بتاتے ہیں کہ پرانے زمانے میں
ایک چرواہا اپنی بکریاں چرایا کرتا تھا۔ ایک دن اس نے یوں ہی دل لگی کرتے
ہوئے شور مچایا :
’’لوگوں دوڑو دوڑو بھیڑیا آگیا‘‘۔
بستی سے تمام لوگ دوڑ پڑے؛ مگر وہاں جا کر دیکھا کہ چرواہا مزے میں ہنس رہا
ہے اور بکریاں صحیح وسالم چر رہی ہیں۔ وہ لوگ بہت شرمندہ ہوئے اور واپس چلے
گئے۔
اسی طرح ایک دن چرواہے کو پھر شرارت سوجھی اور بھیڑیا بھیڑیا کہتے ہوئے مدد
کے لیے لوگوں کو پکارنے لگا۔ لوگ اس کی مدد کو دوڑے؛ لیکن پھر شرمندہ ہوکر
واپس آنا پڑا۔
ایک دن ایسا ہوا کہ سچ مچ بھیڑیا آگیا، اب وہ لاکھ شور مچاتا ہے اور آواز
پر آواز دے رہا ہے مگر کوئی مدد کو نہیں آیا کیوں اب اس کا اعتبار اُٹھ چکا
تھا، اور نتیجہ یہ ہوا کہ بھیڑیا اس کی تمام بکریاں چٹ کر گیا۔
پیارے بچوں! دیکھو ہمارے آقا نے ہمیں کتنی اچھی نصیحت فرمائی ہے اگر اس
چرواہے کو یہ نصیحت یاد ہوتی تو وہ یقیناً اس بھاری نقصان سے بچ جاتا :
’’مومن اس وقت تک پکا مومن نہیں بنتاجب تک کہ
ہنسی مذاق میں بھی جھوٹ بولنا ترک نہ کردے‘‘۔
لاَ یُؤمِنُ العَبْدُ الإیمَانَ کُلَّہُ حَتّٰی
یَتْرُکَ الکَذِبَ فِي المُزَاحِ
(مسند احمد: ۱۷؍ ۴۵۳حدیث: ۸۴۱۱) |