پہلا مغربی سامراج اور جنوبی ہند-5

یورپ ہو یا اس کے صلب سے نکلی ہوئی ریاست ہائے امریکہ یہ جو بھی اعلانات کیا کریں ، کیسے ہی خوبصورت اور دلنشین دعوے کریں ، جمہوریت انسانی حقوق کی بالادستی جیسی دل موہ لینے والی باتیں کریں، ان کے تحت الشعور میں صلیبیت کا غلبہ اور دنیا کے مادی وسائل پر قبضہ کی خواہش ہمیشہ رچی بسی پائی جائے گی۔ دور حاضر میں ان کے کارخانوں اور وسائل آمد ورفت میں خون کی طرح دوڑنے والے پٹرول کے ذخیروں پر دسترس کے لئے جس طرح انہوں نے عالم اسلام کو اپنی بانہوں میں دبوچ لیا ہے ، جس طرح ان کی سازشوں کی پاداش میں عالم اسلام لیبیا و عراق سے افغانستان تک خون کی ہولی میں ڈوب گیا ہے یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے،اس کی تفصیلات بیان کرنے پر مزید وقت صرف کرنے کی یہاں چنداں ضرورت نہیں۔ ہمارے ان سلسلہ مضامین کا مقصد موجودہ صورت حال پر آنسو بہانا نہیں بلکہ تاریخ کے اس باب کو اجاگر کرنا ہے جو مسلم تاریخ کا ایک اہم حصہ رہا ہے اور اردو لٹریچر میں اس پر شاذونادر ہی روشنی ڈالی گئی ہے۔ان سلسلہ مضامین سے یہ بات آپ کے سامنے آئے گی کہ یورپ اور امریکہ جنہیں احادیث نبویہ میں بنی الاصفر کہا گیا ہے ، دوسری قوموں کا استحصال اس وقت سے ان کا طرہ امتیاز رہا ہے جب سے عرب مسلمانوں سے اختلاط کے نتیجہ میں انہوں نے جہالت اور انحطاط کی وادیوں سے تہذیب کی دنیا میں پہلا قدم رکھا اور جہاں سے ان کی نشاة ثانیہ کا آغاز ہوا ۔

جب یورپ کی نشاة ثانیہ کی بات ہوگی تو لامحالہ جہاں اندلس اور صلیبی جنگوں کا ذکر آئے گا وہیں بحیرہ عرب کے چاروں طرف پھیلی ان بندرگاہوں اور جنوبی ہند کے ساحلی شہروں کا تذکرہ بھی ضرور ہوگا جہاں کی سرزمین سے یورپ کو ہونے والی برآمدات نے ان کے منہ سے رال ٹپکانی شروع کردی تھی،جب یہ سب باتیں ہوں تو کینرا اور ملبار موضوع بحث کیوں کر نہ بنیں یہی علاقے تو اندلس سے مسلمانوں کو نکال باہر کرنے کے بعد صلیبیوں کا اولین ہدف بنے تھے، ملبار کی بندرگاہ کوژیکوڈ ( کالیکٹ) اور کینرا کی بندرگاہ بھٹکل کو اس میں اس لحاظ سے مرکزیت حاصل رہی کہ سنہ ۸۹۴۱ءمیں واسکوڈی گاما کے تلاش ہند کے سفر میں کوژیکوڈ اس کا پہلا پڑاؤ بنا اور تاریخ نے سنہ ۲۰۵۱ءبھٹکل کے نوائط کے ساتھ واسکوڈی گاما کے ظلم و تشدد کے زور پر ہونے والے معاہدہ کو یورپ کی سامراجی تاریخ کا پہلا باقاعدہ معاہدہ قرار دیا اور اسی سفر سے واپسی پر بھٹکل کے سامنے بیس میل دوری پر واقع جزیرہ نطہرا پر علامتی طور پر پرتگالی شہنشاہ عمانویل کی زرہ اور ٹوپی ایک صلیب پر لٹکا کر اعلان کیا کہ اب سمندروں پر ہمارا قبضہ ہو گیا ہے ، ہماری راہ داری حاصل کئے بغیر اب کوئی ان میں جہاز رانی نہیں کرسکتا ، بھٹکل اور کوژیکود کی یہ دونوں بندرگاہیں اس وقت کے عرب جہازراں تاجر جنہیں تاریخ میں ماپلا اور نوائط کے نام سے یاد کیا گیا ہے ان کے زیر انتظام تھیں، اندلس کے بعد یہی دونوں عرب نژاد برادریاں صلیبیوں کے قدم کو ہندوستان میں آگے بڑھنے سے روکنے کے لئے جان کی بازی لگانے میں پیش پیش رہیں ، یہی برادریاں صلیبیوں کی بربریت کا پہلا نشانہ بنیں انہی پر قابو پانے کے بعد صدیوں بحیرہ عرب میں پانی جہاز پر حج کے سفر پر صلیبیوں کی جانب سے پابندی رہی ، اس عرصہ میں عازمین حج بیت اللہ کا یہ سفر جان ہتھیلیوں پر رکھ کر کرنا پڑا ، یہاں تک کہ برصغیر کے مسلمانوں نے سفر حج کی فرضیت کو ساقط سمجھنا شروع کردیا اور شاہ احمد شہید ؒ کی تحریک کے طفیل ایک طویل عرصہ کے بعد اٹھارویں صدی عیسوی میں دوبارہ اس کا آغاز نہ ہوگیا ۔

