بھولوں کی رانی

مہک کو پھول اکٹھے کرنے کا بے حد شوق تھا۔ اپنے شوق کی تسکین کے لئے آج وہ قریبی باغ میں چلی آئی۔ باغ سے طرح طرح کے پھولوں کی خوشبوئیں آ رہی تھیں۔

صبح کی روشنی میں سب کچھ نکھرا نکھرا اور دھلا دھلا دکھائی دے رہا تھا۔ سبزے کی چمک، پھولوں کے رنگ، درختوں کے جھنڈ، سبھی کچھ کتنا پیارا تھا۔ مہک ننگے پیر گھاس پر چلنے لگی۔ ٹھنڈک پیروں میں اتر رہی تھی اور مہک کا چہرہ پرسکون ہو رہا تھا۔

سورج مکھی کے پھول تو جیسے مسکرانے لگے تھے کہ مہک انہیں مرجھانے سے پہلے ہی کسی کے سر کا تاج بنا نے آ پہنچی ہے۔۔۔

سکول ٹیچر کی بات مہک کو اچھی طرح یاد تھی۔ ایک ہفتے بعد مینابازار ہونے والا تھا جس میں مختلف اسٹالز لگائے جانے تھے۔ مہک کوبھی کلاس مانیٹر ہونے کے ناطے ایک اسٹال ضرور لگانا تھا۔

اس بار اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ پھولوں کا اسٹال لگائے گی اور رنگ برنگے پھولوں سے اسے سجاکر گجرے، پھولوں کے ہار اور ننھی بچیوں کے سر کے تاج بنا کر بانٹے گی۔

لیکن ایک پریشانی تھی۔ مالی بابا بہت سخت تھے اور مہک کے پاس پھول خریدنے کے پیسے بھی کم تھے۔
بڑی سوچ بچار کے بعد مہک کو ایک ترکیب سوجھی تھی۔ اس نے سب سہیلیوں کو اکٹھا کیا اور باغ کے ساتھ والی جھونپڑی کے باہر لے گئی۔ مالی اور اس کی بیوی اسی جھونپڑی میں رہتے تھے۔
مہک نے دروازہ کھٹکھٹایا۔۔۔ اندر سے مالی کی بیوی نے پکارا۔۔ کون ہے؟
”پھولوں کی رانی“۔۔۔مہک نے کھلکھلا کر کہا۔
مالی کی بیوی باہر چلی آئی اور حیران ہوکر دوبارہ پوچھا۔ مہک چہکتی ہوئی پھر سے بولی:
میں پھولوں کی رانی بنوں گی خالہ۔۔۔ اگر آپ اپنے باغ سے چندپھول مجھے دے دیں تو انہیں بیچ کر میں آپ کی مددبھی کر سکتی ہوں۔

مالی کی بیوی ایک بہت نیک اور رحمدل خاتون تھیں۔انہیں اپنی مدد والی بات توسمجھ میں نہ آئی نہ ہی انہوں نے مہک سے پوچھا۔ مگر معصومانہ باتیں سن کر انہیں مہک پر بے حد پیار آیا۔اور وہ بولیں:
اے چھوٹی سی پھولوں کی رانی! یہ باغ تمہارا ہی ہے جب چاہے یہاں آکر پھولوں سے اپنی جھولی بھر لو۔
اپنے ارادے کی تکمیل ہوتی دیکھ کر مہک بہت خوش ہوئی اور جھٹ سے بولی:لیکن خالہ بی مالی بابا تو بہت سخت ہیں پھول چنتے ہوئے اگر وہ آگئے تو کان کھینچ لیں گے۔

مہک کے ماتھے پر بل آگئے تھے اسے پریشان دیکھ کر خالہ نے حوصلہ دیا: پیاری بچیو! کچھ نہیں ہوگا تم جاکر پھول چنو، میں دیکھ لوں گی۔۔یہ کہہ کر وہ اندر چلی گئیں۔۔۔

