لوگوں کو ہلاک کرنے کے باعث اس کا واحد علاج جو ماہرینِ طب اور دیگر نے بتائے وہ سماجی دور ی یعنی سوشل ڈسٹینسنگ ، ہاتھ بار بار دھونا، صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھنا، ہاتھ یا گلے ملنے سے اجتناب کرنا، جہاں تک ممکن ہوسکے گھر ہی میں رہنا ہے ۔ اور ایسا ہی ہوا، کچھ لوگوں نے خود ان پابندیوں پر عمل کیا ، حکومتوں نے لاک ڈاوَن کر کے ان پر عمل کرایا ، کرفیو کی کیفیت تک بعض ممالک میں لگادی گئی ۔ لیکن ایک وقت آیا کہ آزادی کی آوازیں اٹھنا شروع ہوگئیں ، انتہا یہ کہ عبادت گاہیں بند، خانہ کعبہ ، مسجد نبوی، عام مساجد، مساجد میں جمعہ کے اجتماعات محدود ہوگئے ۔ دیگر مذاہب کی عبادت گاہیں بند کردی گئیں ۔ لوگ چلا اٹھے، حکومتوں نے محسوس کیا کہ اگر اس سماجی دوری ، لاک ڈاوَن سخت یا نرم کو جاری رکھا گیاتو ایسا نہ ہو کہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے، لوگ کورونا سے کم بھوک اور تنگدستی سے زیادہ موت کے منہ میں جانا شروع ہوجائیں ۔
چین کا شہر ووہان جہاں سے کورونا نے اپنے سفر کا آغاز کیا ، اسے جلد قابو کر لیا گیا، ووہان شہر کھلنا شروع ہوگیا، معمول کی سرگرمیاں شروع ہوگئیں ، چین کے بعد اٹلی جیسے ملک نے جہاں چین کے بعد سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں تھیں ، وہاں بھی جذوی اجازت دے دی گئی، امریکہ کی چالیس سے زیادہ ریاستوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے حالات کو دیکھتے ہوئے کاروبار زندگی کو کھولنے کا اختیار رکھتی ہیں ، جرمنی میں اسکول بھی کھول دیے گئے، تاہم چھوٹی کلاسیز کو سر دست صرف سات دن کے لیے وہ بھی مختصر وقت کے لیے بچوں کو اسکول لانے کے لیے کہا گیا ہے ۔ بڑی کلاسیز بھی شروع ہوچکی ہیں ، تاہم بچوں کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت ابھی نہیں ، والدین از خود بچوں کو اسکول لے جارہے اور واپس لارہے ہیں ، جرمنی کی صورت حال سنی سنائی نہیں بلکہ میری نواسیاں ایک نویں جماعت میں دوسری مانٹسوری میں ہیں اسکول جانے لگیں ہیں ۔ لیکن سخت احتیاطی تدابیر کے ساتھ ۔ اسی طرح اسپین، برطانیہ، فرانس، سعودی عرب، ایران، ترکی میں بھی کرونا سے مقابلہ کرتے ہوئے رفتہ رفتہ کاروبار کھولنے کی باتیں ہونے لگیں ہیں ۔ یہی صورت حال پاکستان میں بھی تھی، سندھ ایسا صوبہ جس نے سب سے پہلے سخت لاک ڈاوَن کی بات کی اور اس پر عمل بھی کیا ، لیکن مرکز میں وزیر اعظم لاک ڈاوَن کے حق میں تو تھے لیکن انہیں دھاڑی دار ، مزدور، غریب، کسان، محنت کش، چھابڑی والے کا غم کھائے جارہا ہے، بات میں وزن بھی ہے، اس صورت حال سے غریب اور غریب بلکہ بری طرح پس رہا تھا ۔ مرکزی حکومت نے کئی اقدامات کئے، راشن کی تقسیم، نقد رقم کی ادائیگی، ملازمتون سے فارغ نہ کرنے کے اعلانات، ملازمین کو تنخواہیں اداکرنے کی تاکید جیسے اقدامات مرکزی حکومت اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے کیے جاتے رہے ہیں ۔ کسی نے کم کسی نے زیادہ، ا س دوران سیاست کی لفظی گولاباری بھی جاری رہی ۔ آخر کار مرکزی حکومت نے صوبوں کی مرضی سے لاک ڈاوَن مرحلہ وار ختم کرنے کا اعلان کیا ، جس پر عمل درآمد 9مئی سے شروع ہوگا، ساتھ ہی تعلیمی ادارے 15جولائی تک بند اور امتحانات منسوخ کرنے کا بھی اعلان کیا گیا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام کی بڑی تعدادا نے حکومت کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ، ایک طرح سے ان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ اب اس فیصلے پر عمل یہ ثابت کرے گا کہ حکومت کا یہ فیصلہ کیا رنگ لاتا ہے ۔ اگر لوگوں نے احتیاطی تدابیر پر پچاس فیصد بھی عمل کرلیا تو حالات معمول پر رہ سکتے ہیں بصورت دیگر ابتر اور خطرناک صورت بھی ہوسکتی ہے ۔ حکومت نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ اگر پھر سے کورونا وائرس کے کیسیز بڑھ گئے اور لوگوں نے احتیاط نہ کی تو ہ میں سب بند کرنا پڑے گا ۔ حکومت نے حسب ذیل 6نکات کو بنیاد بنایا ہے ۔
۱ ۔ تعمیراتی شعبے کے دوسرے فیز کو کھولنے کی اجازت ۔
۲ ۔ چھوٹی مارکیٹیں ، محلے کی دکانیں کھلیں گی ۔
