بچوں کا عالمی دن ۔۔۔ صفیہ ہارون

ہر سال 20 نومبر کو بچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔عالمی یومِ اطفال سب سے پہلے 1954 ء میں یونیورسل چلڈرن ڈے کے طور پر قائم کیا گیا تھا اور ہر سال 20 نومبر ، بین الاقوامی یکجہتی، دنیا بھر کے بچوں میں بیداری اور بچوں کی فلاح و بہبود اور ان کی بہتر ذہنی نشو ونما کو فروغ دینے کے لیے منایا جاتا ہے۔ تاریخی حقائق پر نظر دوڑائیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ جب دوسری جنگِ عظیم کے بعد، یورپی ممالک میں بچوں کی حالتِ زار بہت سنگین تھی، تب اقوامِ متحدہ کی قائم کردہ ایک ایجنسی نے ان بےبس اور قابلِ رحم بچوں کو کھانا، لباس اور بنیادی ضروریات فراہم کرنے کا بیڑا اُٹھایا۔1953ء میں یونیسف، اقوامِ متحدہ کا حصہ بن گیا۔ یہ ایجنسی کم وبیش 190 ممالک اور خطوں میں کام کر رہی ہے۔جہاں کہیں بھی سب سے زیادہ کمزور اور مفلوک الحال بچے موجود ہوتے ہیں، یہ ایجنسی ان بچوں تک رسائی حاصل کر کے ان تک بنیادی ضروریات کی چیزیں پہنچانے کی کوشش کرتی ہے۔اقوامِ متحدہ کی طرف سے یونیورسل چلڈرن ڈے 1954ء میں قائم کیا گیا تھا۔14 دسمبر 1954ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے تجویز پیش کی کہ تمام ممالک 1956ء سے ایک عالمی سالانہ تقریب منعقد کیا کریں، جس میں بچوں کے مابین اخوت،پیار اور قربانی کے جذبوں کو فروغ دیا جا سکے نیز اس دن بچوں کی حوصلہ افزائی، فلاح و بہبود اور ان کی بہتر ذہنی نشوونما کو بھی فروغ دیا جائے۔ اس تجویز کو پسند کیا گیا اور ہر ملک کو عالمی یومِ اطفال منانے کے لیے ایک تاریخ منتخب کرنے کو کہا گیا۔زیادہ تر ممالک نے 20 نومبر کا ہی انتخاب کیا لیکن کچھ ممالک جن میں آسٹریلیا اور ہندوستان شامل ہیں، انہوں نے اس دن کو منانے کے لیے مختلف مختلف تاریخوں کا انتخاب کیا۔پھر رفتہ رفتہ تمام ممالک نے 20 نومبر کے دن کو ہی اپنا لیا۔ ہندوستان والوں نے پنڈت جواہر لال نہرو کی وفات کے بعد نومبرمیں ہی یومِ اطفال منانے کا فیصلہ کر لیا۔ پنڈت جواہر لال نہرو کو بچوں سے بہت محبت تھی اور بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے انہوں نے کئی اہم کام بھی کیے۔ ان کی وفات کے بعد ان کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے بھی ان کی تاریخِ پیدائش یعنی14 نومبر کو ہی یومِ اطفال منانے کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ہندوستان میں 14 نومبر کو یومِ اطفال منایا جاتا ہے۔ ہر سال عالمی سطح پر 20 نومبر کو یومِ اطفال منایا جاتا ہے لیکن وہی بچے، جن کا دن عالمی سطح پر منایا جا رہا ہوتا ہے، کہیں نہ کہیں وہ غربت اور بھوک کی چکی میں پس رہے ہوتے ہیں۔ ہم جن کا دن منا کر کیک کاٹ رہے ہوتے ہیں، سماجی رابطوں کی ویب۔گاہوں پر "عالمی یومِ اطفال مبارک" کے اسٹیٹس لگا رہے ہوتے ہیں ، وہیں ہمارے قریب رہنے والے غربت و افلاس کی چکی میں پسنے والے بچے ہماری توجہ و محبت کے متقاضی ہوتے ہیں۔20 نومبر ا س لحاظ سے بھی اہم ہے کہ یہ 1959ءکے سال کی وہ تاریخ ہے، جب اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بچوں کے حقوق کے متعلق اعلامیے کو اپنایا تھا۔ 1989ءکے سال میں بھی اس تاریخ کو خاص اہمیت حاصل ہے کیوں کہ اس دن اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بچوں کے عالمی دن کے حوالے سے کنونشن کو منظور کیا تھا۔1990ءکے بعد سے عالمی یومِ اطفال بھی اس تاریخ کی سال گرہ کو منانے کا دن ہے جس کو اقوامِ متحدہ نے بچوں کے حقوق سے متعلق اعلامیہ اور کنونشن دونوں کو منظور کیا تھا۔یہ دن بچوں کے حقوق کی آگاہی، ان کی تعلیم، صحت ، تفریح ، ان کے ساتھ ہونے والے بےجا ظلم و ناانصافی سے آگاہی فراہم کرنے اور دیگر حقوق کو اُجاگر کرنے کے لیے منایا جا تا ہے۔