یہ حوادث جو اب بھولی بسری داستانوں کی حیثیت اختیار کرتے جارہے ہیں ، ایک تاریخی امانت کی حیثیت رکھتے ہیں ، ماضی کے تجربات سے سبق آموزی کے لئے انہیں وقتا فوقتا یاد کرتے رہنا چاہئے ، ہم جنوبی ہند والوں کا فرض بنتا ہے کہ اس ورثہ کو قومی حافظہ سے گم ہونے نہ دیں ، خاص طور پر اس لئے بھی کہ جنوبی ہند کے ساحلوں پر بسنے والے مسلمان جن کے تاریخی ورثہ کے نشانات اب معدوم ہوتے جارہے ہیں، جن کی جد وجہد آزادی کا ان کے علم و عرفان کا اردو دنیا نے کم ہی تذکرہ کیا ہے ، جن کے بارے میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن ندوی ؒ فرمایا کرتے تھے کہ برصغیر میں جنوب والوں تک دین اسلام بلا کم وکاست اور براہ راست پہنچا ، یہاں شمالی ہند کی طرح توران و خراسان و افغانستان سے ہاتھ بدلتے ہوئے دین نہیں آیا تھا بلکہ یہاں دین بے آمیزش آیا ۔ اسی جذبہ کے تحت بھٹکل سے حضرت مولانا بے پناہ محبت کا اظہار کرتے ، یہاں صحابہ و تابعین کی اولادوں کی وہ خوشبو محسوس کرتے ، صلیبی سامراج نے جنوبی ہند کے ساحلی علاقوں کو اس طرح اپنے پنجوں میں دبوچا کہ ان کی چیخیں بھی فضاؤں میں محلول ہو کر رہ گئیں، شمال کے مسلم حکمرانوں نے بھی ماضی میں انہیں ایسا بھلا دیا جیسے یہ امت مسلمہ کے جسم کا ایک حصہ نہ رہے ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صدیوں یہاں کے مسلمان بے اعتنائی کا شکار رہے ۔ تاریخ ان کے تذکروں سے تقریبا خالی رہی۔

