تیسری عالمی جنگ کے امکانات

دنیا پر ایک عالمی حکومت کے قیام کے لیے تیسری عالمی جنگ کی بساط بچھائی جا چکی ہے ۔ بھارت چین تنازع ، امریکہ کی ساوتھ چائنہ سی میں آمد اور کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا کی معاشی تباہی تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ ہیں ۔

تیسری عالمی جنگ

امریکہ کے بحری بیڑے جنوب مشرقی ایشیا میں چین کے پانیوں کی طرف بڑھنا شروع ہو چکے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا یہ بیان بھی سامنے آگیا ہے کہ ہم جرمنی سمیت یورپی ممالک سے اپنی افواج کو کم کرکے جنوب مشرقی ایشیا کی طرف لارہے ہیں تاکہ چین کے خلاف اپنے اتحادیوں کی مدد کر سکیں ۔ اس حوالے سے امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جرمنی سے ساڑھے 9 ہزار امریکی فوج کے انخلا کے منصوبے پر دستخط کر دیے ہیں۔
یاد رہے کہ اس وقت بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازعات اپنے عروج پر ہیں ۔ خاص طور پر لداخ میں چین نے بھارت کے کافی بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا ہے اور یہ وہ علاقہ ہے جہاں سے بھارت پاکستانی علاقے گلگت میں مداخلت کرکے چین کے سی پیک اور بی آر آئی منصوبوں پر اثر انداز ہو سکتا تھا ۔بظاہر امریکہ کی یہ نقل و حرکت اسی وجہ سےہے ۔ اِس لیے کہ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ امریکہ کو چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت سے خطرہ ہے اور اس خطرے کو چین کے بی آر آئی اور سی پیک منصوبوں نے اور بھی زیادہ بڑھا دیا ہے ۔امریکہ سمجھتا ہے کہ اگر چائنہ اپنے ان اقتصادی منصوبوںکی تکمیل میں کامیاب ہوگیا تو امریکہ کا اپنے منصوبے کے مطابق آئندہ صدی میں سپرپاور کی حیثیت سے داخل ہونا کافی مشکل ہو جائے گا کیونکہ اس صورت میںچین اقتصادی قوت ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑی عسکری طاقت بھی بن جائے گا اور ان منصوبوں کے ذریعے جنوبی ایشیاء و جنوب مشرقی ایشیاء کے علاوہ افریقہ اور یورپ تک چین کا اثر رسوخ پھیل جائے گا جہاں امریکہ کے اقتصادی اور عسکری مفادات کو شدید ضرب پہنچنے گی اور اس طرح اس کی عالمی شہنشاہیت ختم ہو جائے گی ۔

ہماری نظر میں امریکہ کی یہ نقل و حرکت بظاہر اپنی عالمی شہنشاہیت کو بچانے کے لیے ہی ہے لیکن اصل معاملہ کچھ اور بھی ہے اور وہ ایسا معاملہ ہے جس کو موجودہ دور میں کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ وہ معاملہ ہے ایک تیسری عالمی قوت کا جو خود سپریم پاور آن ارتھ بننے کے علاوہ اپنے لیے ایک عالمی حکومت کا خواب بھی رکھتی ہے اور وہ اسرائیل ہے جو کہ خاص طور پر نائن الیون کے بعد توقع سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ گریٹر اسرائیل منصوبے کی تکمیل کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ اگر نائن الیون کے بعد کی دنیا میں ہونے والے واقعات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی کہ اس کے بعد دنیا میں جو کچھ بھی ہورہا ہے اس کا فائدہ بلواسطہ یا بلاواسطہ اسرائیل کو ہی پہنچ رہا ہے ۔ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کا ہوا کھڑا کرکے جن مسلمان ممالک کو تباہ کیا گیا یا جن مسلم ممالک میں مختلف تحریکوں کوجنم دیا گیا ان کے تباہ و برباد ہونے سے اسرائیل کو تقویت ملی اور وہ پہلے سے زیادہ کھل کر اپنے منصوبوں پر عمل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ خاص طورپر جب سے امریکہ میں ٹرمپ رجیم کا آغاز ہوا ہے اس کے بعد اسرائیل نے تمام

