زبان کا زخم

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک کا بادشاہ شکار کھیلنے گیا، شکار کھیلتے کھیلتے وہ جنگل میں کافی دور تک نکل گیا اور اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا ۔ بادشاہ بے حد پریشان ہوا اور کافی کوشش کے باوجود اسے راستہ نہ ملا ۔ سارا دن جنگل میں سرپٹ گھوڑا دوڑاتے ہوئے وہ بے حد تھک چکا تھا کہ اچانک اس کے سامنے ایک شیر آگیا، شیر بادشاہ پر حملہ کرنے ہی والا تھا کہ اتفاق سے ایک کسان ادھر سے گزر رہا تھا جس کے ایک ہاتھ میں ایک لاٹھی جو اوپر کی جانب سے خم کھائی ہوئی تھی اور دوسرے ہاتھ میں گھانس پھونس کاٹنے کی درانتی تھی، جب اس نے دیکھا کہ شیر بادشاہ پر حملہ کرنے والا ہے تو اس اپنی لاٹھی کا مڑا ہو ا سرا ،شیر کی گردن میں ڈال کر اپنی درانتی سے اس کا پیٹ چیر دیا ۔ شیر تڑپ تڑپ کر مر گیا اور بادشاہ کی جان بچ گئی۔

بادشاہ نے کسان کو انعام کے طور پر ایک گاﺅں میں بہت سے زمینیں بھی دیں اور کہا کہ ہر تہوار کے موقع پر ہمارے محل میں ہمارے دوستوں، عزیزوں اور رشتہ داروں کی خاص دعوت ہوتی ہے تم بھی اب ہمارے دوستوں میں شامل ہوگئے ہو اس لئے ہم تمہیں ہر تہوار پر محل میں آنے کی دعوت دیتے ہیں۔

کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایک تہوار آگیا۔ بادشاہ کے محل میں دعوت ہوئی جس میں اس کسان کو بھی دعوت دی گئی کسان بھی اس دعوت میں شریک ہوا،اس بے چارے کے کپڑے بادشاہ کے دوستوں کے مقابلے میں معمولی تھے اور اسے بادشاہوں کی محفلوں میں اٹھنے بیٹھنے کا ادب اور سلیقہ بھی نہیں تھا جسکی وجہ سے اس سے اس تقریب میں بہت سی غلطیاں ہوئیں جو سب کو ناگوار گزریں اور کھانے کے وقت وہ بادشاہ کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔ بادشاہ اس کی اس حرکت پر بہت ناراض ہوا اور اس سے کہنے لگا تم تو گنوار کے گنوار ہی رہے ۔تمہیں بڑے چھوٹوں کی تمیز ہی نہیں ہے ، بہتر یہی ہے کہ تم اسی وقت یہاں سے اٹھ جاﺅ۔ کسان شرمندہ ہوکر اس تقریب سے چلا آیا اور کئی سال تک بادشاہ کے پاس نہیں گیا۔ جب بھی وہ بادشاہ کے الفاظ یاد کرتا اسے بے حد دکھ ہوتا۔

ایک دن بادشاہ ایک شاندار گاڑی میں سوار، جسے گھوڑے کھینچ رہے تھے سیر کیلئے نکلا جب اس کی گاڑی ایک دریا پر بنے ہوئے پل پر سے گزرنے لگی تو اچانک اس کی گاڑی کا ایک پہیہ نکل گیا اور گاڑی بری طرح ڈگمگاتی ہوئی اِدھر اُدھر ڈولنے لگی قریب تھا کہ گاڑی دریا میں گر جاتی اتفاق سے یہ کسان بھی وہاں موجود تھا ، یہ فوراََ دوڑ کر آگے بڑھا اور پہیہ نکلنے والی جگہ کو اپنے کندھے پر اٹھا کر گاڑی کو سنبھال لیا اس طرح گاڑی کو دریا میں گرنے سے بچا لیا۔

بادشاہ اس مرتبہ پھر کسان کے جذبہ اور ہمت پر اتنا زیادہ خوش ہوا کہ کسان کو اپنے ساتھ لے گیا اور کافی دنوں تک اپنے محل میں مہمان رکھا ، اسے رخصت کرتے ہوئے اسے بہت سارا انعام و اکرام دے کر کہا محل میں آتے رہا کرو۔ کسان نے بادشاہ سے کہا بادشاہ سلامت میں نے آپکی دو مرتبہ جان بچائی ہے آپ بھی میری ایک بات مان لیں۔ میرے سر میں شدید درد ہے جس کا کافی علاج معالجہ کرایا مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اب اس کا آخری علاج یہ ہے کہ آپ اپنی تلوار سے میری پیشانی پر ہلکا سا زخم لگا کر تھوڑا سا خون نکال دیں۔ بادشاہ اس پر رضامند نہیں ہوا لیکن کسان کے بے حد اصرار پر کسان کی پیشانی میں تلوار سے ہلکا سا زخم لگا دیا۔ کسان زخم کھا کر اپنے گاﺅں واپس چلا گیا ہے۔ چند دنوں میں یہ زخم معمولی سے علاج سے با لکل ٹھیک ہوگیا۔

کچھ دنوں کے بعد بادشاہ نے کسان کو اپنے پاس بلوایا اور اس سے اسکا حال دریافت کیا تو کسان نے عرض کیا بادشاہ سلامت! ملاحظہ فرمائیے اللہ کے فضل سے تلوار کے زخم کا تو اب نشان تک باقی نہیں رہا لیکن آپ نے پہلی دعوت میں مجھے بدتمیز اور گنوار کہہ کر محفل سے اٹھا کر جو دل پر جو زخم دیا تھا وہ زخم ابھی تک میرے دل پر بالکل تازہ ہے۔یہ سن کر بادشاہ نے شرمندگی سے اپنی گردن جھکالی اور کہا کہ بے شک تم سچّے ہو ۔ میں غصّے میں اس قول کو بھول گیا تھا کہ تلوار کا زخم بھر جاتا ہے لیکن زبان کا زخم کبھی نہیں بھرتا۔ میں تمہیں نرمی سے بھی ادب آداب سکھا سکتا تھا لیکن غصّے نے میرے دماغ اور زبان کو خراب کردیا تھا ،میں بے حد شرمندہ ہوں ۔

اس کہانی سے ہمیں یہ نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ کوئی بھی بات کہنے سے پہلے یہ سوچ لینا چاہیے کہ اس سے کسی کا دل تو نہیں دکھے گا اسی لئے ہمارے پیارے نبی ﷺ نے غصےّ کو حرام کہا ہے کیوں کہ غصّے میں انسان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے اور وہ سوچے سمجھے بغیر جو منہ میں آتا ہے کہہ جاتا ہے۔ کسی کا دل دکھانا بہت بڑا گناہ ہے۔اس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنا چاہیئے۔
M. Zamiruddin Kausar
About the Author: M. Zamiruddin Kausar Read More Articles by M. Zamiruddin Kausar: 97 Articles with 307074 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.