۳ ۔ سحری کے بعد شام 5بجے تک دکانیں کھلیں گی ۔
۴ ۔ ہفتے میں 2روز کاروبار بند ۔
۵ ۔ ہسپتالوں کی اوپی ڈیز کھولنے کا فیصلہ ۔
۶ ۔ تعلیمی تعطیلا ت میں توسیع ، امتحانات منسوخ ۔
زمینی حقائق کے مطابق لاک ڈاوَن میں اتنی زیادہ نرمی خطرناک رسک دکھائی دے رہا ہے ۔ عوام کی کیفیت اس وقت بھوکے شیر کی سی ہے، لاک ڈاوَن کی پابندی کے باوجود لوگ احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کر رہے، حکومتی اجازت حاصل ہونے پر آپے سے باہر نہ ہوجائیں ۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب نے لاک ڈاوَن مرحلہ وار ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ پبلک ٹرانسپورٹ بھی کھلنی چاہیے لیکن صوبے اس پر رضامند نہیں ، یہ ایک اچھی بات ہے کہ وزیر اعظم نے صوبے کی رائے کو فوقیت دی ، اسی طرح ریل سروس بھی کھولنے کی باتیں شیخ رشید کئی دنوں سے کر رہے ہیں ، عمران خان صاحب نے انہیں روکا ہوا ہے ۔ مرحلہ وار لاک ڈاوَن کھولنا ایک اچھا اقدام ہے ، عوام کو اس مشکل سے نجات ملے گی،جن کا روزگار بندہے وہ کھل سکے گا، روز کمانے والے روزی کما سکیں گے، فیکٹری مالکان آخر کب تک اپنی لیبر کو گھر بیٹھا کر تنخواہیں دیں گے ، ایک دن آئے گا وہ بھی ہاتھ اٹھا لیں گے، ان کے پاس جمع شدہ سرمایا کتنے دن چلے گا، بہت سے فیکٹری مالکان نے ملازمین کو فارغ بھی کردیا ہے ۔ یہ سلسلہ جاری رہے گا، لوگ بے رو گار ہوں گے دیگر مسائل پیدا ہونے کا خدشہ ہے ۔ ابھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اسٹریٹ کرائم شروع ہوچکے ہیں ، بنک سے نکلنے والوں کو لوٹنے کی واردادیں کراچی میں شروع ہوچکی ہیں ۔ اس لیے حکومت نے جو قدم اٹھایا ہے ، مرکزی حکومت اور صوبوں کو مل کر اس فیصلہ کی کامیابی کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہیے، باہمی جپقلش، لفظی گولا باری، مخالفت برائے مخالفت سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ یہ وقت پاکستان پر ، پاکستان عوام پر ہی نہیں بلکہ دنیا پر مشکل وقت ہے ۔ اسے صبر ، برداشت ، حوصلے، اور ایک دوسرے کی باتوں کو درگزر کرکے ہی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے، اس کی معاشی صورت حال بھی انتہائی کمزور ہے، حکومت عوام کے مختلف طبقوں کو کتنا ریلیف دے گی، یہ پیشہ کہاں سے آئے گا،اس کا یہی ایک حل ہے کہ سخت حفاظتی اقدامات اور ان پر سخت عمل درآمد کے ساتھ اس کا تجربہ کیا جائے ، اگر کامیاب رہتا ہے تو اگلے مرحلے میں مزید شعبہ جات سے بندش ختم کی جاسکتی ہے ۔ دیگر ممالک بھی اب اسی طرح کی پالیسی پر عمل پیرا ہوچکے ہیں ، کچھ اس پر عمل کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں ۔ وبا کا مقابلہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ دوسری جانب معاشی سرگرمیاں جاری وساری رہیں ۔ اس طرح ملک کے عوام کو وبا اور بھوک سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے ۔ تنگ دستی سے بچایا جاسکتا ہے ۔ کورونا سے متاثر ہونے اور ہلاک شدگان کے اعداد و شمار سے قطعی اندازہ نہیں ہوتا کہ کورونا کی واپسی شروع ہوچکی ہے یا اس پر قابو پانے کے لیے کوئی بھی حل سامنے آچکا ہے، ماسوائے اس کے کہ چین کے شہر ووہان میں اس پر قابو پالیا گیا، وہ بھی کسی دوا یا ویکسین سے نہیں بلکہ سخت لاک ڈاوَن ہی وہ طریقہ تھا جس نے چین کے شہر ووہان کو کورونا سے نجات دے دی ۔ امریکہ جیسا ملک کورونا کے ہاتھوں مشکل میں ہے جہاں اموات اور کیسیز دنیا میں سب سے زیادہ ہیں ۔ پاکستان میں اگر احتیاطی تدابیر یا جو ایس او پیز تشکیل دئے گئے ہیں ان پر سختی کے ساتھ عمل درآمد نہ کرایا گیا تو مرحلہ وار لاک ڈاوَن کے نتاءج وہ نہیں ہوں گے جن کی امید کی جارہی ہے ۔ آخر میں اپنی بات اس قطعہ پر ختم کرتا ہوں ۔
کورونا نے خوب غضب دنیا میں ڈھایا
چین سے کیا آغاز تو امریکہ میں ڈیرا جمایا
کس کس ملک کا نہیں بنا یہ مہماں کورونا
بن بلائے جا پہنچا اور خوف وہاں پھیلایا
(9مئی2020ء(

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1281301 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More