عالمی قوانین و ضوابط کو بالا ئے طاق رکھتے ہوئے جیوش نیشن لاء بھی پاس کر لیا جس کے مطابق اسرائیل میں صرف یہودیوں کو ہی اصل شہری مانا جائے گا جبکہ دیگر تمام انسان وہاں درجہ دوئم میں شمار ہوں گے ۔ اسی طرح اس نے مکمل یروشلم کو بھی اسرائیلی دارالحکومت بنانے کی تیاریاں مکمل کر لیں ۔امریکی سفارتخانہ بھی یروشلم منتقل کر لیا گیا ہے ۔ ڈیل آف دی سنچری کے تحت اسرائیل کا قبضہ یروشلم سمیت پورے فلسطین پر تسلیم کر لیا جائے گا ۔ اب انہوںنے یہودی علماء پر مشتمل ایک کونسل بھی قائم کردی ہےاور اس کے ساتھ ساتھ وہ تھرڈ ٹمپل کی تعمیر کی طرف بھی بڑھ رہے ہیں ۔ گویا اسرائیل اب ڈھکے چھپے نہیں بلکہ کھل کر اپنے گریٹر اسرائیل کے منصوبے کی تکمیل کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس کا سرعام اعلان بھی کر رہا ہے ۔ ا س کی پارلیمنٹ کے باہر لکھا ہوا ہے کہ
’’تیری سرحدیں نیل سے فرات تک ہیں ‘‘

دنیا کاکوئی ملک ایسا نہیں ہے کہ جو سرکاری سطح پر یہ انائونس کرے ۔اس کے عزائم صرف نیل سے فرات تک کے نہیں بلکہ بعض مبصرین کے مطابق اس کے بعداگلے قدم کے طور پر اینٹی کرائسٹ کی حکومت کاقیام ہے جوون ورلڈ ایجنڈا ہے جسے ایجنڈا 2030 ء کا نام بھی دیا گیا ہے۔ یعنی ایک عالمی حکومت کا قیام،جو صہیونیوں کے کنٹرول میں ہو۔لیکن اس وقت ایک عام آدمی بھی یہ سمجھتا سکتا ہے کہ امریکہ سپر پاور ہے اور اس کے مدمقابل چین ہے جبکہ اسرائیل کی حیثیت ان سے زیادہ نہیں ہے ۔ لہٰذا اسرائیل کا گریٹر اسرائیل کا خواب اسی وقت پورا ہو سکتا ہے جب دنیا کی یہ دو بڑی طاقتیں یعنی چین اور امریکہ کمزور ہوں ۔لہٰذا دوسری عالمی جنگ کے بعد طاقت کا عالمی مرکز جس طرح لندن سے واشنگٹن شفٹ ہوا تھا اسی طرح تیسری عالمی جنگ کے بعد طاقت کا یہ مرکز واشنگٹن سے یروشلم منتقل کرنے کی کوشش ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہو گا ؟ یہ سمجھنے کے لیے اسرائیل کی سابقہ مختصر تاریخ کا جائزہ ہی کافی ہوگا ۔

ہم دیکھتے ہیں اسرائیلی ریاست کا تصور سب سے پہلے بالفورڈیکلریشن میں سامنے آیا جس میں تسلیم کیا گیا کہ یہودیوں کو فلسطین میں ایک یہودی ریاست قائم کرنے کی جازت دے دی جائے گی ۔ لیکن جب ہم بالفورڈیکلریشن کے پس منظر کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں واضح طور پر معلوم ہوتا جاتاہے کہ پہلی جنگ عظیم کی وجہ سے برطانیہ سمیت یورپی طاقتیں یہودیوں کی اس قدر مقروض ہو چکی تھیں کہ انہیں یہودی ریاست کا مطالبہ ماننا پڑا ۔ لیکن اس کے باوجود بھی عیسائی دنیا اتنی کمزور نہیں ہوئی تھی کہ وہ خوش دلی سے یروشلم کی سرزمین جسے اتنی بڑی جنگ کے بعد انہوں نے حاصل کیا تھا وہ یہودیوں کے حوالے کر دیتی کیونکہ یروشلم عیسائیوں کے لیے بھی اتنا ہی مقدس ہے جتنا یہودیوں اور مسلمانوں کے لیے ہے ۔ لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد عیسائی دنیا اسرائیل کے قیام پر مجبور ہوگئی ۔ اس لیے کہ اپنی معاشی بقاء کی خاطر عیسائی دنیا یہودیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور ہو گئی تھی ۔ چونکہ دنیا کی معیشت یہود کے کنٹرول میں آ چکی تھی اس لیےاپنے قیام کے بعداسرائیل اس وقت کے طاقتور عرب ممالک کے بیچوں بیچ پلتا، بڑھتا، پھلتا پھولتا رہا کیونکہ عیسائی دنیا ہر طرح سے اس کی مدد پر مجبور رہی۔ اب اسرائیل کو سپرپاور کی حیثیت سے عالمی طاقت بننے کے لیے ایک تیسری عالمی جنگ کی ضرورت ہے ۔

مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد ؒ نے بارہا دلائل سےبیان کیا ہے کہ تیسری عالمی جنگ کا نقطہ آغاز جنوبی ایشیاء ہو گا اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ حالات گاہے بگاہے اسی جانب بڑھ رہے ہیں ۔ حالیہ دنوں میں ہی بھارت اور آسٹریلیا کے درمیان ایک عسکری معاہدہ ہوا ہے جس میں طے پایا ہے کہ آسٹریلیا اور بھارت ایک دوسرے کے اڈے استعمال کریں گے ۔ یہ بات دنیا جانتی ہے کہ آسٹریلیا امریکہ کا اتحادی ہے اور امریکہ خود بھی اپنی افواج اوربحری بیڑوں کے ساتھ جنوبی چین کے پانیوں میں پہنچ رہا ہے ۔ بظاہر یہ نقل و حرکت بھارت چین تنازع کی وجہ سے ہو رہی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ صرف بھارت کی مدد کرنے کے لیے آرہا ہے ؟اور کیا بھارت امریکہ کی اس مدد سے چین کو اپنے اہداف و مقاصد سے پیچھے ہٹا پائے گا ؟ ہرگز نہیں ! امریکہ کے لیے چائنہ گھیرائو پالیسی اورچائنہ کے لیے اس کے اقتصادی منصوبے زندگی اور موت کا سوال ہیں کیونکہ ان دونوں میں سے کسی کا بھی اپنے اہداف و مقاصد سے پیچھے ہٹنا موت قبول کرنے کے مترادف ہو گا لہٰذا وہ اپنے اہداف کے حصول لیے کسی بھی حدتک جائیں گے ۔ جبکہ تیسری طرف پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے حقیقی فاتح یعنی یہود کے اہداف و مقاصد کی تکمیل ان دونوں کے راستے سے ہٹے بغیر ممکن نہیں ۔لہٰذا محسوس ہوتا ہے کہ تیسری عالمی جنگ کے لیے بساط بچھائی جا چکی ہے اور دنیا کے کئی ممالک کے حکمران اسی طرح مہروں کا کردار ادا کررہے ہیں جس طرح پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں مختلف ممالک کے حکمران پس پردہ قوتوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کر جنگ میں جھونک دیے گئے تھے۔ اس وقت بھی وہی صورتحال ہے ۔

مودی سرکار کی ہی مثال لے لیجئے ۔ بھارتی حکومت اگر چین کے اقتصادی منصوبوں میں رکاوٹ ڈالنے کی بجائے ان سے استفادہ کی پالیسی اختیار کرتی تو بھارت چین کے بعد ایشیاء کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت بن سکتا تھا لیکن جیسا کہ ہم نے کہا عالمی مہروں کے لیے شطرنج کی بساط بچھائی جا چکی ہے ۔ واپسی کا کوئی راستہ بظاہر دکھائی نہیں دیتا۔ امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں اسرائیل کی من پسند رجیم موجودہے اور بعض ممالک اپنی معاشی مجبوریوں کی وجہ سے اسرائیل کی فرمانبرداری پر مجبور ہیں ۔کرونا وباء نے ان مجبوریوں کو اور بھی بڑھا دیا ہے۔ ان حالات میں معمولی سا کوئی ایک واقعہ بھی تیسری عالمی جنگ کے شعلے بھڑکا سکتا ہے اور پھر دنیا بھر میں شطرنج کے عالمی کھلاڑیوں کے مہرے اس جنگ میں کود پڑیں گے ۔ ہونا تو وہی ہے جو اللہ کو منظور ہے ۔ ہمارا ایمان ہے کہ بالآخر دنیا میں قرآن کے نظام عدل کی حکمرانی قائم ہونی ہے ۔ پوری دنیا پر اسلام کا پرچم لہرائے گا ۔ لیکن اس ساری صورتحال میں ہمارے لیے آزمائش یہی ہے کہ ہم اس نظام کے لیے کیا کردار ادا کر رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بطورخاص مسلم اُمت کو دنیا پر غالب کرنے کے لیے تفویض کیا تھا تاکہ دنیا میں عدل کا بول بالا ہو۔

رفیق چوہدری
About the Author: رفیق چوہدری Read More Articles by رفیق چوہدری: 38 Articles with 47254 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.