مانی

ہمارا رشتہ معاشرے کی سمجھ سے باہر تھا ۔۔۔۔ مانی لڑکی تھی اس لیے شاید اُسے معاشرے کو باور کرانے کی ضرورت تھی ۔۔۔۔رشتے کا نام بتانے کی ضرورت تھی

میں نے کانپتے ہاتھوں اور بوجھل دل کے ساتھ موبائل فون میں ٹیکسٹ لکھااور بھیجنے کے لیے اوکے کا بٹن دبانا چاہا۔۔مگر دل میں خلش پیدا ہوئی اور شش و پنج کی سی کیفیت نے گھیر لیا۔ لکھائی مٹانے کے لیے انگوٹھا خود بخود ڈیلیٹ کی طرف اُٹھا۔۔۔۔لیکن دل نے دماغ کو شہہ دی ۔۔۔بھیج دو میسیج۔۔۔اب تو سب کچھ ختم ہو چکا ہے !۔۔۔جسم دماغ کا ساتھ دینے سے قاصر تھا۔۔۔۔کیونکہ برسوں میں جو عمارت کھڑی ہوئی تھی وہ لمحوں میں گر رہی تھی۔۔۔۔

جب چھٹیوں کے بعد یونیورسٹی کی کلاسیں شروع ہوئیں،تو میں کئی دنوں تک آلکسیا بنا رہا۔ تنہائی میں بے کا ر پڑے رہنے اور بِلا وجہ چھت کو گھورنے کا بھوت سوار رہا۔جب کچھ آفاقہ ہوا تو نبیل کی ہاں میں ہاں ملائی ،اور ایک رف کاپی اُٹھا کر کلاس کی طرف روانہ ہوا۔مُنہ سے رات کے کھانے کی سڑی ہوئی بو آرہی تھی جبکہ بال ایک ہفتے کے میل کچیل سے سر کے ساتھ گوند کی مانند چپک گئے تھے۔ٹوتھ پیسٹ اور روزانہ کی صا ف صفائی کو میں زنانہ چونچلے سمجھتاہوں۔۔۔اور ان تکلفات کا جھنجھٹ نہیں پالتا۔۔ نبیل مُنہ اندھیرے اُٹھ کر عبادات اور پڑھائی میں مشغول ہو جاتا ،جبکہ میں کمرے میں دس بجے تک اونگھتا اور جمائیاں لیتارہتا ۔نبیل کی زندگی قاعدے قوانین کی پیروی اور عبادات کے لیے وقف تھی،جبکہ مجھے روٹین اور رولز سے سخت نفرت تھی۔ لیکن پھر بھی اچھے روم میٹ تھے ۔۔اُسے دیکھ کر کبھی کبھی اپنے آپ کو گنہگار سا محسوس کرتا، لیکن اللہ تعالیٰ سے کمبل کے اندر مُنہ چُھپاکرمکمل تنہائی میں اپنی کاہلی اور بے پرواہی کی معافی بھی مانگ لیتا۔۔۔ہاں کوئی لمبے چوڑے وعدے نہیں کرتا،کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ میں ڈسپلن نہیں نبھا سکتا ۔۔۔ڈسپلن اور روٹین سے میرا دم گھٹنے لگتا ہے ۔۔۔ یہاں تک کہ سانس لینی مشکل ہوجاتی ہے۔۔۔ جب کوئی عزیز رشتہ دار مرتا تو ہفتوں تک طبیعت میں رِقت موجود رہتی۔۔۔نمازیں پڑھتا،تسبیح پھراتا اور وظائف بھی شروع کر دیتا۔۔لیکن پھرتعلقات کی یہ گرمجوشی سرد مہری کا شکار ہوجاتی۔۔۔

