کورونا : ہم عہدِ کورانا میں جی رہے ہیں (قسط ۔ 16)


کورونا : ہم عہدِ کورانا میں جی رہے ہیں (قسط ۔ 16)
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
.........
عہدِ کورونا ہے اور ہم جی رہے ہیں
قہر کا عالم ہے اور ہم جی رہے ہیں
کب تک کرے گا یہ انساں کا پیچھا
ویکسین کی آس پہ ہم جی رہے ہیں
ڈاکٹر رئیس صمدانی

ادب کے حوالے سے یہ بات کوئی نئی نہیں ہے ۔ ماضی میں کئی شاعروں ، ادیبوں اور مزاح نگاروں کے حوالے سے یہ کہا گیا ہے کہ ہم فلاں کے عہد میں جی رہے ہیں ۔ معروف مزاح نگار ابن انشاء نے اپنی زندگی میں مزاح نگار یوسفی صاحب کے بارے میں لکھا تھا کہ’ اس عہد کو ہم یوسفی ہی کے نام سے منسوب کرسکتے ہیں ‘،اس وقت یوسفی صاحب بھی حیات تھے ۔ اسی بات کو ڈاکٹر ظہیر فتح پوری نے اس طرح لکھا کہ ’’ہم اردو مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں ‘‘، اس بات کو اور آگے بڑھایا جناب عالم نقوی لکھنوَی نے لکھا کہ یوسفی نہیں رہے تو کیا ہم ’’عہد یوسفی ‘‘ ہی میں ہیں ۔ معروف شاعر فیض احمد فیض کے لیے بھی جب وہ حیات تھے یہ کہا اور لکھا گیا ، مسعود منور نے لکھا ’’ہم عہد فیض میں جی رہے ہیں ‘‘، اور پھر جون ایلیا کی غزل کا معروف شعر ۔
ہم جی رہے ہیں کوئی بہانہ کیے بغیر
اُس کے بغیر ، اُس کی تمنا کیے بغیر
ادیبوں ، شاعروں ، مصنفین اور لکھاریوں کے شب و روز بھی جبریا قید میں گزر رہے ہیں لیکن ہر ایک نے وقت گزارنے کے مختلف طریقے اختیار کر لیے ہیں ۔ ادیب ، شاعر اور لکھاری تو پہلے ہی تنہائی میں تخلیقی کام کے عادی ہوتے ہیں ، البتہ اس قدر نہیں کہ اس قید تنہائی کو مہنوں ہوجائیں ۔ کورونا کے حوالے سے معروف صحافی ، کالم نگار و شاعر محمود شام کی ایک غزل کا شعر ۔
عجیب درد ہے جس کی دوا ہے تنہائی
بقائے شہر ہے اب شہر کے اجڑنے میں
ادبی تقریبات، ادبی نشستیں اور ادبی سرگرمیوں کے لیے برقی ویڈیو ایپس جیسے اسکاءپ، زوم، گوگل میٹ، واٹس اپ، آئی ایم او اور دیگر ایپس کے ذریعہ ویڈیو کانفرنسنگ ہو رہی ہیں ۔ کراچی میں حلقہ ارباب ذوق ہر روز رات سوا دس بجے سے ادبی نشست کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں پاکستان کے علاوہ کئی ممالک کے ادیب و شاعر شریک ہوتے ہیں ، ہماری ویب رائیٹرز کلب ’ہم سماج‘ کے تعاون سے کئی پروگرام برقی ایب پر پیش کر چکا ہے،وائس آف لائبریریز کی جانب سے مختلف شخصیات سے ملاقات کا اہتمام کیا جارہا ہے، اسلام آباد سے دانش ڈاٹ پی کے میں شاہد اعوان صاحب عمدہ پروگرام آن لائن پیش کر رہے ہیں ۔ افتخار عارف سے مکالمہ بہت ہی عمدہ ایپی سوڈ تھا ۔ اسلام آباد ہی سے زعفرانی بزم شگفتگو کے مزاحیہ مناثرہ کا اہتمام ہورہا ہے ۔ اس سلسلے میں ایک پروگرام جرمنی کے شہر برلن میں قائم اردو انجمن ، برلن کے زیر اہتمام معروف شاعر و افسانہ نگار انورظہیر رہبر کی کتاب ’’لفظ بولیں گے میری تحریر کے‘‘ کی تعارفی تقریب منعقد ہوئی جس میں کراچی سے مجھے اظہار خیال کی دعوت دی گئی، دیگر ممالک جن میں سڈنی ، آسٹریلیا ،علی گڑھ کولکاتا،استنبول ، ترکی ،لندن،ٹورنٹو ، کنیڈا، سوئیزر لینڈ ، فرینکفرٹ ، جرمنی کے احباب نے اظہار خیال کیا ۔مزاح گو شاعر خالد عزیز نے کہا ۔
