تبلیغی جماعت پر وکی لیکس کا الزام

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب ’تبلیغی جماعت ‘الزامات کے گھیرے میں ہے۔اس بار اس پر القاعدہ کے کارکنوں کو قیام کی سہولت فراہم کرنے کا اور پاکستانی ویزا دلانے کا الزام لگایا گیا ہے۔ یہ الزام اسی طرح بے بنیاد ہیں جیسے اسلام اور مسلمانوں سے منسوب افراد یا اداروں پر عموماً لگائے جاتے رہے ہیں۔ فتنہ پرور زرد صحافیوں اور فرقہ پرست عناصر کا یہ مستقل مشغلہ ہے کہ مختلف عنوانات سے ہماری مسجدوں، مدرسوں اور تنظیموں کو نشانہ بناتے ہیں۔ چنانچہ این ڈی اے کے دور حکومت میں مدارس کو نشانہ بنایا گیا اور کہا گیا کہ سرحدی علاقوں میں ہزاروں مدارس غیرملکی فنڈ سے چل رہے ہیں اور ان میں جہادی پیدا کئے جاتے ہیں۔ ان الزامات کے تحت تفتیش کے نام پر پرزورمہم چلائی گئی اور مدارس کے منتظمین کو طرح طرح سے پریشان کیا گیا۔ مگر حاصل کچھ نہیں ہوا۔ ایک الزام مساجد اور مدارس کی تعمیر میں ’پیٹرو ڈالر‘ کے استعمال کا لگایا جاتا ہے۔جس کا معقول جواب یہ ہے کہ ہندستان کے ترقیاتی منصوبوں اور تعلیمی اداروں میں غیر ملکی سرمایہ کاری قابل اعتراض نہیں تو پھر اگر ممالک غیر میں مقیم مسلمان اپنے وطن کی کسی مسجد، مدرسہ یا اسکول کی معاونت کرتے ہیں تو اس پر اعتراض کیوں ؟یہی الزام ان دیگر لوگوں پر کیوں نہیں لگایا جاتا جو غیرملکی ہیں مگر یہاں ادارے چلا رہے ہیں اور یہاں کاروبار میں سرمایہ لگا کر منافع باہر لیجا رہے ہیں؟

بعض اخبارات میں (۹مئی کو)’ وکی لیکس‘ کے حوالے سے یہ شگوفہ چھوڑا گیا ہے کہ امریکی قید خانہ گوانتانامو بے کے بعض محبوسین نے دہلی میں واقع تبلیغی جماعت کے مرکز جانے، وہاں قیام کرنے اور جماعت کے ساتھ سفر پاکستان کے لئے ویزا حاصل کرنے کی کوشش کا اعتراف کیا ہے۔ چنانچہ بی جے پی کے قومی ترجمان اور سپریم کورٹ کے لائق وکیل روی شنکر پرساد کی رگ ِ’قوم پرستی‘ فوراً پھڑ ک اٹھی اور انہوں نے اس ’خبر ‘ کو انتہائی سنگین معاملہ قرار دیتے ہوئے سرکار کو کٹ گھڑے میں کھڑا کر کے مطالبہ کیا کہ وہ اس پر اپنا موقف واضح کرے۔عجب نہیں کہ ان کے پریوار کا کوئی دوسرا ’دیش بھگت‘ تبلیغی جماعت پر پابندی کا مطالبہ بھی کر ڈالے۔