یونیورسٹی کی یہ پہلی کلاس بھی عجیب تھی۔۔ نبیل میری وجہ سے آج پہلی بار کلاس سے لیٹ ہورہا تھا۔۔۔وہ تیز تیز قدموں سے کلاس کی طرف گامزن تھا کیونکہ میڈم عنبر کی کلاس شروع ہوچکی تھی ۔۔اور میڈم عنبر کے متعلق نبیل کو معلوم تھا کہ اتنی مُنہ پھٹ ہے کہ بندے کے کپڑے بیچ چوراہے میں اُتروا دیتی ہے۔۔۔البتہ اُس سے میرا واسطہ ابھی تک نہیں پڑا تھا کیونکہ میں کبھی کلاس میں گیا ہی نہیں تھا۔۔ نبیل کے CR(کلاس ری پریزینٹیٹیو)ہونے کا ایک ہی توفائدہ تھا کہ حاضری لگ جاتی تھی۔۔۔جب ہم کلاس میں داخل ہوئے تو ایک بہت بڑے مُنہ والی عورت نے چنگھاڑکرمُجھے روکا اور انگریزی اور اُردو مِلاکر کچھ باتیں کیں۔۔۔۔پہلے کلاس میں کھی کھی کی آوازیں اُٹھیں اور پھر لڑکے لڑکیاں کُھل کر ہنسنے لگے۔۔۔میں نے میڈم کی طرف دیکھا تو اُس کا چہرہ اتنا بڑا تھا کہ جسم اُس کے چہرے کا ضمیمہ لگ رہا تھا۔میرے کان لال ہورہے تھے خجالت کی وجہ سے زبان اٹک رہی تھی کیونکہ میں نے مرد و زن کی مشترکہ کلاس اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔۔۔اُس نے کچھ میلے کچیلے کا طعنہ مارا تھا۔۔۔اور طلباء ہنس رہے تھے ۔۔۔۔پہلی کلاس میں اتنی بے عزتی۔۔۔ میرا تو رواں رواں شرمندہ ہو ریا تھا۔۔۔اور جسم پر چیونٹیاں سی دوڑ رہی تھیں۔۔۔۔میڈم نے میری حالت بھانپ لی اور بیٹھنے کا اشارہ کیا۔نبیل کی طرف دیکھ کر کچھ نہیں کہا کیونکہ وہ میڈم کی Good Book میں تھا،اور میرے لیے ابھی تک کوئی کتاب مختص نہیں تھی۔جب میں دورویہ کرسیوں کے درمیاں گزرکر آخری قطار میں بیٹھنے کے لیے جا رہا تھا تو ایک لڑکی نے اپنی ہنسی بمشکل روکتے ہوئے ،ساتھ والی سے باآوازِ بلند کہا۔۔صاحب کو خوب میڈل ملے ہیں۔۔۔ اور پھر سے کھی کھی شروع ہوگئی۔۔۔

جب میڈم عنبر کلاس سے نکلی تو لڑکے لڑکیاں مُجھے مُڑ مُڑ کر دیکھنے اور ہنسنے لگے۔۔۔اور ساتھ میں کچھ مجنوں ۔۔مجنوں کا ورد بھی کرنے لگے۔۔۔ہم جب کلاس سے نکلے تو نبیل سے پوچھا۔۔۔یار۔۔یہ کلاس فیلوز کیا کہہ رہے تھے؟۔۔۔وہ مسکرایا ۔۔تم نے نہیں سُنا میڈم عنبر نے کیا کہاتھا؟ ۔۔۔میں نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔نہیں تو!۔۔۔ مجنوں کی میلی آتما یہ کلاس ہے جنگل نہیں۔۔۔لیلیٰ کا سوگ کسی ویرانے میں مناؤ۔۔۔۔یونیورسٹی میں نہیں۔۔۔۔اتنا سا تو کہا تھا!۔۔نبیل کہہ کر، ہنس پڑا۔۔۔۔اووو۔۔۔۔۔۔میں نے ایک لمبی سانس لی۔۔۔اچھا۔۔۔اپنا مُنہ نہیں دیکھا اُس۔۔۔۔ نے۔۔۔۔جیسے ۔۔۔۔اور خفت مٹانے کے لیے ایسی بہت سی باتیں۔۔