اور مہک اور سب بچیاں خوشی خوشی دوڑتی ہوئی باغ میں آگئیں اور ہر بچی پھول توڑ کے اپنی جھولی بھرنے لگی۔اوپر سے مالی بابا آ گئے۔ اور لاٹھی اُٹھا کر اپنی گرجدار آواز میں بولے:
ٹھہرجاؤ شریر بچیو! یہ تم کیا کر رہی ہو؟۔۔۔
ڈرتے ہوئے سب بچیوں کی جھولیوں سے پھول نیچے جا گرے تو مہک ہمت کرکے مالی بابا کے پاس آئی اور التجا کی:

باباجی پلیز ہمیں کچھ مت کہیں۔۔۔ پھر آنسو کی بوندیں اس کی پلکوں پر چمکنے لگیں تو جھجکتے ہوئے اس نے کہا:
بابا میں ان کے گجرے بناکر بیچوں گی اور آدھے پیسے آپ کو دوں گی۔۔۔ وعدہ۔۔۔ پلیز ہمیں پھول لے جانے دیں۔۔۔میں نے کل سکول میں اسٹال لگانا ہے۔۔۔ اگر آج میں نہ لے گئی تو کل مینا بازار میں سبھی استانیوں اور ہیڈمسٹریس سے ڈانٹ پڑے گی اور ہمارے سکول کا نام خراب ہوگا کیونکہ پھولوں کے اسٹا ل کا اعلان پہلے ہی کر دیا گیا ہے۔

بابا نے مہک کی ایک نہ سنی اور سب کو ڈانٹ کے باغ سے باہر نکال دیا۔

مہک نے پھر سے ہمت کی اور سب سہیلیوں کے ہمراہ دوبارہ خالہ بی کے پاس چلی آئی اور سارا ماجرا سنا دیا۔خالہ بی نے مہک کو تکلیف میں دیکھ کر دلاسہ دیا اوربہت پیار سے مالی بابا کو سمجھایا اور یوں بچیوں کو پھول چننے کی اجازت دلوا دی۔

پھر بڑے چاؤ سے باغ میں جا کر سبھی بچیوں نے جی بھر کے پھول چنے موتیا، چمبیلی، گلاب،سورج مکھی،رات کی رانی، نازبو، گیندا اور بھی بہت سے مطلوبہ پھول انہیں مل گئے تھے۔

درختوں کی چھاؤں میں مہک،سارہ،سعدیہ، ڈمپل اورببلی نے مل کر موتیا اور گلاب کے پھولوں سے ڈھیر سارے گجرے پروئے اور ہار بنائے اور باقی پھولوں سے ننھی بچیوں کے سر کے تاج بنائے۔اس کام کے لیے سعدیہ اپنے گھر سے سوئی دھاگے والا سلائی کڑھائی کا ڈبہ بھی ساتھ لائی تھی۔

اب ایک ایک کرکے وہ گجرے اور تاج بناتی جا رہی تھیں اور ساتھ ساتھ گیت اور نغمے بھی گاتی جاتیں۔ بچیوں کی سریلی آواز میں فضا جادوئی سی لگنے لگی تھی۔

عقب میں بلبل اور دیگر پرندے بھی چہچہا رہے تھے گویا گیتوں کی لے اور پرندوں کی چہچہاہٹ نے پورا ماحول مترنم کردیا تھا۔ اسی روز سبھی بچیوں کو اتنا مزہ آیا کہ سب نے باغ سے امرود توڑ کرکھائے اور ایک ساتھ تصویریں بھی کھینچ لی تھیں۔
آج مینا بازار میں اسٹال لگناشروع ہوگئے تھے۔

مہک اس کی سہیلیاں اور امی ابو مل کر مہک کا اسٹال تیار کرنے میں مدد دے رہے تھے۔یوں لگ رہا تھا جیسے پھولوں سے لدا کوئی رتھ جنت کی کسی وادی میں اترنے کے لئے سجایا جارہا ہو۔ مقررہ وقت سے پہلے اسٹال اپنے بھرپور حسن کے ہمراہ سج کر سب کے لئے مرکز نگاہ بن چکا تھا۔

