حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا کردار اور فتوحات

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ذات مقدسہ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ امیرالمومنین اور خلیفہ دوئم ہیں۔آپ رضی اللہ عنہ کا اسم مبارک عمر اور لقب فاروق ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا خاندانی شجرہ آٹھویں پشت میں حضور اکرمﷺ سے ملتا ہے۔ آپ کے والد کا نام خطاب اور والدہ کا نام عتمہ ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد پوری اُمت میں سب سے افضل ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ عمر میں تقریباً گیارہ سال نبی کریمﷺسے چھوٹے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺکے نہایت قریبی ساتھی ہیں۔ نبی کریمﷺ کو آپ رضی اللہ عنہ سے بے پناہ محبت تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ ایک عظیم سپہ سالار،عظیم حاکم، عظیم دانشور، عظیم محافظ، عظیم راہنما، عظیم قاضی و عادل تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ہمیشہ بڑی بہادری اور ثابت قدمی سے حضور اکرمﷺ کا ساتھ دیا۔ نبی کریمﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کئی مواقع پر فوج کا سپہ سالار مقرر کیا تھا اوردشمن پر آپ رضی اللہ عنہ کی ایسی دھاک بیٹھی تھی کہ وہ میدان جنگ سے بھاگ جاتے تھے۔

نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: ‘‘لو کان بعدی نبی لکان عمر بن الخطاب’’
ترجمہ :۔ میرے بعد اگر نبی ہوتا تو عمر ہوتا۔ مشکوٰۃ شریف ص558

شرح ‘‘فقہ اکبر’’ میں ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ ہر نبی کے چار وزیر ہوتے ہیں۔ جن میں سے دو آسمان اور دو زمین پر ہوتے ہیں۔ اسی طرح میرے بھی چار وزیر ہیں۔ آسمانی وزیر جبرائیل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام ہیں اور زمین پر دو وزیر ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔

خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد جب آپ رضی اللہ عنہ نے منصب خلافت سنبھالا توآپ نے اسلامی سلطنت کو اتنی وسعت دی کہ آج کل کے جدید دور میں کسی سپر پاور کے پاس بھی اتنی بڑی سلطنت نہیں۔ اس سلسلے میں آپ نے کئی لشکر تیار کیے کئی مہمات سر کیں اور ظالموں کے ظلم کا خاتمہ کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے دورمیں روم اور ایران جیسی دو سپر پاورز کے ساتھ عراق، شام، فلسطین، مصر اور بلوچستان کا کچھ حصہ بھی فتح ہوا۔ تفصیل آپ "اطلس فتوحات اسلامیہ" میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس میں سارے نقشے بھی موجود ہیں۔

سکندر اعظم کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ مقدونیہ کا الیگزینڈر تھا جو ایک بادشاہ کا بیٹا اور انتہائی مہارت یافتہ سپہ سالار تھا۔ جس کے پاس ایک آرگنائزڈ اور جدید ہتھیاروں سے لیس آرمی تھی اور اس نے تقریباً دس سال کے عرصے میں17 لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا۔ اس کے برعکس حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ایک ایسی آرمی جو نہ تو اتنی آرگنائزڈ تھی اور نہ ہی اس کے پاس جدید اصلحہ تھا۔ ان میں سے تو اکثر کے پاس سواری بھی نہ تھی۔ پھر بھی آپ نے صرف دس سال کے عرصے میں 22 لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا اور یہ سکندراعظم سے کہیں بڑا کارنامہ ہے۔ میرے خیال میں اس لحاظ سے الیگزینڈرکو سکندراعظم کہنے کی بجائے اگرحضرت عمرفاروق کو سکندراعظم کہا جائے تو یہ بے جا نہ ہوگا۔