اس الزام کو خاطر میں لانے سے پہلے جولین اسانجے پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو وکی لیکس کے نام سے خفیہ دستاویزات کو منظر عام پر لارہا ہے۔اسانجے ۱۷۹۱ءمیں آسٹریلیا میں پیدا ہوا ۔ اس کا’ حیاتیاتی‘ باپ جان شفٹان ہے جس کے ساتھ اس کی ماں کرسٹائن اوائل بلوغت رہی۔جولین جب صرف ایک سال کا تھا، کرسٹائن نے شفٹان کو چھوڑ دیا اور بریٹ اسانجے سے’ شادی‘ رچالی۔ بریٹ اسانجے نے ہی اس لڑکے کا نام جولین اسانجے رکھا حالانکہ اس کی نسبت شفٹان سے ہونی چاہئے۔ کچھ عرصہ بعد کرسٹان نے بریٹ اسانجے کو بھی چھوڑ دیا اور یوگا گرو ’ہیملٹن بیرنے ‘کے آشرم ’شانتی نکیتن پارک‘ کے ایک سازندے کے ساتھ رہنے لگی جس سے اس کے یہاں ایک بچہ اور ہوا۔ لیکن جلد ہی اس سے بھی وہ بیزار ہوگئی اور بچوں کو لیکر فرار ہوگئی۔ سازندہ اپنے بچے کو حاصل کرنے کے لئے مدتوں اس کا پیچھا کرتا رہا اور وہ گھر بدلتی رہی۔ چنانچہ اسانجے نے ۴۱ سال کی عمر کو پہنچنے تک اپنی ماں کے ساتھ ۰۳ شہر تبدیل کئے۔وہ آسٹریلیا کے ۰۵سے زیادہ مقامات پر رہا اور ۷۳ سے زیادہ اسکولوں میں داخل ہوا۔۶۱ سال کی عمر میں اس نے کمپیوٹر پروگرامنگ میں ایسی شاطرانہ مہارت حاصل کر لی ہے کہ گھر بیٹھے انٹر نیٹ کے ذریعہ کسی بھی کمپوٹر کا پاس ورڈ ڈھونڈ نکالتا ہے اور اس میں محفوظ معلومات حاصل کر لیتا ہے۔ اس جرم کی پاداش میں اس کو سزا بھی ہوچکی ہے ۔ مگر اب یہی جرم اس کا ہنر بن گیا ہے۔ چنانچہ اس نے امریکا کی بہت سے خفیہ سرکاری دستاویزات تک دسترس حاصل کر لی ہے اور ان کی بدولت خوب دولت کما رہا ہے۔

اس مختصر داستان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے کس طرح کے ماحول میں تربیت پائی اور اسکے ذہن کی ساخت کیا ہے۔اسانجے آج جو کچھ کہہ رہا ہے ، کررہا ہے کیا اس کو اس کے مجرمانہ پس منظر کو خاطر میں لائے بغیر صدق و صفا کی سند عطا کرنا حق بجانب ہے؟ ہمارے علماء نے تو علم الرجال نام سے ایک دقیق علم کو فروغ دیا تھا اور یہ اصول متعین کردیا تھا کہ کسی ایسے شخص کی روایت کو قبول نہیں کیا جاسکتا جس کا ماضی آلائشوں سے پاک نہ ہو۔ ہمارے یہاں مروجہ عدالتی نظام میں بھی شہادت کو اسی بنیاد پر وزن دیا جاتا ہے۔ گواہ کے ماضی کو دیکھا جاتا ہے اور بیان کو اچھی طرح جانچ پرکھ اور جرح کے بعد ہی رد یا قبول کیا جاتا ہے۔ مگر سپریم کورٹ کے لائق وکیل روی شنکر پرساد اسانجے کے انکشاف پر اس طرح خوش نظر آرہے ہیں گویا کوئی آسمانی صحیفہ اتر آیا ہو۔

اسانجے (وکی لیکس ) کے انکشافات کا ایک پراسرار پہلو یہ ہے کہ اب تک اس نے کوئی ایسا انکشاف نہیں کیا جس کی زد اسرائیل پر پڑتی ہو،حالانکہ عالمی سطح پر اس کے جرائم اور سازشوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔ یہ شخص وقفہ وقفہ سے مسلم حکمرانوں، حکومتوں، تنظیموں، افراد، اداروں اور عبادتگاہوں کے خلاف جو زہر افشانی کرتا ہے اس کو میڈیا شاہ سرخی کے ساتھ شائع کردیتا ہے۔ ابھی گزشتہ ماہ (۶۲ اپریل کو) اس نے لندن کی دو بڑی مساجد(ایسٹ لندن موسک اور نارتھ لندن موسک) کے بارے میں یہ سنسی خیز دعویٰ کیا تھا کہ یہ مساجد یورپی مسلم نوجوانوں کی دہشت گردی کے لئے ذہنی تربیت کا اڈہ ہیں۔مرکز تبلیغی جماعت کو دہشت گردی سے منسوب کرنے کے الزام کی طرح ہی ان مساجد پر یہ الزام بھی کیوبا میں امریکا کی پر اسرار جیل گوانٹو نامو بے میں قید بعض افراد کے اقبالیہ بیانات کے حوالے سے لگایا گیا ہے۔ ان اقبالیہ بیانات کی صداقت بھی مشکوک ہے۔ گوانٹو نامو بے جیل دنیا کا سب سے سفاک عقوبت خانہ ہے جہاں غیر قانونی طور سے دنیا بھر سے مشتبہ افراد کو لا کر بند کر دیا گیا ہے۔ ان کو بدترین قسم کی ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی اذیتیں پہنچا کر کچھ نہ کچھ ایسی باتیں کہلوا لی جاتی ہیں جن کو جیل کے نگراں اپنی کارگزاری کے طور پر پیش کرسکیں۔ ان کے بیانات درج کرنے والے بھی وہی جیلر ہوتے ہیں جو ’پوچھ تاچھ‘ کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں نہ ان کے اقرار کو صحیح معنوں میں اقرار کہا جاسکتا اور اس کے اندراج کو بیان کے عین مطابق قرار دیا جاسکتا ہے۔مگر روی شنکر پرساد صاحب کو ان حقائق سے کیا سروکار؟