چند دنوں بعد وہ میڈل کا طنزکرنے والی تیز طرار لڑکی نبیل کے پاس حاضری لگوانے کے لیے آئی۔۔۔۔۔میں نے بے رُخی سے مُنہ دوسری طرف پھیر لیا لیکن اُس نے باتیں شروع کردیں۔۔۔اور میری بے اعتنائی کے باوجودنبیل کے ساتھ ساتھ مُجھ سے بھی فری ہونے لگی۔۔۔۔اس لڑکی میں کشش نام کی کوئی چیزنہ تھی ۔۔ انتہائی لاغر بدن،پچکے گال اور بڑی بڑی آنکھیں جو اس چہرے کے ساتھ زیادتی ہی تھی۔۔۔اُسے دیکھنے کے بعد یوں لگتا تھا جیسے اللہ میاں کو صرف آنکھیں ہی پیدا کرنا تھیں چہرہ اور لڑکی بطورِ تکلف چپکا دیے۔۔۔ بال کھول لیتی تو قدرے بہتری آجاتی ،لیکن زنانہ لوازمات سے باالکل محروم تھی۔۔۔ کلاس میں کوئی لڑکا اُس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کرتا۔۔لڑکیاں تو لڑکیاں لڑکے بھی اُس کا مذاق اُڑاتے ، اور یہی کچھ سہتے سہتے وہ مذاق پروف بن چکی تھی۔۔۔اسی لیے وہ بھی کسی سے لگی لپٹی نہیں کرتی،اور جو جی میں آتا کہہ دیتی۔۔مُجھے اُلجھے بالوں اور صفائی سے پرہیز کی بابت مجنوں کی آتما کہہ کر مخاطب کرتی۔۔ ۔اور میں چھیڑنے کے لیے ایکس ریز کہتا۔۔اس لڑکی کا جسم اور شکل تو اللہ تعالیٰ کی مرضی تھی لیکن گھر والوں نے نام اتنا مشکل رکھا تھاکہ انگریزی کے ہجے آج بھی مشکل ہی سے کروں گا۔۔۔۔۔۔ منزہ اصفہانی لڑکے لڑکیوں کے ساتھ یکسان رویہ رکھتی ،یعنی بے باک۔۔۔اُسے مرد ذات کا کوئی ڈر نہیں تھا۔۔ وہ لڑکوں سے بات کرتے ہوئے خود کو ایلین تصور نہ کرتی۔۔۔نہ مرد اُسے درندے لگتے ،جو اُسے نوچ کر کھا جائیں گے۔۔۔نہ جسم کے بھوکے اور نہ ظالم بھیڑیے۔۔ بلکہ پورے اعتماد کے ساتھ ہر ایک سے بات کرلیتی۔۔۔شاید وہ مرد کی ہوس سے بے خبر تھی۔۔۔۔یا اپنی شکل و صورت نے اُسے بے باک بنا دیا تھا۔۔۔ وہ رکھ رکھاؤ کو بالائے طاق رکھتی اور باتوں باتوں میں اتنے قریب آجاتی کہ کپڑے تک مس ہونے لگتے ۔۔۔موڈ میں ہوتی تو کاندھے پر چپت بھی رسید کرتی۔۔۔سب کلاس فیلوز اُسے مانی کہتے۔۔۔۔ اور وہ خود بھی منزہ اصفہانی کی جگہ مانی سُن کر خوش ہوتی۔۔عام سا قاعدہ ہے کہ ؛عورت کتنی ہی بدصورت کیوں نہ ہولیکن اٹھارہ سے بچیس سال کی عمر کے دوراں ،اور ہنستے ہوئے تو بھلی لگتی ہے لیکن مانی کی شکل ہنستے ہوئے مزید ڈراؤنی ہوجاتی۔۔۔رنگ چمپئی تھا لیکن ہڈیاں گوشت سے محروم۔۔۔۔