جب فلسطین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں فتح ہواتواس وقت اس علاقے پر سلطنت روم کی حکومت تھی جو کہ کیتھولک عیسائی تھے۔ فلسطین کے بعض علاقے جنگ سے اور بعض بغیر جنگ کے فتح ہوئے۔ یروشلم یا بیت المقدس بغیر جنگ کے فتح ہوا۔ یہاں کے پادریوں نے درخواست کی کہ اگر مسلمانوں کے خلیفہ خود آ جائیں تو ہم بغیر کسی جنگ کے شہر مسلمانوں کے حوالے کرنے کو تیار ہیں۔ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وہاں کا سفراختیار کیا آپ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ ایک اونٹ اور آپ رضی اللہ عنہ کا غلام تھا۔ راستہ میں آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے اور غلام کے درمیان مساوات قائم رکھی اور کچھ فاصلہ تک آپ رضی اللہ عنہ اونٹ پرسوار ہوتے اور کچھ فاصلہ تک غلام، اتفاق سے بیت المقدس پہنچنے پر غلام کی باری تھی اور آپ مہار تھامے پیدل چل رہے تھے۔ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو جب آپ رضی اللہ عنہ کے آنے کی اطلاع ملی تو وہ استقبال کے لیےشہر سے باہر آگئے۔ لیکن آپ رضی اللہ عنہ کو اس حال میں دیکھ کرعرض کیا:” اےامیرالمومنین رضی اللہ عنہ عمائدینِ شہر عنقریب آ پ رضی اللہ عنہ سے ملنے اور استقبال کرنے آرہے ہیں۔ اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ وہ لوگ اس حال میں دیکھیں “۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :” ہماری عزت اور ہماری بزرگی صرف یہی ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ ہم کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی عزت بخشی ہے۔ ہم کو دنیا وی عزت کی ضرورت نہیں۔ میں شہر میںیو نہی داخل ہو نگا “ (تذکرة الواعظین، ص 465)۔

اورپھر اپنےعیسائیوں کو مکمل مذہبی آزادی دیتے ہوئے شہرکواسلامی سلطنت کا حصہ بنایا۔ یہ اسلامی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ جس کی مثال دنیاءے تاریخ میں نہیں ملتی۔

اسطرح حضرت عمرفاروق نے صرف دس سال کے قلیل عرصے میں اسلامی سلطنت کو ایک عظیم وسعت دی۔

مصر کے محاذ سے لشکر اسلام کے سپہ سالار کا قاصد مال غنیمت کے ساتھ ایک رقعہ امیر المومنین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا. پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے قاصد سے خط لے کر پڑھا۔ جس میں لکھا تھا کہ ‘‘امیر المومنین، الحمد للہ میرے سپاہی اتنے دیانتدار، ذمہ دار ،فرض شناس اور خداترس ہیں. کہ دوران جنگ اگر کسی مجاہد کو معمولی سی سوئی بھی ہاتھ لگی تو وہ بھی اس نے میرے پاس جمع کرائی ہے. اور اگر کسی مجاہد کو اشرفیوں کی تھیلی یا سونے کی ڈلی بھی ملی تو وہ بھی اس نے اپنے پاس رکھنے کے بجائے مجھ تک پہنچائی ہے’’ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے جیسے خط پڑھتے جاتے آپ کی آنکھوں سے آنسو چھلکتے جاتے، یہاں تک کہ چہرہ مبارک آنسووں سے تر ہوگیا۔

یہ دیکھ کرسیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ پریشان ہوگئے اور خیال آیا کہ شاید کوئی بری خبر آئی ہے جسے پڑھ کر امیرالمومنین رضی اللہ عنہ پریشان ہو گئے ہیں۔

آپ رضی اللہ عنہ نے پریشانی اور اضطراب کے عالم میں امیر المومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا کہ یا امیر المومنین، خیریت تو ہے آپ رضی اللہ عنہ کیوں رو رہے ہیں۔

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ اے میرے بھائی یہ خوشی کے آنسو ہیں یہ کہہ کر آپ رضی اللہ عنہ نے وہ خط حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دے دیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ساری صورتحال جان گئے اور علم و حکمت پر مبنی ایک ایمان افروز خبطہ ارشاد فرمایا۔

خطبہ:
یاامیر المومنین رضی اللہ عنہ ۔ ’’یہ اسلامی فوج کے سپاہیوں کی دیانت اور امانت نہیں بلکہ آپ رضی اللہ عنہ کے عدل و کردار کا کمال ہے ، اگر آپ رضی اللہ عنہ فرض شناس ،امین،عادل اور خدا ترس نہ ہوتے توآپ رضی اللہ عنہ کے سپاہی کبھی بھی ان اوصاف کا مظاہرہ نہ کرتے اور سپاہیوں میں یہ وصف کبھی پیدا نہ ہوتا۔
Akhtar Abbas
About the Author: Akhtar Abbas Read More Articles by Akhtar Abbas: 22 Articles with 57855 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.