امام ِعشق وعرفاں

تبصرہ
نام کتاب: اِنْصَافُ الْاِمَامِ اَحْمَدْ رَضَا
مصنف: شیخ محمد خالد ثابت مصری
ترجمہ: امام ِعشق وعرفاں
مترجم: مولانا عبد الغفار اعظمی مصباحی
صفحات 272
قیمت: 150روپے
ناشر: المجمع الاسلامی ملت نگر مبارک پور اعظم گڑھ
مبصر: محمد ساجد رضا مصباحی ، استاذ جامعہ صمدیہ پھپھوند شریف

‘‘اِنْصَافُ الْاِمَامِ اَحْمَدْ رَضَا’’کےمصنف شیخ خالد ثابت مصریقاہرہ مصر کے ایک متبحر عالم ومصنف ہیں، انہیں صوفیہ سے گہری عقیدت و وابستگی ہے ، وہ عہد طالب علمی ہی سے تصوف وروحانیت کی جانب مائل رہے، پیرِ کامل کی تلاش وجستجو اور مشائخِ سلاسل کےشوق ِملاقات میں انہوں نے متعدد بار گاہوں میں حاضری دی، سوے اتفاق کہ اسی درمیان ان کی ملاقات ‘‘ تبلیغی جماعت’’کے افراد سے ہو گئی ، معرفت وروحانیت کی تلاش وجستجو میں دس سال تک ان کے ساتھ بھٹکتے رہے ،تبلیغی جماعت کے ساتھ چار بار ہندوستان بھی تشریف لائے۔ ‘‘ تبلیغی جماعت’’سے وابستگی کے زمانے میں وہ بریلویت کو قادیا نیت اور بہائیت کی طرح خارج ازاسلام فر قہ سمجھتے تھے ۔بعد میں جب ان پر یہ انکشاف ہوا کہ تبلیغی جماعت اولیا وصالحین اور صوفیہ سے حسن ظن نہیں رکھتی اور نہ ہی قبور اولیا کی زیارت کو پسند کرتی ہے تووہ اس جماعت سے بد دِل ہو کر علاحدہ ہو گئے ،ان کی مسلسل کوششوں سے انہیں امام احمد رضا بریلوی قدسرہ اور ہندوستان کے اہل سنت کا صحیح تعارف حاصل ہوا،اسی دوران انہیں ہندوستاں کے جلیل القدر عالم دین اور محقق خیر الاذکیاحضرت علامہ محمد احمد مصباحی حفظہ اللہ تعالیٰ سابق صدر المدرسین جامعہ اشرفیہ مبارک پور کی مایہ ناز کتا ب ‘‘حُدُوْثُ الْفِتَنْ وَجِھَادُ اَعْیَانِ السُّنَنْ’’دست یاب ہوئی جس میں فِرقِ باطلہ خصوصا ہندوستان میں وہابیت کے آغاز اور اور اس کے عروج وارتقانیز ان کےخلاف علماے حق خاص طورسے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کی مجاہدانہ کوششوں کا بیان ہے ۔ مذکورہ کتاب سے متاثر ہو کر انہوں نے اسےاپنے مطبع دارالمقطم سے شائع کیا، اس اقدام پران کے بعض مصری احباب نےچیں بہ جبیں ہوکر کہا کہ آپ نے ہندوستان کے ایک گمراہ فرقے کی کتاب چھاپ کر اچھا نہیں کیا ۔ شیخ خالد ثابت مصری کو معلوم تھا کہ ان کے احباب کا یہ تا ثر امام احمد رضا بریلوی اور ان کی جماعت کی حقیقتِ ِحال سے عدم واقفیت کی بنیاد پر ہے ، لہذا انہوں نے امام احمد رضا بریلوی کے فضائل ومناقب اور فرقہ وہابیہ دیابنہ کے خلاف ان کے مجاہدانہ کار ناموں سے عرب دنیا کو واقف کرانے اور جماعت بریلویہ کے تعلق سے ان کے شکوک وشبہات کو دور کر نے کے لیے ‘‘اِنْصَافُ الْاِمَامِ اَحْمَدْ رَضَا’’ کے نام سے یہ کتاب تحریر فر مائی ۔