عرصہ سے اس موضوع پر کچھ مواد پیش کرنے کی خواہش دل میں موجزن تھی ، لیکن اسے اکٹھا کرنا چیونٹی کے شکر کے دانے جمع کرنے کے مترادف تھا ، اس پر مستزاد یہ کہ دبی میں جہاں اللہ تعالیٰ نے کتابی دنیا سے ہماری روزی روٹی کو گزشتہ اکتیس سال سے وابستہ کر رکھا ہے، یہاں ہمیں پڑھنے اور مطالعہ کے مواقع تو فراہم رہے ، لیکن خلوت کے بجائے جلوت زیادہ میسر آئی ، یکسوئی کے ساتھ تحقیقی و علمی کام کے لئے دل ترستا ہی رہ گیا، یہ حسرت تلاش معاش کی گتھیاں حل کرتے دل ہی دل میں دب کر رہ گئی ، گزشتہ سالوں میں ہمیں پہلے مغربی سامراج اور اس دور کے جنوبی ہند کے تعلق سے عربی اور انگریزی زبانوں میں منتشر جوبڑا ہی قیمتی نادر مواد دستیاب ہوا ، ان میں اطالوی فرانسیسی اور پرتگالی زبانوں سے ترجمہ شدہ مواد بھی وافر مقدار میں شامل تھا، جس سے بڑی ہمت افزائی ملی اور ہم نے بڑی قیمت دے کر مختلف ملکوں سے انہیں خرید کیا ، ان کے مطالعہ سے جو انکشافات ہمارے سامنے آئے تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے یہ چونکا دینے والے تھے، گزشتہ سالوں میں ہم نے ان میں سے جو مواد تحقیقی کام میں ممد و معاون ثابت ہوسکتا تھا انہیں منتخب کر کے ان کے ترجمہ کا کام شروع کیا ، یہ مواد سینکڑوں صفحات پر محیط ہے، مدت سے یہ خواہش دل میں ہچکولے کھارہی ہے کہ انہیں مرتب کرکے ایک تاریخی و تحقیقی کتاب سامنے لائی جائے ، لیکن سالہا سال کی خواہش کے باوجو د یہ منصوبہ دل ہی دل میں بند ہے، مرور سال و ایام کو اس طرح گزرتے دیکھتا ہوں تو محسو س ہوتا ہے کہ شاید یہ منصوبہ سینے میں میں دب کر زندگی کے ساتھ ختم ہوجائے، اسی احساس نے مجبور کیا کہ اس موضوع پر کوئی پانچ سال قبل تیار کئے ہوئے ایک غیر مطبوعہ مقالہ کو بنیاد بناکر ہفتہ وار سلسلہ مضامین کو شروع کیا جائے اور حسب ضرورت اس میں نئے تاریخی مواد کا اضافہ کیا جائے۔زندگی مہلت دے تو مزید ایک مرتب اور مفصل کتاب کی تصنیف کا کام بھی کیا جائے اس سلسلے کو جاری رکھنے کا مدار اب اپنے قارئین پر ہے کہ انہیں یہ کتنا مفید لگتا ہے ، ان کی جانب سے ہمت افزائی ہمیں یکسو ہوکر کام کرنے میں مدد دے گی ، بصورت دیگر کچھ دوسرے مفید کام کی طرف توجہ دینے پر مجبور کرے گی ۔