سال گزرتا گیا اور مانی سے بے تکلفی بڑھتی گئی۔۔۔ہم کلاس روم ،کینٹین اور لان میں کہیں بھی ایک دوسرے کو دیکھ کر باتیں شروع کر دیتے۔۔۔ ان باتوں باتوں میں ہم ایک دوسرے کے قریب قریب پھرنے لگے۔۔۔ مذاق مذاق میں اور ایک دوسرے کو تنگ کرتے ہوئے ہم ایک دوسرے کی باتوں کے عادی ہوگئے ۔۔۔مانی کھانے کے خلاف تھی اور میں کھانے پینے کا عاشق۔۔اُس کے مُنہ میں تین زبانیں تھیں اور میرے چار کان۔۔۔اس لیے ایک دوسرے کے لیے قابلِ برداشت تھے۔۔۔ایک دوسرے کی کمیاں پوری کر رہے تھے۔۔۔ میں بولنے سے زیادہ سننے کا عادی تھااور اُسے خاموشی سے نفرت۔۔۔جب کافی بے تکلفی ہوگئی تو فون نمبر ایکسچینج کر لیے اوردن کے ساتھ ساتھ رات کو بھی باتیں شروع ہوگئیں۔۔۔۔وہ انتہائی فضول سی باتیں کرتی، اپنی پسند نا پسند سے آگاہ کرتی اور اپنی زندگی کی داستانیں سُناتی۔۔ میں ہوں ہاں کرتا اور اُس کی باتوں کو سراہتا۔۔۔اُسے ایک قابلِ اعتماد سامع کی ضرورت تھی، جسے دل کھول کر سب سُنا سکے۔۔۔اور میں ایک اچھا سامع تھا۔۔۔میں کبھی کبھی اُس کی باتوں سے تنگ آکر ڈنڈی مار لیتا اور مختلف بہانوں سے فون بند رکھتا۔۔۔اوروہ اس غیر حاضری پر ناک بھوئیں چڑھا تی اور روٹھ جاتی ۔۔۔پھر میں طرح طرح کے جھوٹ بول کر اُسے منا لیتا۔۔۔ حالانکہ سچ مچ میں وہ بھی روٹھنا نہیں چاہتی تھی ۔۔میں اگنوربھی کردیتا،توخود ہی مان جاتی۔ لیکن میں ہر دفعہ اُسکا مان رکھتا۔۔ ۔

پھر نجانے کیوں اور کس وقت وہ مُجھے خوبصورت لگنے لگی پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔یہ اُنس تھا،ایک دوسرے پر اعتماد تھایا سچ میں پیار ،لیکن وہ کلاس کی سب لڑکیوں سے خوبصورت لگنے لگی۔۔۔ جب اُس سے بات نہ ہوتی تو طبیعت بوجھل سی رہتی ۔۔۔کوئی کمی سی محسوس ہوتی۔۔۔ایسا لگتا جیسے کوئی چیز گم ہوچکی ہو۔۔۔جیسے کچھ بھول گیا ہوں اور یہ بھی معلوم نہ ہو کہ کیا بھولا ہوں۔۔۔پھر یونیورسٹی میں ہم ایک ساتھ دکھائی دینے لگے ۔۔۔اکھٹے بیٹھتے، اکھٹے کھاتے اور ایک ہی بوتل سے پانی پیتے۔۔۔وقت گزرتا گیا اور دوسال مکمل ہوگئے ۔۔۔ یونیورسٹی والوں نے ہمیں ماسٹر کی ایک ایک عدد ڈگری تھما کر چلتا کر دیا۔۔۔ ان دو سالوں میں ، میں نے مانی کے سوا کچھ نہیں پایا۔ اپنے امتحانات، میں نبیل کی وجہ سے پاس کرتا گیا، لیکن کبھی بھی اپنے مضمون کی سمجھ نہ آئی، نہ کوئی لیکچر پلے پڑا۔ ۔۔کیونکہ دماغ میں صُبح شام مانی اور اُسکی باتیں رہتیں۔۔۔مانی رٹے لگانے میں مجھ سے بہت بہتر تھی، اس لیے ہر ٹرم میں زیادہ نمبر لیتی،اور میرے سامنے ان پر اتراتی رہتی۔

جب یونیورسٹی سے رُخصت ہوئے تو ملاقاتوں کا سلسلہ کچھ عرصے تک موقوف رہا،لیکن جلد ہی ہم نے باہمی مشاورت سے اس کا حل ڈھونڈ نکالا۔مانی مہینے میں دو تین مرتبہ کسی نہ کسی بہانے سے گھر سے نکلتی اور ہم ریسٹ ہاؤس کا کوئی کمرہ چوبیس گھنٹوں کے لیے بُک کرکے اُس میں دن کے دس بارہ گھنٹے گزارتے۔۔۔میرے لیپ ٹاپ پر فلمیں دیکھتے گپ شپ لگاتے اور مانی کی لو سٹوریاں سُنتے۔۔ مانی کو بیس پچیس کے لگ بھک محبتیں لا حق ہوچکی تھیں۔جن میں سے دس تو مُجھ سے ملنے کے بعد ہوئی تھیں۔مجھے معلوم تھا کہ کوئی بھی لڑکا اُسے گھاس نہیں ڈالتا لیکن اُس کی طبیعت چپکو تھی اور اپنی اس چپکن کو وہ ہر بار محبت کا نام دیتی۔۔۔مُجھے اُس نے کبھی محبت کے قابل نہیں سمجھا، میں صرف اور صرف ایک سامع تھا جو اُس کی ہر کہانی نئے عزم سے سُنتا اور ضرورت کے وقت مشورہ بھی دیتا۔۔۔وہ ہر نئی محبت کے بعد اپنے عاشق کے ساتھ ایک گھر بسانے کی پلاننگ کرتی۔۔۔اپنے عاشق کی وفااور محبت کی قسمیں کھاتی۔۔۔۔ شادی کے بعد خوبصورت وادیوں کی سیرکی پلاننگ کرتی اور مجھے ہر ایک علاقے کے بارے میں بریف کرتی۔۔۔کبھی وہ سکردوکے دیوسائی کے میدانوں میں گھومنا چاہتی تو کبھی نیلم ویلی میں لیٹ کر آسمان کو گھورنا چاہتی۔۔۔اور کبھی جھیل سیف الملوک کی پریوں کے پروں پر ہاتھ پھیرنا چاہتی۔۔۔لیکن ان تمام جگہوں کا رومان اُس نے انٹر نیٹ کی تصاویر اور ادبی کہانیوں سے کشید کیا تھایہ مقامات اُس نے دیکھے نہ تھے۔۔۔لیکن جلدہی اُس کی لوسٹوری کا دی اینڈ ہوجاتا ۔۔۔ اور اپنے ریزہ ریزہ خواب لیے کسی ریسٹ ہاؤس کے کمرے میں مُجھ سے لپٹ کر دیر تک روتی رہتی۔۔۔وہ دل سے روتی اور اسکا انگ انگ اُس کے رونے میں مدد کرتا۔۔۔ وہ بچوں کی طرح بلکتی، سسکیاں لیتی اور ٹشو پیپر کا ڈبہ ناک پونچھتے پونچھتے ختم کر دیتی جس سے ناک کی لوئیں دہکتا انگارا بن جاتیں،اور میں تسلیاں دیتے دیتے تھک جاتا۔۔۔۔ اگلی ملاقات میں مانی پھر وہی پُرانی مانی ہوتی جسے چند روز بعد پھر سے نئی محبت لاحق ہو تی۔۔۔۔