ہمارے ملک میں ایک طبقہ ایسا ہے جو ملک کے بدترین دشمن دہشت گردوں کے بیانات کو بھی اس طرح دلیل کے طور ثبوت کے طور پر پیش کرتا ہے گویا ان مسلمہ دہشت گردوں سے بڑا سچ بولنے والا کوئی اور ہے ہی نہیں۔ چنانچہ ممبئی حملوں میں اہم کردار اد اکرنے والے امریکی (ڈبل ایجنٹ) ڈیوڈ کولمین ہیڈلی نے پوچھ تاچھ کے دوران جب مبینہ طور سے یہ کہا کہ ممبئی کی مقتول طالبہ عشرت جہاں کا تعلق جیش محمد سے تھا تو سنگھیوں کے چہرے کھل اٹھے اور انہوں نے ملک کے دشمن دہشت گرد سرغنہ کے اس بیان کو ایک معصوم لڑکی کے قتل ناحق کے جواز میں ایک پختہ سند کے طور پر اس طرح اچھالا جیسے ہیڈلی انکا بڑا ہی قابل اعتماد دوست ہو۔ دنیا جانتی ہے کہ وہ اس ناپاک مہم کا حصہ ہے جو ہندستان کو کمزور کرنا چاہتی ہے۔ ایسے شخص کے بیانات کو من و عن قبول کرلینا اور ان کو بہانا بناکر ایک پورے فرقہ کو نشانہ بنانا، سراسر بدنیتی پر محمول ہے۔

جہاں تک تبلیغی جماعت کا معاملہ ہے، اس کے دروازے ہر شخص کے لئے کھلے ہوئے ہیں۔ یہ مرکز ایک مسجد میں واقع ہے جس میں ہر روز بیشمار بیرونی افراد آتے ہیں اور وعظ و نصیحت کی مجلسوں میں شریک ہوتے ہیں۔ مدتوں سی آئی ڈی نے اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھی مگر کہیں کوئی ڈھکا چھپا پہلو نظر نہیں آیا۔ اس کی کوئی مستقل ممبر شپ نہیں کہ ممبر سازی کے لئے چھان بین ہو۔ یہ جماعت اصولاً ایک اصلاحی تحریک ہے کیونکہ اس کے مخاطب صرف مسلمان ہیں اور یہ صرف عقیدہ کی درستگی، عبادات کے اہتمام اور اعمال کی اصلاح کی تلقین کرتی ہے۔ اس کا ایک طریقہ کار ہے جس کی منظق یہ ہے دین کو سیکھنے کے لئے روزمرہ کی مصروفیات سے کچھ وقت فارغ کرنا چاہئے۔چنانچہ حسب موقع چند روز یا چند ہفتوں کا وقت نکال کر لوگ گھروں سے نکلتے ہیں اور آٹھ دس افراد کی جماعت بناکر کسی علاقے کی مساجد کا رخ کرتے ہیں۔ اس دوران نماز اور کلمہ کو درست کرنے کی مشق ہوتی ہے۔اخلاق کو سنوارنے کی کچھ باتیں بتائی جاتی ہیں۔ اہل محلہ کو بھی شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔اس کا نصا ب مدرسہ مظاہر علوم کے شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی مرحوم نے تیار کیا تھا۔حضرت شیخ ان شخصیات میں تھے جنہوں نے مولانا حسین احمد مدنی ؒ اور مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کے ساتھ مل کر تقسیم وطن کے نظریہ کو رد کیا اور تقسیم کے بعد وطن کو نہ چھوڑنے کا اہم فیصلہ کیا جس کی بدولت مغربی یوپی میں مسلمانوں کے قدم جمے رہے۔ ان کا فطری رجحان تصوف کی طرف تھا اور عبادت و ریاضت اور اصلاح باطن پر زیادہ زور تھا۔ چنانچہ یہ پوری تحریک اسی نہج پر چل رہی ہے۔ اس کے نصاب، اس کی تاریخ، اس کی چلت پھرت اور اس کی نفسیات میں اس فکر کے لئے کوئی گنجائش نہیں جس کی نمائندگی القاعدہ یا دیگر جہادی تنظیمیں کرتی ہیں۔

