عالمی دن کے موقع پر ماؤں کو خراج

مائیں تو سبھی عظیم ہوتی ہیں لیکن ان ماؤں کا تذکرہ عالمی سطح پر یقینا بڑی عزت اور احترام سے کیاجاتا ہے جن کی اولاد میں سے کوئی اپنی ذہانت ‘ فطانت اور اپنی رگوں میں دوڑنے والے لہو سے کوئی ایسی عظیم داستان رقم کرتاہے کہ لوگ اس کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے پس منظر میں جھانکنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔اس وقت میں چند اہم شخصیات کے حوالے سے ان کی ماؤں کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ سب سے پہلے میراانتخاب محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں جنہوں نے ایک کم ترقی یافتہ اور پسماندہ غریب ملک کو ایٹم ٹیکنالوجی سے روشناس کرواکر بھارت کی برتری کو خاک میں ملادیا۔ ڈاکٹر خان فرماتے ہیں‘ ہماری والدہ اس مقولے پر سختی سے عمل پیرا تھیں " کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی آنکھ سے" ۔ ہمارے والد (جو ہیڈماسٹر) تھے ‘نہایت نرم اور شفیق شخصیت کے مالک تھے ۔عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ باپ ڈانتا تو بچے ماں کی آغوش میں پناہ لیتے ہیں لیکن ہمارے ہاں صورت حال یکسر مختلف تھی ‘ والدہ جب ڈانٹتی تو ہم اپنے والد کی آغوش میں جا چھپتے ۔وہ ہمیں تحفظ دیاکرتے تھے۔بہرکیف میری ماں حقیقی معنوں میں ایک مکمل شخصیت تھیں ان کے ہاں جو دل دھڑکتا تھا وہ بیک وقت ایک عورت اور ماں کا دل تھا۔فراخدلی ‘ انسانیت سے پیار‘ دوسروں کی کوتاہیوں کو نظر انداز کردینے کی روش ‘ سادگی ‘انکسار یہ سب کچھ مجھے اپنی والدہ سے ورثے میں ملا۔ جب بھی کوئی بھاری لمحہ آتا تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ والدہ ہمارے تحفظ کے لیے آپہنچی ہیں۔

اب ہم ایک ایسے شخص کی ماں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں جو ماضی میں لکی سٹار کے نام سے مشہور تھا‘ورلڈکپ کرکٹ کے فاتح اور قومی ٹیم کے سابق کپتان کانام عمران خان ہے ان کی وجہ شہرت تو کرکٹ ہی تھی جس نے انہیں دنیا بھر میں مقبول بنا دیا لندن کے ایک ہسپتال میں کینسر کے مرض میں مبتلا ان کی والدہ "شوکت خانم "کا جب انتقال ہوا تو انہوں نے اسی وقت پاکستان میں کینسر ہسپتال بنانے کا تہیہ کرلیا اب لاہور پشاور ‘ کوئٹہ اور پشاور میں بھی شوکت خانم ہسپتال موجود ہیں یا زیر تعمیر ہیں ۔اب وہی عمران خاں وزیراعظم کے عہدے پرفائز ہیں ۔ وہ اپنی والد ہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ہمارے خاندان کے کئی افراد نے کرکٹ کی دنیا میں بڑا نام کمایا ۔والدہ بتایا کرتی تھیں کہ جب ان کا خاندان جالندھر میں آباد تھا تو ان کے کئی رشتہ دار ‘ دن بھر کرکٹ کھیلا کرتے تھے ‘ گویا کرکٹ کے پودے نے بیسویں صدی کے اوائل میں ہی برگ و بار لانے شروع کردیئے تھے ۔میری والدہ اور ان کی دو بہنوں نے تین ایسے بیٹوں کو جنم دیا جنہوں نے کرکٹ کی دنیا میں بڑا نام کمایا۔یعنی ماجد خان ‘ جاوید برکی اور عمران خان ۔اکرام اﷲ نیازی اپنے بیٹے عمران خان کی پیدائش کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ یہ 25نومبر 1956کی بات ہے میری بیوی لیڈی ولنگٹن ہسپتال لاہور میں داخل تھی ‘ اسی صبح مجھے یہ خوشخبری ملی کہ میرا بیٹا دنیا میں تشریف لایا ہے جس کانام میری اہلیہ نے "عمران خاں"رکھا ۔جب عمران ایک سال کا ہوا تو اس کی ماں اسے برٹ انسٹی ٹیوٹ میں منعقدہ ریڈکراس کے میلے میں لے گئی ۔گول مٹول سرخ و سفید اور صحت مند عمران کو صحت مند بچوں میں اول انعام کا حق دار قرار دیا گیا ۔میری بیوی نے جب اس انعام کے بارے میں مجھے بتایا تو میری زبان سے بے ساختہ یہ ا لفاظ نکلے۔ It is a Luckey start۔یہی لکی سٹار‘ کرکٹ سپر سٹار کی حیثیت سے معروف ہوا۔ اب وہ پاکستان کا وزیراعظم ہے ۔یہ سب ماں کی دعا‘ تربیت اور محبت کا خراج ہے ۔