یو نیورسٹی کے بعد پانچ سال ہم نے ہنسی مذاق اور آئے روز کی محبتوں کی داستانوں میں گزارے۔ہم دونوں نے بی۔ایڈ اور ایم۔ایڈ کی ڈگریاں لیں۔میری بھی جاب لگ گئی اور مانی بھی اُستانی بن گئی۔ لیکن ملاقاتوں کا سلسلہ نہ ٹوٹا ۔۔۔کبھی ہم دونوں مشترکہ چُھٹی کرلیتے تو کبھی اتوار کی چُھٹی کا سہارا لیتے۔ ۔۔ہر نئی آنے والی فلم ان ریسٹ ہاؤس کے کمروں میں دیکھتے، ایک دوسرے پر ہنستے،چاکلیٹ کھاتے اور ایک دوسرے کے سر بہانے بہانے سے ٹریٹ تھوپتے ،کیونکہ اب دونوں تنخواہ دار تھے ،اور زندگی انجوائے کرتے۔۔۔وقت گزر تا گیا۔۔۔۔لیکن یہ اچانک مانی کو کیا ہوا؟ ۔۔۔ساری کایا ہی پلٹ دی!۔۔

ایک مہینے سے مانی کے رابطے ختم تھے۔۔۔ میں نے رابطے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن اُس کے سارے فون نمبرز بند تھے۔۔۔ اُس کے گھر جانے کی ہمت تو نہیں کی لیکن۔۔ اس کے نمبر پر کئی میسیج چھوڑے !، جسکا جواب ایک مہینے بعد ملا۔۔۔۔ایک لمبے میسیج کی صورت میں۔۔۔ مانی نے ایک عجیب سا سوال پوچھا تھا۔۔۔۔ہمارے رشتے کے بارے میں۔۔۔۔ ہمارے رشتے کا کیا نام ہے؟۔۔دُنیا کی نظروں میں ہمارے رشتے کا کیا نام ہے؟۔۔میں نے رپلائی میں دوست لکھنا چاہا۔۔۔۔لیکن پھر سوچنے لگا کہ ہمارے معاشرے میں دوست کا کونسا رشتہ ہے؟۔۔۔کیا مخالف جنس کے انسانوں کی دوستی دُنیا قبول کرتی ہے؟۔۔۔۔یقیناََ دُنیا رشتے کا نام مانگتی ہے شاید مانی سے بھی رشتے کا نام مانگا گیا ہو؟۔۔۔ مخالف جنس کی دوستی کو دُنیاعیاشی کی نظر سے دیکھتی ہے۔۔۔ہمارے ہاں داشتہ اور رکھیل کے القابات اور کردار موجود ہیں، لیکن دو مخالف جنس کے لوگ دوست نہیں ہوسکتے ۔۔۔ ہمارے اس رشتے کا بھی کوئی نام نہیں تھا۔۔خواہ یہ دس سال سے زیادہ قائم رہا۔۔۔کیونکہ مانی نہ میری بیوی تھی اور نہ لونڈی۔۔۔بلکہ ہم ایک دوسرے کیساتھ خوش دو آزاد انسان تھے۔۔ ہمارا رشتہ معاشرے کی سمجھ سے باہر تھا ۔۔۔۔ مانی لڑکی تھی اس لیے شاید اُسے معاشرے کو باور کرانے کی ضرورت تھی ۔۔۔۔رشتے کا نام بتانے کی ضرورت تھی۔۔۔ مانی نے اگلے میسیج میں لکھا۔۔ میں اپنی زندگی جینا چاہتی ہوں ، ایک گھر بسانا چاہتی ہوں۔۔ بچوں کا پیار چاہتی ہوں۔۔۔ تم میرے راستے کا روڑا ہو۔۔۔ تمہاری وجہ سے میری زندگی بے کار ہوگئی ہے۔۔۔میں ابھی اپنے سم کارڈ ضائع کررہی ہوں ۔۔۔۔آج کے بعد مجھ سے رابطے کی کو شش مت کرنا۔۔۔آج اُس کی باتوں کے آخر میں پلیز بھی تو نہیں تھا!۔۔