مینا بازار کا وقت ہو چلا تھا اور سب بچیوں کے امی ابو سکول میں داخل ہونا شروع ہوگئے تھے۔ ڈھیروں بچیاں اور عورتیں مہک کے اسٹال کے گرد منڈلانے لگیں۔ مہک گجرے اور تاج بیچنے لگی۔ جبکہ سارہ، سعدیہ، ڈمپل اور ببلی بچیوں کے سروں پر باری باری تاج پہنا نے لگیں اور عورتوں اور لڑکیوں کو گجرے اور ہار بانٹنے میں مصروف ہوگئیں۔

لال،نیلا،پیلا،گلابی، ہر ا۔۔۔ایک ایک کر کے رنگوں کی قوس قزح شام تک مکمل طور پرا سٹال سے رخصت ہوتی گئی۔

چلتے چلتے جب پرنسپل صاحب سکول کے سٹاف اور جیوری کے ہمراہ مہک کے اسٹال پر پہنچے تو مہک نے انہیں بھی گجرے پیش کیے اور ایک نگران استانی نے اسٹال کی تصاویرکیمرے میں محفوظ کر لیں۔
مینا بازار ختم ہونے کے بعد سکول کے برآمدے میں اسٹالز کو انعامات دینے کا اعلان ہوا تو اسٹیج پر ہیڈ مسٹریس نے سب سے پہلے مہک کا نام پکارا۔

تالیوں کی گونج میں مہک اسٹیج کی سیڑھیوں پر چڑھ رہی تھی اور اس کا ننھا سا دل خوشی سے اچھل رہا تھا۔

جب وہ اسٹیج پر پہنچی تو مہک کو پہلا انعام ملا۔ پھر ہیڈمسٹریس نے اسٹال سے خریدا ہوا سورج مکھی کے پھولوں سے بنا ایک تاج مہک کے سر پر پہنایا اور مائیک پر اعلان کیا کہ مہک کی اعلی ترین کارکردگی پر اسے پھولوں کی رانی کا نام دیا گیا ہے اور پانچ ہزارکا فرسٹ پرائز بھی دیا جارہا ہے۔

سب نے زوردار تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کیا اور پھر شام ڈھلے گھروں کو واپس لوٹ آئے۔
تیسرے دن مینابازار اور کام کی تھکن اتر جانے کے بعد مہک باغ میں آئی ۱ور خالہ بی اور مالی بابا سے ملی۔

خالہ بی نے اسے ایک طرف بٹھایا اور پانی پلایا۔اس کے بعد مہک نے کُرتے کی جیب میں ہاتھ ڈالااور ایک پوٹلی نما تھیلی باہر نکالی۔ اسٹال کی مدد سے پھول بیچنے پر دس ہزار روپے کا منافع ہوا تھا۔

مہک نے تھیلی کھولی اور ساری رقم نکال کر مالی بابا اور خالہ بی کے سپرد کرتے ہوئے بولی:
”خالہ جان، مالی بابا۔۔۔ اگر آپ دونوں مجھے پھول چننے کی اجازت نہ دیتے تو آج میں بھی آپ دونوں کی مدد نہ کر پاتی۔یہ رکھ لیں اس پرصرف آپ کا حق ہے میری فکر مت کیجئے گا۔“

مجھے پھولوں کی رانی کے خطاب کے ساتھ پانچ ہزار روپے کا انعام بھی ملا ہے۔ میں آپ دونوں کا یہ پیار اور احسان کبھی نہیں بھولوں گی۔

یہ کہہ کر اس نے خالہ بی کا ماتھا چوما اور مالی بابا کا بے حد شکریہ ادا کرکے چپکے سے جھونپڑی سے باہر نکل آئی۔



 

Sameera Rafique
About the Author: Sameera Rafique Read More Articles by Sameera Rafique: 3 Articles with 8434 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.