اس دن ظلم و بربریت کا نشانہ بنتے کشمیری بچے ہماری توجہ کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ سب سے زیادہ ظلم و ناانصافی تو ان کشمیری بچوں کے ساتھ ہو رہی ہے جو سکول یا مدرسہ سے جب گھر لوٹتے ہیں تو کبھی والدین یا عزیزوں کی لاشیں دیکھتے ہیں تو کبھی ان کا گھر بار ان کی نظروں کے سامنے جل رہا ہوتا ہے اور وہ بے بسی کی تصویر بنے شکوہ کناں نظروں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ شکوہ کناں نظریں آسمان کی طرف اُٹھ جاتی ہیں جیسے اللہ رب العزت سے شکوہ کر رہی ہوں کہ ہمارا یا ہمارے والدین کا کیا قصور تھا؟ بچوں کے حقوق کی نفی اور ان کے حقوق کا استحصال سب سے زیادہ کشمیر میں ہو رہا ہے، جہاں ان کی کوئی غلطی نہ ہوتے ہوئے بھی کبھی انہیں تو کبھی ان کے پیاروں کو ان کی آنکھوں کے سامنے بےدردی و بےرحمی سے قتل کر دیا جاتا ہے۔ان بچوں کی آنکھوں میں بچپن سے ہی موت کا خوف جم جاتا ہے جو اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے عزیزوں کی لاشیں اور گولیوں سے چھلنی ان کے وجود دیکھتے ہیں۔ وہ بچے جو کسی بھی قوم کا حقیقی سرمایہ ہوتے ہیں، وہی بچے جنہوں نے ابھی زندگی کو کھل کر جینا ہوتا ہے، وہی بچے جن کے ہاتھ میں کتابیں اور کندھوں پربستے ہونے چاہییں، وہ بچے مجبوراً ہتھیار اُٹھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس وقت ملک بھر میں بہت سی نجی تنظیمیں اور ادارے بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہے ہیں۔ دیگر ممالک میں بھی بچوں کے حقوق کا دفاع کیا جاتا ہے لیکن کشمیر میں بچوں کے ساتھ ہوئے ظلم و ناانصافی کے خلاف کوئی ایک لفظ تک نہیں کہتا۔ اقوامِ متحدہ نے بھی کشمیر میں حقوق کی پامالی دیکھنے کے بعدبھی چپ سادھ رکھی ہے۔عالمی یومِ اطفال پر ملک بھر میں اور دیگر ممالک میں بھی بچوں کے ساتھ ہوئے زیادتی کے واقعات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔بچوں اور والدین کو بچوں کے تحفظ کے حوالے سےمکمل آگاہی فراہم کرنے کے بعد بھی بچوں کے ساتھ ہوئے ظلم وزیادتی کے واقعات پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ ایسے واقعات کم ہونے کی بجائے دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں۔ بچوں کے عالمی دن کے موقع پر ہمیں بچوں کے ساتھ ہوئے زیادتی کے واقعات پر ضرور آواز اٹھانی چاہیے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے محفوظ رہیں تو ہمیں سب سے پہلے دوسروں کے بچوں کو تحفظ فراہم کرنا ہو گا۔ وہ جو بچوں کے حقوق کی پامالی کرتے ہیں، وہ بھی ہم میں سے ہی کئی لوگ ہوتے ہیں۔ ہم اگر دوسروں کے بچوں کو اپنے بچے نہیں سمجھیں گے تو یقین مانیے کہ کل کو ہمارے بچے بھی کبھی ہمارے نہیں بنیں گے۔ اپنے بچوں کو محبتیں اور عزتیں بانٹنے والے بنائیے۔ ان کو قربانی کا درس دیجیے۔ان کے اندر دوسرے بچوں کے ساتھ مل جل کر کام کرنے کے جذبے کو ابھاریں۔بچوں کی تربیت اس طرز پر کیجیے کہ وہ کل کو معاشرے کے معزز شہری کے طور پر سامنے آئیں اور ملک کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں۔ اگر آج آپ اپنے بچے کو اعلیٰ اخلاقی اقدار نہیں سکھاتے ہیں تو کل کو وہ آپ کے لیے تو مسائل پیدا کرے گا لیکن ساتھ ہی معاشرے میں بگاڑ کا ذمہ دار بھی ہو گا۔ماں کی گود بچے کی سب سے پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔ ان کو پہلی درس گاہ سے ہی محبت و عزت، اخوت و یگانگت کا درس دیجیے۔عصرِ حاضر میں بچوں نے جدید ٹیکنالوجی سے بہت کچھ سیکھا ہے، ان کی ذہانت میں غیر معمولی اضافہ بھی ہوا ہے لیکن ساتھ ہی سوشل میڈیا کے استعمال نے ان کی اخلاقی اقدار کو تباہ کر دیا ہے۔ وہ بچے جن کے ہاتھوں میں کتابیں ہونی چاہییں،ہم نے قوم کے نونہالوں کے ہاتھوں میں موبائل اور لیپ۔ٹاپ تھما دیے ہیں۔اس قوم سے تو شاعرِ مشرق کی بہت سی امیدیں وابستہ تھیں۔ اس قوم کے نوجوانوں کو تو وہ شاہین کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے، جو بلند خیال و بلند پرواز اور خودداری کا نمونہ ہو لیکن ہم نے اپنی قوم کے سرمایے کو خود ہی غلط راہ دکھا دی ہے۔ہماری قوم کا سرمایہ غلط ہاتھوں میں جا رہا ہے اور ہم خاموش تماشائی بنےسب کچھ دیکھ رہے ہیں۔مسلمان جو کبھی سارے عالم پر راج کیا کرتے تھے، آج وہ زوال پذیری و شکست خوردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یورپ ، جس پر کبھی مسلمانوں کی حکمرانی تھی، وہ ہمارا ہی علمی سرمایہ چرا کر اعلیٰ اخلاقی اقدار اپنا کر آج دنیا کا ترقی یافتہ ملک بنا بیٹھا ہے اور ہم مسلمان جو اس خزانے کے حقیقی وارث ہیں، ہم آپس کی تفرقہ بازی میں الجھے ہوئے ہیں۔ہم نے آزاد ملک تو حاصل کیا ہوا ہے لیکن ذہنی طور پر ہم آج بھی بیرونی طاقتوں کے غلام ہیں۔ رہی سہی کسر ہم نے اپنے بچوں کو انگریزی سکھا کر پوری کر دی۔ ہمارے بچے، جن کو اپنی قومی زبان اردو پر فخر محسوس ہونا چاہیے، وہ انگریزی میں بات کر کے فخر محسوس کرتے ہیں۔ علم حاصل کرنے کے لیے دیگر زبانیں سیکھنے میں لوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنے بچوں کو قومی زبان سے قطعی نابلد رکھیں۔ اگر ہمارے بچے درست اردو لکھ، بول یا پڑھ نہیں سکتے تو یہ اُن بچوں کا نہیں، بلکہ ہمارا قصور ہے۔بچوں کی بہتر ذہنی نشوو نما اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے میڈیا مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔ ہمیں بچوں کے لیے بہترین اخلاقی و تربیتی پروگرام پیش کرنے چاہییں جو بچوں کی تعلیم و تربیت میں معاون ثابت ہوں۔ اس وقت ٹی۔وی پر باقاعدہ طور پر کوئی ایسا پروگرام یا اخلاقی و سبق آموز کہانیاں پیش نہیں کی جا رہیں جو ان معصوم ذہنوں کی اخلاقی تربیت کر سکیں۔حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے پروگرام مرتب کروائے جن سے بچوں کی اخلاقی و ذہنی تربیت ہو سکے۔ٹی۔وی مالکان اور ادبا کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی اپنی جگہ اس ذمہ داری کو نبھائیں۔ ادبا و شعرا کو چاہیے کہ وہ بچوں کے ادب پر خصوصی توجہ دیں۔ ہمارے اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ وہ بچے جو ہوٹلز، کارخانوں، گھروں اور ورکشاپس میں کام کرتے ہیں، یتیم بچے اور وہ بچے جن سے جبری مشقت کروائی جاتی ہے یا وہ بچے جو غربت کے سبب کام کرنے پر مجبور ہیں اور ان سے پندرہ پندرہ یا بیس بیس گھنٹے کام لینے کے بعد بھی ان کو مکمل اُجرت ادا نہیں کی جاتی، بچوں کے عالمی دن کے موقع پر ایسے تمام بچے بھی ہماری توجہ کے خصوصی حق دار ہیں۔ عالمی یومِ اطفال کو صرف اپنی بچوں کے ساتھ کسی ہوٹل یا ریسٹورنٹ میں اکیلے ہی نہ منائیے، بلکہ اپنے ساتھ اس ہوٹل یا ریسٹورنٹ میں کام کرنے والے بچے کو بھی اپنے ساتھ کھانے میں شامل کر لیجیے۔ ایک دن کے لیے ہی سہی، ان کو اپنے خاندان کا حصہ بنا کر انہیں باپ کی شفقت ، بہن بھائیوں کا پیار اور ماں کی شفقت کو محسوس کر لینے دیجیے۔ اگر ممکن ہو تو اپنی ہی گلی کے کسی غریب بچے یا اپنے آفس میں کام کرنے والے چوکیدار کے کسی ایک بچے کی ذمہ داری لے لیجیے۔ اس سے آپ کی دنیا و آخرت دونوں سنور جائے گی اور اللہ رب العزت بھی کسی غریب اور تنگ دست پر خرچ کرنے والے کو بےانتہا و لامحدود عطا فرماتا ہے۔

 

Safia Haroon
About the Author: Safia Haroon Read More Articles by Safia Haroon: 3 Articles with 2720 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.