عمران صحافت اور عمران سیاست

صحافی عمران خان جو کہ اکثر اوقات حکومتی فیصلوں کی بھرپور حمایت کرتے نظر آتے ہیں نے عمران خان صاحب کے اس بیان کا دفاع کیا جس کا دفاع ان کے اپنے وزیر نہیں کر رہے تھے- موصوف نے بھرپور طریقے سے طالبان کو خلافت عثمانیہ، خلافت عباسیہ، خلافت اموی اور اگر ان کو مذہبی حلقوں کا ڈر نہ ہوتا تو شاید خلافت راشدہ بھی بنا دیتے-

عمران نے عمران کا دفاع کرنے کی توٹھان ہی رکھی ہے لیکن ان طالبان کا کہ جن نے پاکستان میں دہشتگردی پھلائی اور پچاس ہزار سے زائد پاکستانیوں کو شہید کیا عقل و خرد سے بالا ہے- عمران صحافت نے اسامہ بن لادن کی تعریفوں کے پل باندھے اور ان کا کہنا تھا کہ بن لادن ایک انتہائی بہترین انسان تھا، اس نے امریکہ کی روس کو توڑنے میں مدد فرمائی- افغان جہاد جو آج تک پاکستان کے گلے میں ہڈی کی طرح پھنسا ہوا ہے اس کی آج بھی ایک جید صحافی کی طرف سے تعریف سمجھ میں نہیں آتی-

عمران~صحافت کا کہنا ہے کہ طالبان عالم اسلام میں خلافت قائم کرنا چاہتے تھے جو امریکہ کو خلافت عثمانیہ کی یاد دلا رہا تھا اس لئے انہوں نے اسامہ کے خلاف ایک سازش رچی اور اس کو 9/11 کی حادثے میں پھنسا دیا- موصوف نہ جانے کیوں یہ بھول رہے ہیں کہ طالبان نے شاید ہیرو بننے کے لیے یہ الزام بقلم خود قبول کیا تھا- شاید انہی جیسے لوگوں نے مٹھائیاں بانٹ کر اور اسلامی بھنگڑے ڈال کر امریکہ پر ہونے والے حملے کی خوشیاں منائی تھیں-

طالبان کی انہیں نرسریوں نے ہماری عوام کو کی بم دھماکوں میں بھون کر رکھ دیا تھا- دفاع حکمران میں یہ عمران اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ شاید غلط کو غلط کہنا ان کے بس کی بات نہیں روس کا افغانستان پر قبضہ تھا یا پھر افغان شہنشاہ کی دعوت نامے پر وہ تشریف لائے یہ کہنا بہی مشکل ہے- ایسے میں یہ کہنا کہ ہمیں طالبان سے دشمنی کی کیا ضرورت ہے ہم تو ان کی مدد کریں گے، ایک جاہلانہ غلطی کو دہرانے کے سوا کچھ نہیں-

ہم نے اس وقت بھی غلط کیا تھا جب امریکہ کے کہنے پر طالبان بنائے تھے ہم نے تب بھی غلط کیا جب امریکہ کے کہنے پر طالبان سے لڑائی کی اور اب بھی دوبارہ غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں اگر امریکہ کے کہنے پر طالبان کو دوبارہ مضبوط کر رہے ہیں-

ہم ہمیشہ سے پرائے کی شادی میں عبداللہ کا کردار بخوبی نبھاتے رہے ہیں- اور جب بھی امریکہ بہادر کو دیوانے عبداللہ کی ضرورت پڑی ہمارے ملک نے مارشل لاء کی شکل دیکھی اس سلسلہ میں ہم نے عارضی خوشیاں ضرور دیکھیں لیکن یہ خوشیاں بڑے غموں کی پیشگوئیاں تھی-

عمران صحافت کا کہنا ہے کہ یہ ریاستی پالیسی ہے اور اب طالبان سے طالبان شہید ہونگے، یعنی یہ اشارہ کسی بڑی تبدیلی کی طرف ہے- عمران صحافت نے یہ بھی کہا کہ اگر اسامہ روس کی گولی سے مرتا تو کیا شہید ہوتا، اور جب وہ امریکہ کی گولی سے مرا تو کیا وہ مردار ہو گا-

ان نے امریکہ بھارت اور اسرائیل کی دہشت گردی کا بھی ذکر کیا- سوال یہ ہے کہ کسی کے غلط اقدامات آپ کو اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ آپ بھی غلط کریں؟

امریکہ کا عراق پر حملہ سراسر غلط لیکن صدام کا عراقی عوام پر ظلم بھی غلط تھا، امریکہ کا افغانستان پر حملہ غلط لیکن طالبان کا مزار شریف میں عورتوں کی عصمت دری کرنا بھی غلط تھا، غلطی اپنی مرضی کی تسلیم کرنا آسان ہوتا ہے لیکن اپنی غلطی کو تسلیم کرنا مشکل-

ہماری ریاست پھر سے امریکہ بہادر کے کہنے پر طالبان کو اپنے سر کا تاج بنانے کے لیے تیار ہے تو ہماری عوام میرے عزیز ہم وطنوں کے لیے بھی تیار رہے- فرقہ وارانہ دہشت گردی کے لیے بھی اور بہت سے معصوموں کی بلی چڑھانے کو بھی-

پاکستان کا اللہ ہی حافظ!

Syed Zill-e-Hussain
About the Author: Syed Zill-e-Hussain Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.