حضرت یوسف علیہ السلام کو مصر میں جب خریدنے کا وقت آیا تو ایک بڑھیا سوتر کی اٹی ہاتھ میں لیے وہاں جا پہنچی جہاں یوسف علیہ السلام کی نیلامی ہو رہی تھی ۔لوگوں نے حیرت سے پوچھا یہاں دنیا کے خزانے تول میں پورے نہیں اتررہے تم سوتر کی اٹی لے آئی ہو ۔ بڑھیا نے کہا میں تو اس لیے آئی ہیں کہ جب یوسف کے خریداروں کا تاریخ میں ذکر آئے گا تو میرا نام بھی ان میں شامل ہوگا۔ اس سے مراد میری اپنی ماں(ہدایت بیگم )سے ہے ‘ وہ نہ تو خود عظیم تھی اور نہ ہی میں عظیم ہوں لیکن امانت ‘دیانت اور خوف خدا کا جو درس اس نے مجھے دیا آج بھی قدم قدم پروہ مجھے یاد ہے ۔جب اور جہاں بھی ماؤں کا ذکر ہوتاہے تو غربت میں لتھڑی ہوئی اپنی ماں کی وہ باتیں ضرور شیئر کرتا ہوں جس نے عقل و شعورکے سرچشمے وا کیے ۔اچھا سوچنے کی سمجھ بوجھ عطا کی۔واقعات تو بے شمار ہیں لیکن اختصارکی خاطر صرف ایک واقعے کا ذکر یہاں ضروری سمجھتا ہوں۔وہ سردیوں کی رات مجھے زندگی بھر نہیں بھولتی جب ہم پانچ بھائی اور والدہ ایک بوسیدہ کمرے میں سورہے تھے ‘ اچانک گرج چمک کے بعدموسلادار بارش شروع ہوگئی جس کمرے میں ہم موجود تھے اس کی چھت اس قدر بوسیدہ تھی کہ جگہ جگہ سے ٹپکنے لگی ‘ والدہ نے اپنی رضائی اور گدا اٹھا کر ہم پرڈالا اور خود ہماری دیکھ بھال میں مصروف ہوگئیں ۔وہ کمرہ ایک فٹ گہرا بھی تھا جہاں سخت سردیوں میں بارش کا پانی بھرگیا ماں اپنے سکھ ا ور آرام کو فراموش کرکے ساری رات ہمیں سردی اور چھت سے ٹپکنے والے ٹھنڈے پانی سے بچاتی رہی ۔اگلی صبح ماں کو بخار نے آگھیرا جو کئی دنوں تک ان پر مسلط رہا ۔سچ تو یہ ہے کہ میں اس دن ماں کی ممتا کا معترف ہوا ۔نہ میری ماں کے پاس دولت تھی ‘ نہ اس کے پاس کوٹھی اور کار تھی لیکن وہ کوٹھی اور کار رکھنے والی ماؤں سے کہیں زیادہ ہماری محافظ تھیں ۔اس کے باوجود کہ ماں کو دنیا سے رخصت ہوئے 13سال ہوچلے ہیں ‘ مشکل کے ہرلمحے ماں کی دعائیں مجھے اپنے حصار میں لے لیتی ہیں اور میں نہایت آسانی سے مشکلات کے اس بھنور سے نکل جاتاہوں۔ بہرکیف ماں کا لفظ زبان پر آتے ہی ٹھنڈک اور قلبی تسکین کااحساس ہوتا ہے‘ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے گرمیوں کی تپتی ہوئی دوپہر ایک ایسے سایہ دار گھنے درخت کے نیچے میں آ بیٹھاہوں جہاں ٹھنڈک اور سکون میسرہے۔ یہ اعزازیقینا مشرقی ماؤں کے حصے میں ہی آتا ہے ۔

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 785 Articles with 681428 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.