کورونا سے بچ کر کہا جاہیے گا
جہاں جاہیے گا وہیں پائیے گا
عہد حاضر میں پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دینے والا، دہشت اور خوف کی علامت بن جانے والا، لوگوں کی آزادی سلب کرنے والا، لوگوں کو دنوں نہیں ، ہفتوں نہیں بلکہ مہینو ں گھروں میں مقید کر دینے والا، روزآنا کی بنیاد پر ہزاروں انسانوں کو اس دنیا سے دوسری دنیا میں پہچانے والا، جس کی واپسی کا دور دور کوئی پتا نہیں ، اس کی کوئی دوا نہیں ، اس کی کوئی ویکسین نہیں ، کوئی کہتا ہے کہ یہ انسانی ہاتھوں کا بنایا ہوا ہے ، کوئی کہتا ہے کہ اللہ کی طرف سے بھیجی گئی مشکل ہے، دنیا کی بڑی طاقتیں ایک دوسرے پر اس کی پیدائش اور پھیلاوَ کا الزام دھرنے میں مصروف ہیں ، سانئسداں ، ڈاکٹرز ، محقق اس کی ویکسین ایجاد کرنے کی کوشش کرنے میں مصروف پر تاحال نا کام ۔ معروف شاعر انور شعور کا قطعہ ۔
میسر گھر میں آزادی ہے پھر بھی
کوئی قید نفس ہے اور ہم ہیں
کہاں احباب کی وہ محفلیں اب
کورونا وائرس ہے اور ہم ہیں
اتنی خصوصیات اور علامات کا حامل ہے جس نے پوری دنیا میں اپنا قہر مسلط کیا ہوا ہے ، وہ ہے ’کورونا وائرس ‘‘ جو کووڈ19‘کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ عہد حاضر کورونا عہد کے نام سے تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ’ہم عہد کورونا میں جی رہے ہیں ‘ بلکہ شکر یہ ہے کہ ہم عہد کورونا میں زندہ ہیں ۔ شاعر امجد اسلام امجد نے اس صورت حال کو اپنے اس شعر میں خوبصورت انداز سے پیش کیا ہے ۔
بند ہوجائے گی ایک دم زندگی ایسے سوچا نہ تھا
یہ جو اب ہوگیا خواب میں بھی کبھی ہم نے دیکھا نہ تھا
ڈاکٹر ساجدہ سلطانہ نے قرنطینہ کے حوالہ سے ایک نظم کا پہلا شعر
ہم سے لاک ڈاوَن میں دل گھر میں لگایا نہ گیا
اور گھر کو بھی قرنطینہ بنایا نہ گیا
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ یہ بات کسی کے خیالوں میں بھی نہ تھی کہ چلتی پھرتی، ہنستی مسکراتی، قہقہے لگاتی ، دوڈتی بھاگتی، مزے کرتی اور مزے کراتی تیز رفتار زندگی اس طرح بے رخی وبے مروتی سے اپنے آپ کو یکسر تبدیل کر لے گی اور انسانوں کو اپنے اپنے گھروں میں ، قرنطینہ مراکز میں محسور اور اسپتالوں کے کورونا وارڈ وں میں زندگی گزارنے پرمجبور کر دے گی ۔ یہ سب کچھ کورونا کا کمال ہے ۔ معروف شاعرہ شگفتہ شفیق کی ایک نظم کے دو اشعار
ہنستی بستی سے بستیاں خاموش
کیا کہوں کیوں ہیں مہر باں خاموش
اس کرونا نے کردیا ہے تباہ
در پہ تالہ ہے کھڑکیاں خاموش