شاید اُس کی باتیں سچ تھیں۔۔۔۔اُس کی زندگی کے دس سال ضائع ہوچکے تھے۔۔۔لیکن زندگی تو میری بھی اُس سے مختلف نہ تھی۔۔نہ بیوی تھی نہ بچے۔۔۔صر ف میں اور مانی ،دو ہی تو انسان تھے میری زندگی میں۔۔۔کیااپنے اس فیصلے سے وہ مجھے بچا رہی تھی؟ خود کو بچا رہی تھی؟۔۔۔یا انجانے میں دو خاص زندگیاں عام بنا رہی تھی؟۔۔ میں نے میسیج لکھ دیا تھا۔۔۔کیونکہ مجھے رشتہ درکار نہ تھا ۔۔۔۔۔ رشتہ نبھانا پڑتا ہے ۔۔سنبھالنا پڑتا ہے۔۔۔۔میں بے نام سے بندھنوں کا عاشق تھا۔۔۔جس میں کوئی دکھاوا نہ ہو ۔۔۔جس میں کوئی جبر نہ ہو۔۔۔جس میں کوئی چُھپی ہوی باتیں نہ ہو۔۔۔۔جسے نوکری کی طرح نبھانا نہ پڑے۔۔۔جو لگے بندھے اصولوں کے مطابق نہ ہو۔۔۔۔جس میں بے بسی نہ ہو۔۔۔جس میں شوہر بیوی کا دیوتا نہ ہو اورنہ بیوی داسی ۔۔بلکہ دوستی ہو۔۔۔برابری کی دوستی ۔۔۔کُھل کر سب کچھ بتانے کا رشتہ۔۔۔ جس میں جنون ہو۔۔ دیوانگی ہو۔۔۔ وارفتگی ہو۔۔نشہ ہو۔۔۔اور خودساختہ،جھوٹی پاکیزگی سے بڑھ کر بے باک سچائی ہو۔۔۔ میں یہ سب باتیں مانی کو سمجھانے کی پوزیشن میں نہیں تھا اور وہ بھی عمر کی اِس منزل پر تھی جہاں سر کے بالوں میں چاندی اُتر آتی ہے۔۔۔پھر عورت مستقبل کے بارے میں سوچتی ہے،بڑھاپے کا سہارا چاہتی ہے اولاد چاہتی ہے۔۔رشتوں کے نام چاہتی ہے۔۔عمر کے اس حصے میں بے باکی کو مامتا گھیر لیتی ہے ۔۔۔شاید ۔۔۔۔۔۔مانی کی مامتا جاگ چکی ہو؟۔۔۔۔ اب اس سمندر کے آگے بند باندھنا میرے بس کا کام نہیں تھا۔۔۔ میں نے کانپتی اُنگلیاں پھر سے اوکے بٹن کی طرف بڑھائیں اور ٹیکسٹ دوبارہ پڑھا۔۔۔۔آپ سم توڑنا چاہیں یا نہ چاہیں۔۔۔ میں اسے توڑ رہا ہوں۔آئندہ کوئی رابطہ نہیں رکھوں گا۔۔۔۔اور اوکے کرکے میسیج بھیج دیا۔۔۔فون سے سم کارڈ نکال کر چبا ڈالیں۔۔۔پتہ نہیں اُس نے پہلے سم کارڈ توڑے ہوں گے یا میں نے؟؟؟؟۔۔۔۔۔
 

Wasim Khan Abid
About the Author: Wasim Khan Abid Read More Articles by Wasim Khan Abid: 26 Articles with 32281 views I am a realistic and open minded person. .. View More