‘‘امام عشق وعرفاں ’’اسی اہم کتاب کا اردو ترجمہ ہے ،اس کے مترجم حضرت مولانا عبد الغفار اعظمی مصباحی ،مدرسہ اشرفیہ ضیاء العلوم خیر آباد ضلع مئوکے سینیر استاذ اور المجمع الاسلامی مبارک پورکے اہم رکن ہیں ، عمدہ تدریس کے ساتھ تصنیف وتالیف کا ستھرا ذوق رکھتے ہیں ، ترجمہ نگاری میں بھی انہیں مہارت حاصل ہے ، اس سےقبل انہوں نے ‘‘حُدُوْثُ الْفِتَنْ وَجِھَادُ اَعْیَانِ السُّنَنْ’’ کا سلیس اور با محاورہ ترجمہ کیا ہے جو‘‘ فتنوں کا ظہور اور اہلِ حق کا جہاد’’ کے نام سے شائع ہو کر مقبول ِ عام وخاص ہو چکاہے ۔
شیخ خالد ثابت مصری نے اپنی کتاب کے ابتدائی صفحات میں امام حمد رضا قادری بریلوی سے شناسائی اور ان کی عظمت ورفعت سے متاثر ہو نے کے احوال بیان کیے ہیں ، انہوں نے اس ضمن میں علامہ محمد احمد مصباحی کی تصنیف ‘‘حُدُوْثُ الْفِتَنْ وَجِھَادُ اَعْیَانِ السُّنَنْ’’اورجامعہ ازہر شریف کے دراسات علیا کے طالب علم عبد النصیر ناتورمالاباری کونعمت غیر مترقبہ اور فضل الہی قرار یا ہے جن کے ذریعہ انہیں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری کا اتبدائی تعارف حاصل ہوا۔
امام احمد رضاقادری بریلوی نے اپنی کتاب ’’ اَلْاِجَازَاتُ المْتَنِیَۃِ لِعُلَمَاءِ بَکَّۃَ وَالمْدَیِنْۃ ‘‘ میں اپنی مصروف زندگی اور مختلف علوم وفنون میں تصنیف وتالیف کے تینمقاصد بیان فر مائے ہیں ۔(۱) عظمت رسالت کا دفاع(۲) رد بد مذہباں(۳)مذہب امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر فتویٰ۔شیخ خالد ثابت مصری نےاپنی اس کتاب کو تین مقاصد میں تقسیم کر کے اعلیٰ حضرت بریلوی قدس سرہ کی حیات اور کا رناموں کا جائزہ انہی تینوں مقاصد کی روشنی میں پیش کیا ہے ۔
مقصد اول( عظمت رسالت کا دفاع )کے تحت مصنف نےفتنہ وہابیت کے آغازاور ہندوستان میں اس کی ترویج واشاعت نیز انگریزوں کی سر پرستی اور حوصلہ افزائی میں وہابی افکار وخیالات کی نشرو اشاعت اور اس سلسلے میں مدرسہ دیوبندکے مشائخ کےمنافقانہہ کردارپر روشنی ڈالی ہے، انہوں نے اس باب میں مولوی قاسم نانوتوی ، مولوی رشید احمد گنگوہی، مولوی اشرف علی تھانوی وغیرہ کی کفری عبارتوں کو پیش کر کے ان کے خلاف اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی کے جہاد بالقلم کا ذکر عمدہ لب ولہجے اور دلائل کی روشنی میں کیا ہے ،وہ کہتے ہیں دیابنہ ہندکی تکفیر میں امام احمد رضا قادری نے عجلت سے کام نہیں لیا ،بلکہ انہوں نے فتواے کفر سے پہلے مولوی اشرف علی تھانوی کو باضابطہ خط لکھااور ان کفری اقوال کی وضاحت طلب کی ،لیکن جب کوئی جواب نہ ملا تو اس جماعت کی تردید میں کتابیں لکھیں ان کے کفر کا فتویٰ تحریر فر مایا اور علماے حرمین شریفین سے اس پر تصدیقات حاصل کیں جو‘‘ حُسَامُ الْحَرَ مَیْنِ عَلیٰ مَنْحَرِ الْکُفْرِ وَالْمَیْنِ ’’کے نام سے شائع ہوئیں۔ کتاب کےاس باب میں مصنف نے امام احمد رضا قادری کی نعت گوئی ، عشق رسوں اور عظمت رسالت کے حوالے سےآپ کی بعض تصانیف مثلا ‘‘اَلدَّوْلَۃُ الْمَکِّیِّۃِ بِالْمَادّۃِ الْغَیْبَیَّۃِ’’ وغیرہ پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