کورونانے دنیا کو تمام معاملاتِ زندگی سے مکمل طور پر آزادکر کے صرف اپنا گرویدہ بنا لیا ہے ۔ کوئی ملک ترقی یافتہ ہے یا ترقی پزیر، ایشائی ، افریقی یا یورپی، کالوں کا ملک ہے یا گوروں کا، مسلمانوں کا ہے یا غیر مسلموں کا ،سپر پاور ہے یامستقبل کی سپر پاور بننے کی خواہش رکھنے والی سلطنت اسے کورونا سے نجات کی تدبیروں کے سوا کوئی اور کام نہیں سوجھ رہا ۔ بڑے بڑے ترقی یافتہ ملکوں کی معیشت تباہ چکی، لوگ بے روزگار ہوچکے ، ترقی پزیر اور غریب ممالک کا تو حال ہی براہے ۔ کورونا کے حوالے سے میرا ایک قطعہ
کورونا نے خوب غضب دنیا میں ڈھایا
چین سے کیا آغاز تو امریکہ میں ڈیرا جمایا
کس کس ملک کا نہیں بنا یہ مہماں کورونا
بن بلائے جا پہنچا اور خوف وہاں پھیلایا
کورونا وائرس یا ’کووڈ19کی پیدائش چین کے شہر ووہان میں دسمبر2019ء تیسرے ہفتہ میں ہوئی، چین نے کوشش کی کہ چپکے سے اس کا گلاگھونٹ دے، اسے دبا دے، مٹا دے لیکن بھلا کوئی اپنی یا لے پالک اولاد کا گلا گھونٹ سکتا ہے، یہی ہوا اس نے ووہان سے دیگر شہروں اور پھر پڑوسی ممالک کا رخ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ایشیاء، یورپ، امریکہ، آسٹریلیا غرض چاروں براعظموں کے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، جس ملک نے اسے اپناخطرناک دشمن تصور کیا اورسماجی رابطوں ، لاک ڈاوَن، طبی اصولوں پر سختی سے عمل کیا وہاں اس نے کم ہاتھ پیر مارے ، ہلاکتیں کم ہوئیں ، اٹلی ، امریکہ، فرانس، ایران، برطانیہ اسے خاطر میں نہ لائے اس کا خمیازہ انہیں انسانی جانوں کی صورت میں بھگتنا پڑا اور ابھی بھی بھگت رہے ہیں ۔ کورونا کی آمد کو تقریباً 5ماہ ہوچکے ۔ کورونا وائرس کا یہ مختصر سے دور کتنی قیمتی جانیں ہڑپ کر گیا اس کا اندازہ چند ممالک کے اعداد و شمار سے لگا یا جاسکتا ہے ۔ عہد کورونا انسانوں کے لیے انتہائی اذیت ناک، پریشان کن، خوف کی علامت بن کر دن دناتا ہوا شہروں شہروں ملکوں تباہی مچارہا ہے ۔ ان پانچ ماہ میں کل کورونا مریضوں کی تعداد5,112,010 رہی ،ہلاک شدگان کی کل تعداد 330,255رہی، صحت یاب ہونے والوں کی تعداد2,038,879ہے ۔ کل مریضوں کی تعداد اور ہلاکتوں کے اعتبار سے اس وقت امریکہ سر فہرست ہے اس کے بعد برطانیہ، اسپین، اٹلی، فرانس، چین ،روس ترکی، ایران وہ ممالک ہیں جہاں کورونانے انسانی جانوں کا نقصان کیا ۔
پاکستان کی صورت حال اس اعتبار سے بہتر سمجھی جارہی ہے کہ یہاں دیگر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں مریضوں کی تعداد اور شہید ہوجانے والوں کی تعداد کم ہے ۔ وبا میں مبتلا افراد کی تعداد48091جب کہ شہید ہونے والوں کی تعداد 1017ہوچکی ہے ۔ جان تو ایک بھی قیمتی ہوتی ہے ۔ پاکستان میں عہد کپتانی (عمران خان )کی تاریخ جب کبھی رقم ہوگی، کورانا اس کا ایک اہم اور کلیدی باب ہوگا ۔ کپتان کی خوش قسمتی کہیں یا بد قسمتی کہ کورونا نے دنیا میں اپنی آمد کے لیے اس وقت کا انتخاب کیا، یہ نواز شریف یا قبلہ عاصف علی زرداری کے دور حکمرانی میں بھی آسکتا تھا ، یا کپتان کی حکمرانی کے اختتام پر بھی آسکتا تھا لیکن اسے بھی کپتان سے محبت تھی، انسیت تھی، یا پھر کپتان کی آزمائش کہ وہ اپنے ملک کے لوگوں کو اس قہر سے کیسے نکالتا ہے یا اس میں ناکام رہتا ہے ۔ کپتان کی مستقبل کی سیاست عہد کورانہ سے وابستہ ہے، آر یا پار، اگر ملک کی کشتی کو کنارے لگانے میں کامیاب ہوا تو مستقبل کے پانچ سال اس کے نام ہوں گے اگر کشتی ڈوب گئی تو کپتان کی مستقبل کی سیاست بھی خاموش ہوجائے گی ۔ اس وقت حتمی طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہے، سر دست تو کورونا کا سفر اوپر کی جانب ہے، کہا جارہا ہے کہ ابھی کورونا نے اوپر کی جانب سفر ختم نہیں کیا ، ابھی اس کا فیز دوم شروع ہونے والا ہے ۔ اللہ اپنا کرم رکھے اور پاکستان کے حکمرانوں کو ، سیاست دانوں کو وقت کی نزاکت کا ادراک عطا فرمائے وہ باہمی اتحاد سے اس وبا کا مقابلہ کریں ۔ اس قسم کی وباؤں کا مقابلہ تنہا حکومت نہیں کرسکتی، حکومت کے ساتھ سا تھ عوام اور ملک کی حزب اختلاف یا سیاسی جماعتوں کا کردار بھی اتنا ہی اہم ہوتا ہے ۔ ماضی میں جب بھی پاکستان پر کڑا وقت آیا، وہ بھارت کی جارہیت ہو، کشمیر کا مسئلہ ہو، سیلاب، زلزلہ یا کوئی اور مصیبت حکومتوں نے حزب اختلاف اور عوام کے تعاون سے کامیابی حاصل کی ہے ۔ حکومتی احکامات کے مطابق ویسے بھی ہماری انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم کرونا کے خلاف لڑائی میں ایک ذمہ دار شہری بنیں ۔ افوہوں کی روک تھام کے لیے صرف سرکاری ذراءع سے حاصل کردہ معلومات کو آگے پہنچائیں ۔
رمضان المبارک اختتام مرحلے میں داخل ہوچکا ہے، مسجدوں میں محدود حاضری، ختم قرآن کی سعادت سے محروم ، کس قدر اس کورونا نے انسان کو مجبور کردیا، کہنے کو انسان نے چاند پر کمند ڈال لی ہے، دنون کا سفر گھنٹو اور گھنٹو کا منٹو میں طے کررہا ہے، گھر بیٹھے دنیا کے کسی بھی میں موجود اپنے کسی بھی عزیز دوست، رشتہ داروں سے گھنٹو اس طرح گفتگو کرتا ہے کہ سب آمنے سامنے ہنستے مسکراتے گفتگو کرتے دکھائی دیتے ہیں ، اب انسان 4جیسے5جی کی جانب سفر کرنے جارہا ہے، انسانی جسم میں چپ لگانے کی ابتداہوچکی ہے ایسی ترقی جس کا سوچ کر انسان حیران و پریشان ہوجائے لیکن کیسے کیسے طاقت وروں اور سائنسدانوں دیکھنے میں انتہائی مختصر کہ اسے خوردبین سے بھی دیکھنا مشکل ہے ساری دنیا کو ڈھیر کر کے رکھ دیا ہے ۔ یہ ہماری طاقت، یہ ہے ہماری ترقی ۔ اب رمضان کے بعد عید آنے کو ہے ۔ جس طرح رمضان گزرا سی طرح عید بھی رخصت ہوجائے گی، ممکن ہے احتیاطی تدابیر کے ساتھ نماز ادا ہوجائے، لیکن نہ ہاتھ ملے گا نہ سینے سے سینہ ۔ بقول خالد عزیز ۔
ہم عید پر ملیں گے ، مگر دور دور سے
منہ پر لگائے ماسک ملیں گے حضور سے
(21مئی2020ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1281729 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More