اس بات کا امکان بہر حال ہے کہ کسی مجرمانہ سرگرمی میں ماخوذ کوئی شخص یا جہادی نظریہ کا کوئی قائل بھی مرکز میں آجائے اور جماعت میں بھی نکل جائے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ تبلیغی مرکز مشتبہ افراد کی پناہ گاہ ہے۔ مرکز میں ہر روز سینکڑوں نئے چہرے آتے ہیں۔کسی کے ماتھے پر یہ نہیں لکھا ہوتا کہ وہ کیسا ہے۔ جو لوگ کچھ وقت لگانے کےلئے آتے ہیں ان کو ایک امیر کے تحت کسی جماعت میں شامل کردیا جاتا ہے ۔ یہ امیر اجنبی نہیں ہوتا اور عموماً جماعت کے شرکاء کو پورے وقت اصلاحی کاموں اور عبادات میں مشغول رکھتا ہے اور ان کی دیگر سرگرمیوں بھی نظر رکھتا ہے۔عموماً وہی لوگ مرکز آتے ہیں جو اپنی اصلاح کے خواہش مند ہیں۔اگر کوئی شخص کسی دیگر وجہ سے وقت گزاری کے لئے آجائے تو وہ بھی اس ماحول میں کچھ نہ کچھ سدھر کر ہی جائے گا۔ چنانچہ اس کا امکان نہیں کہ اس تحریک کا کوئی دلدادہ پٹری بدل کر القاعدہ کا ہوجائے۔یہ مقولہ مشہور ہے کہ تبلیغی جماعت عافیت پسندوں کی تحریک ہے ، خود کو آزمائشوں میں مبتلا کرنے اور جان کو خطرے میں ڈالنے والوں کی نہیں۔ وکی لیکس میں یہ کہا بھی نہیں گیا ہے کہ تبلیغی جماعت سے وابستہ کوئی شخص القاعدہ میں شامل ہوگیا بلکہ یہ کہا ہے کہ القاعدہ سے وابستہ کچھ افراد نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے تبلیغی جماعت کے مرکز میں قیام کیا اور یہ کوشش کی کہ ان کو پاکستان جانے والی جماعت میں شامل کرلیا جائے تاکہ ان کو پاکستان کا ویزہ مل سکے۔‘ پاکستان کے ویزہ کی بات دو وجوہ سے قرین قیا س نہیں۔اول غیر ممالک کی جماعتوں میں صرف وہی لو گ بھیجے جاتے ہیں جو خاصا وقت جماعت میں لگا چکے ہوں اور کسی نمایاں پوزیشن کے حامل ہیں۔ جن کے بارے میں یہ اطمینان ہو کہ وہ صرف اصلاحی مشن کے تحت ہی سفر کا خواہش مند ہیں۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے پاکستانی سفارتخانہ دہلی سے کسی غیرملکی کو ویزا نہیں دیتا اور ہندستان کو کوئی شہری الحمد اللہ گوانٹو نامو بے قید خانے میں مقید نہیں ہے۔اس لئے یہ امکان نہیں کہ کوئی غیرملکی اجنبی شخص بیرون ملک جانے والی کسی جماعت میں شریک کرلیا گیا ہو۔

ان معروضات سے ہمارے پیش نظر تبلیغی جماعت ، یا کسی خاص مسلک اور فکر کا دفاع کرنا نہیں ہے بلکہ ان سازشیوں اور ان کے دوستوں کو بے نقاب کرنا ہے جو اسلام اور مسلمانوں سے وابستہ اداروں ، تنظیموں ، تحریکوں اور افراد کو بدنام کرنے کی مہم چلاتے ہیں ۔ اسی طرح کی سازش کے تحت سینکڑوں بے قصور مسلمان دہشت گردی کے الزام میں جیلوں میں بند ہیں۔ المیہ یہ ہے مسلمانوں پر بڑھ چڑھ الزام لگانے والوں کو خود اپنے دامن کے داغ نظر نہیں آتے۔ جن کی خود اپنی صفوں کے لیڈر کرپشن، کبوتر بازی اور دہشت گردی جیسے جرائم میں جیلوں میں بند ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنا عیب چھپانے کے لئے بدطینت اور مجرمانہ ذہنیت کے افراد کے لگائے ہوئے جھوٹے سچے الزامات کی روشنی میں مسلمانوں کے دامن پر ایسے داغ بتاتے ہیں جن کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔

(مضمون نگار فورم فار سِوِل رائٹس کے جنرل سیکریٹری ہیں)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163461 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.