مضمون کی تمھید گزشتہ چار قسطوں میں پیش کی جاچکی ہے، ہمارے پاس جو مواد موجود ہے اس کے لحاظ سے فی الوقت سلسلہ مضامین میں مندرجہ ذیل ابواب پیش ہونگے۔
۱۔ عہد وسطی میں بحیرہ عرب کی بندرگاہوں کی برآمدی اشیاءتجارت
۲۔ عہد وسطی میں بحیرہ عرب اور جنوبی ہند کی بندرگاہوں کا تعارف ، ان کی تاریخی اہمیت ان مقامات کے بارے میں ابتدا سے ابتک کے دستیاب اہم عرب ،پرتگالی،فرانسیسی ،اطالوی سیاحوں اور مورخین کے مشاہدات و تاثرات ، یہ سلسلہ یمن کی بندرگاہ شحر سے ہوتا ہوا ملیشیاءکی بندرگاہ ملقہ تک پہنچ سکتا ہے، فی الوقت ہمارے پاس ہرمز ، سندھ ، گجرات ،کوکن ، گوا، کینرا، ملبار ، ٹراونکور ، لکشادیپ و مالدیپ سے متعلق منتخب مواد ترجمہ شدہ تیار ہے۔ جو جنوبی ہند چیدہ چیدہ مغربی ساحلی بندرگاہوں اور علاقوں کی تاریخی و جغرافیائی معلومات پر مشتمل ہے۔ ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہونے کا بھی امکان ہے، واضح رہے کہ عہد وسطی میں بھٹکل اور کالیکٹ کی بندرگاہ کو سب سے زیادہ اہمیت رہی ہے، بھٹکل کی بندرگاہ سلطنت وجے نگر کی اڑیسہ سے منگلور تک پھیلی سلطنت کی دوسوسال تک سب سے اہم بندرگاہ رہی ہے ، اس اہمیت میں کالیکٹ کی بندرگاہ ہم پلہ ہے ، تجارت میں ان بندگاہوں کے ڈانڈے مغرب میں یورپ کی دور عظیم تجارتی بندرگاہوں وینیس اور جنوہ تک ملتے تھے، اس دور کی بحیرہ عرب پر واقع جملہ بندرگاہیں کسی نہ کسی طرح ان دو بندرگاہوں سے مربوط تھیں۔
۳۔ تلاش ہند کے سفر میں واسکوڈی گاما کے تین اسفار کی داستان۔
۴۔ اس دور کی عظیم سلطنت بہمنی ، سلطنت عادل شاہی، سلطنت وجے نگر اور سلطنت سامری(سامدری) کے حالات و واقعات،
۵۔ ان علاقوں میں عیسائیت اور اسلام کی آمدکا پس منظر
۶۔ نوائط اور ماپلا کا تاریخی پس منظر
۶۔ پہلے مغربی سامراج سلطنت پرتگال کا ہندوستان میں عروج وزوال وغیرہ مختلف مضامین ۔

حالات نے ساتھ دیا تو انشاءاللہ ان صفحات پر پیش ہونگی ۔ قارئین سے گزارش ہے کہ اس سلسلے میں اپنی آراءو معلومات سے نوازتے رہیں۔ آپ کی فعالیت اور تحریک سے مسلمانان برصغیر کی تاریخ کے کئی ایک پوشیدہ پہلو سامنے آنے کی امید ہے۔

ہندوستان کے ساحلی شہر گوا پر سنہ ۰۱۵۱ءمیں پرتگالی قبضہ کے بعد یہ شہر سامراجی تاریخ میں پہلی مقبوضہ غیر ملکی کالونی قرار پایا ۔

سولھویں صدی کے آغاز میں سات سمندر پار ہزاروں میل کی دوری سے کونسا جذبہ اس سامراجی طاقت کو یہاں لے آیا تھا اس پر گفتگو ہمارے گذشتہ مضامین میں ہوچکی ہے، لیکن ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اس زمانے میں تجارتی نقطہ نظر سے کون کون سی اشیاء فائدہ مند تھیں اس کا بھی جائزہ لیا جائے ، تاکہ پتہ چلے کہ جس طرح آج پٹرول کے کنووں پر قبضے کی خواہش نے جہاں عالم اسلام کو مغرب کا یرغمال بنا رکھا ہے اس طرح اس زمانے میں وہ کیا اشیاءتجارت تھے جو مغربی سامراج کو یہاں تک کھینچ لائی تھی ، اس موضوع پر اردو لیٹریچر میں مواد کی کمی پائی جاتی ہے،عہدو سطی میں بحر عرب پر قائم بندرگاہوں پر جن اشیاء کی تجارت ہوتی تھی اور یہ اشیاءخلیج عرب اور بحراحمر کے راستے یورپ تک پہنچتی تھیں ان کی تفصیل استاد ابراہیم خوری اور ڈاکٹر احمد جلال تدمری نے اپنی گراں قدر عربی تصنیف سلطنة ھرمز العربیہ
( جلد اول صفحہ 99۔124) پر دی ہے، اس کا خلاصہ ہم یہاں پر پیش کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد کو یکجا دیکھنا ہو تو دبی میں عبرہ کے سامنے واقع قدیم بازار جہاں یورپین سیاحوں کی بھیڑ رہتی ہے، یا مسقط عمان کا مطرح بازار یا صلالہ کے بازار اہمیت کے حامل ہیں۔
Abdul Mateen Muniri
About the Author: Abdul Mateen Muniri Read More Articles by Abdul Mateen Muniri: 18 Articles with 18289 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.