شیخ محمد خالد ثابت مصری نےمقصد دوم (رد بدمذہباں)میں ‘‘حُدُوْثُ الْفِتَنْ وَجِھَادُ اَعْیَانِ السُّنَنْ’’کے حوالےسےقادیانیت شیعیت ، اوردیوبندیت اور ندوۃ العلما کی تردید میں امام احمد رضا قادری کی جرأت وبے باکی اور ان کی گراں قدر تصانیف کا ذکر کیا ہے۔مصنف کہتے ہیں کہ امام احمدرضا قادری نے خاص قادیا نیوں کی تردید میں تقریبا نصف درجن کتابیں تصنیف فر مائیں جب کہ شیعیت کےردمیں ناقابل تر دیدلائل کے ساتھ ۲۰؍ سے زائد رسائل تحریر کیے۔جب ندوۃ العلما میں صلح کلیت کا علم بلند ہوااور مختلف عقائد وملل کو یک جا کر کے اسلام کا مذاق اڑانے کوشش کئی گئی تو امام احمد رضا بریلوی جو تحریک ندوہ کی ابتدائی نشست میں شریک تھے ، اس سے علاحدگی اختیار کر لی اور اس کے خلاف شدید رد عمل کا اظہار فر مایا، آپ نے ایک فتویٰ مرتبت فر مایا جس کانام ‘‘ فَتَاوَی الْحَرَمَیْنِ بِزَحْفِ نَدْوَۃِ الْمَیْنِ ۱۳۱۷ھ’’ رکھا، اس فتویٰ کی تصدیق علماے حرمین شریفین نے فر مائی اور اس پر تقریظ بھی لکھی ۔مصنف نے اس باب میں ترک موالات کی وضاحت اور تصوف کے نام پر جاہل صوفیہ کی خرافات کی تردید میں امام اہل سنت کی مساعی جمیلہ کا بھی ذکر کیا ہے ، نیز دیوبندیوں کے متضاد افکار ، تبلیغی جماعت کے منافقانہ رویے اور اپنے ساتھ پیش آنے والے بعض واقعات کا ذکر اختصار کے ساتھ کیا ہے ۔
بر صغیر میں مغل شہنشاہ ہمایوں کے عہد میں شیعیت داخل ہو ئی اور اسماعیل دہلوی کی تقویۃ الایمان کے ذریعہ وہا بی افکار وخیالات کوفروغ ملا ۔وہابیت سے متاثر لوگ دو گروہ میں منقسم ہو ئے ، ایک گروہ فقہی مذاہب سے آزاد ہو گیا اور اپنے آپ کو اہلِ حدیث کہلانے لگا ، جب کہ دوسرا گروہ وہا بی افکار ونظریات پر قائم رہتے ہوئے مذہب حنفی کا بھی نام لیوا رہاجو دیوبندی کے نام سے مشہور ہوا ،اول الذکر گروہ نےائمہ اربعہ کے خلاف زبان درازی کی حدیں پار کردیں ، ائمہ اربعہ کے مقلدین کو گمراہ کہنے کے ساتھ انہیں واجب القتل قرار دیا ۔ امام احمد رضا قادری بریلوی نے غیر مقلدین کی زبان درازیوں کا مدلل جواب دیتے ہوئے متعدد ایسی کتابیں تحریر فرمائیں جن سے اس گروہ کا دینِِ حق سے انحراف اورخواہش نفس کی پیروی ظاہر ہوتی ہے اور ائمہ اربعہ کی مخالفت کا بھی پر دہ فاش ہوتا ہے ،ان میں ‘‘ اَ لْفَضْلُ الْمَوْھَبِیْ فِیْ مَعْنیَ اِذَا صَح َّ الْحَدِیْثْ فَھُوَ مَذْھَبِیْ’’،‘‘حَاجِزُالْبَحْرَیْنِ الْوَاقِی عَنْ جَمْعِ الصَّلَاتَیْنِ’’ ،‘‘اَطَائِبُ الصَّیِّبْ عَلیٰ أرْضِ الطَّیِّبْ’’اور اجْلَی الْاِعْلاَم اَنَّ الْفَتْویٰ مُطْلَقاً عَلیٰ قَوْلِ الْاِ مَامِ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔مقصدِ سوم میں مصنف نے فرقہ اہل حدیث کی تردید وابطال میں امام احمد رضا بریلوی کے ان کارناموں کو تفصیل سے ذکر کیا ہے ۔ انہوں نے کتاب کے اس حصے میں امام احمد رضا قادری کی عظیم فقہی خدمات اور بے مثال تجدیدی کارناموں کو بھی موضوع سخن بنا یا ہے اور امام ِ اہل سنت کو ‘‘مفتی امت’’ کے لقب سے یاد کیا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ امام احمد رضا قادری کی پوری زندگی فیض وعطا اور بخشش و افادہ سے معمور تھی ،اگر وہ صرف فتویٰ لکھتے تویہی ان کے لیے کافی ہو تا ،اگر وہ بدمذہبوں کے ردوابطال کے ذریعہ جہاد کرتے تویہی ان کے لیے کافی ہوتا، اگر وہ عظمت ِرسول پر دست درازی کر نےوالوں کے خلاف نبرد آزما رہتے تویہی ان کی کامیابی کے لیے کافی ہو تا،اگر وہ صرف نعتیہ قصائد کے ذریعہ امت کے دلوں میں عشقِ رسول کی شمع فروزاں کرتے تو یہی ان کے لیے کافی ہو تا اور اپنے رب کی بارگاہ میں سعید قرار پاتے لیکن اللہ جل شانہ نے ان کے اندر یہ ساری خوبیاں جمع فر مادی تھیں ،انہوں نے امت مسلمہ کے عقائد وایمان کےتحفظ کی ذمے داری لی اور اپنی ذمے داری کو بحسن وخوبی نبھایا۔
مصنف نے کتاب کے اخیر حصے میں سات ضمیمے بھی شامل فر مائے ہیں ، ضمیمہ اول میں امام احمد رضا قادری کے عقائد ، ضمیمہ دوم میں ان کی بعض تصانیف ، سوم میں ان کی کچھ قلمی تحریروں کا عکس ، چہارم میں وہابیوں اور دیوبندیوں کے رد میں امام احمد رضا قادری بریلوی کی تحریروں کی تائید میں علماے حرمین شریفین کی تقریظوں کے نمونے،پنجم میں بر صغیر ہند میں اہل سنت وجماعت کے بڑے مدارس کا ذکر، ششم میں محمدبن عبد الوہاب نجدی کا رد کر نے والے بعض علما کا تذکرہ اور آخری ضمیمے میں ڈاکٹر محمد سعید رمضان بوطی اور لامذہبیت کے ایک داعی کے درمیان ہو نے والے مباحثے کو شامل کیا گیا ہے۔
یہ کتاب اس جہت سے بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ اس کے ذریعہ عرب دنیا میں امام احمد رضا قادری اور بریلوی جماعت کے تعلق سے پھیلی ہو ئی بدگمانیاں دورہوں گی اور تبلیغی و دیوبندی جماعت کا اصلی چہرہ سامنے آئے گا، مصنف نے اس کتاب کی تصنیف سے قبل اپنی کتاب ‘‘ مِنْ اَقْطَابِ الاُمَّۃِ فِیْ الْقَرْنِ الْعَشْرِیْن’’میں بھی امام احمد رضا قادری کے افکار ونظریات کو عمدہ انداز میں پیش کیا ہے۔
‘‘امام عشق وعرفاں’’ میں ترجمے کی تمام خوبیاں موجوہیں ،زبان وبیان سلیس وشگفتہ ہے ،مترجم نے حسبِ ضرورت حواشی اور تعلیقات بھی تحریر کیے ہیں ،ضمیمہ دوم میں اعلیٰ حضرت کی تصانیف کی تفصیلی فہرست شامل کردی ہے جو مفید اور کار آمد ہے۔تصانیف کی تفتیش اور نئی تحقیق میں انہوں نے محنت شاقہ صرف کی ہے ۔کتابت وطباعت عمدہ ہے،کمپوزنگ کی کچھ خامیاں رہ گئیں ہیں ،یہ کتاب علما، طلبہ ، عوام اورخاص طور سے رضویات سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے ایک قیمتی تحفہ ہے ۔
 

محمد ساجدرضا مصباحی
About the Author: محمد ساجدرضا مصباحی Read More Articles by محمد ساجدرضا مصباحی: 56 Articles with 93887 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.