حالات ہیں ایسے ڈر ڈر کر لب کھول رہا ہوں

حالات ہیں ایسے ڈر ڈر کر لب کھول رہا ہوں
تلوار کے سائے میں اب اردُو بول رہاہوں

ارُدو کے بارے میں ابہام اور لسانی بنیاد پر تفریق کر کے ملک کی ترقی کو مسدود کر دیا گیا پھر بھی وفاقی حکومت سمیت صوبائی حکومتیں اردو کو ہر سطح پر نافذ کرنے سے اجتناب برت رہی ہیں جبکہ ایک سیاسی رہنما نے شدید حقارت سے اردو کو اپنی زبان ماننے سے انکار کر دیا تو ایک سیاسی رہنما اس حد تک اتر آئے کہ فرمانے لگے کہ اردو دراصل ہندی زبان ہے جبکہ ہندی زبان کی تاریخ دوسو سال سے زائد نہیں جبکہ اردو زبان پر تحقیق کرنے والے اسے ایک ہزار قبل پرانی زبان قرار دیتے ہیں جبکہ جس انگریزی کے پیچھے ہم آدھا تیتر آدھا بٹیر ہوچکے ہیں اس کی رائج ہونے کی تاریخ محض تین سو سال پرانی ہے قدیم زبانوں میں عربی، فارسی اور ترک زبان کو صدیوں پرانی زبان قرار دیا جاتا ہے جس میں مسلمانوں کا فخر عربی زبان کی تاریخ سب سے پرانی ہے اور یہ بات تحقیق سے بھی ثابت ہو چکی ہے کہ دنیا میں اسوقت موجود ہزاروں زبانوں کی ماں "عربی " ہے اور اس عربی کی قریب ترین زبانوں میں ترک اور اردو زبانیں شامل ہیں جبکہ دیگر زبانوں کے رسم الخط میں ترک اور اردو زبان کی آمیزش نمایاں دکھائی دے گی اردو زبان میں ڈاکٹریٹ کرنے والے اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ بے شک یہ زبان کئی زبانوں کی آمیزش سے وجود میں آئی ہے لیکن اردو میں عربی جھلک بہت زیادہ ہے، بات نکلی تو پھر دور تلک جائے گی مختصر یہ ہے کہ پانچ ہزار سال گزر گئے دنیا کے ممالک کی ترقی کا راز معلوم کر لیجئیے اس میں زبان کی اہمیت کا اندازہ خود ہی ہو جائے گا اسرائیل یہودیت کا مرکز صحیح لیکن کاروباری لحاظ سے دنیا پر راج کر رہا ہے جس سے مسلم ممالک بھی انکار نہیں کرسکتے لیکن کبھی یہ جانچنے کی کوشش کی گئی کہ ایسا کیوں ہے یہودونصاری،مسلمانوں کے کبھی دوست نہیں ہوسکتے مگر یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ یہ ترقی کی راہ پر کیوں گامزن ہوئے اسرائل کی قومی زبان ہیبرو(Hebrew) ہے جسے وہ جان کی حفاظت کی طرز پر اہمیت دیتے ہیں اور زبان پر سمجھوتہ نہیں کرتے یہ امر قارئین کیلئے انتہائی دلچسپی کا موجب بن سکتا ہے کہ اسرائیل میں انگریزی زبان اوپری سطح کے لوگ ضرور سمجھتے اور بولتے ہونگی لیکن آئرش یعنی اسرائیلی انگریزی زبان سے واقفیت نہیں رکھنا چاہتے وہ اپنی زبان میں ہی دنیاوی امور چلانے کے حامی ہیں اور ان کی معاشی ترقی کا راز بھی یہ ہی ہے کہ انہوں نے اپنی قومی زبان کو ہر زبان پر اہمیت دی اوراسوقت دنیا پر ان کاکاروباری لحاظ سے غلبہ ہے، جرمنی تیز ترین ترقی یافتہ ممالک میں سرفہرست ہے جس کی قومی زبان جرمن ہے جرمنی میں ہر سطح پر جرمنی زبان کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ انگریزی سے نفرت رکھنے والوں میں جرمنی قوم سرفہرست ہے وہ اپنی زبان کو راہ نجات اور ترقی کا ضامن سمجھتے ہیں اور ان کے دانشور جرمن زبان کی ترویج کیلئے اپنی قوم کو نہ صرف تلقین کرتے ہیں بلکہ انہیں بتاتے ہیں کہ ہم ترقی یافتہ اس لئے ہوئے کہ ہماری شناخت ہماری زبان ہے اور شاید یہ ہی وجہ ہے کہ جرمن لوگ انگریزی کے حوالے سے خائف دکھائی دیتے ہیں، مسلم ممالک کا ترقی یافتہ ملک جس پر ہر اسلامی ریاست فخر کرتی ہے ترکی ہے اور ان کی ترقی کا راز بھی ان کی قومی زبان ترک کا ہر سطح پر رائج ہونا ہے استاد سے لے کر چیف آرمی اسٹاف اور سائنس دان سے لے کر چیف جسٹس تک سارا نظام ترک زبان میں ہے انہیں کوئی غرض نہیں کہ دنیا میں کمیونیکیشن کا نظام کیا ہے اور کیسے چلتا ہے انہیں اپنا نظام چلانے میں دلچسپی ہے جسے وہ ترک زبان میں چلا رہے ہیں اور عثمانیہ سلطنت سے رائج ترک زبان کو وہ اپنی جانوں کی طرح عزیز رکھتے ہیں اسوقت ترکی دنیائے اسلام میں اہمیت اختیار کر چکا ہے ان میں جو مغربی رنگ بہت حد تک سرایت کر چکا تھا وہ اب اترنے لگا ہے اور اس کی جگہ اسلامی تاریخ اور رسم ورواج ان میں واپس آنے لگے ہیں کیونکہ وہ سمجھ چکے ہیں کہ ان کی ترقی کا راز اسلام میں پوشیدہ ہے، ترکی زبان کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ یہ عربی زبان کی قریب ترین زبان سمجھی جاتی ہے،اسوقت چین کی ہر لحاظ سے ترقی کو کون نظر انداز کر سکتا ہے وہ سوئی سے لیکر بڑی سے بڑی اشیا تیار کر کے دنیا میں پھیلا رہے ہیں اور دنیا میں معاشی ترقی کے لحاظ سے غلبہ حاصل کر چکے ہیں اور اس کی ایک اہم اور بڑی وجہ یہ ہے کہ چین میں کسی کو دوسری کسی زبان سے غرض نہیں ہے وہ صرف اور صرف چائنیز زبان بولتے اور اس ہی کی ترویج کرنے میں مصروف ہیں وہ کسی دوسرے ملک میں ہوں تو اپنی ڈیوٹی کے تقاضوں کو پورے کرنے کی حد تک اس ملک کی زبان کو سیکھنے میں قباحت محسوس نہیں کرتے لیکن ان کے سینوں میں چین اور چینی زبان سے محبت قابل تقلید ہے جو چین کی ترقی کا بہت بڑا راز ہے، ہمیں دور دراز جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے پاکستان کی سرحدی حدود سب سے زیادہ انڈیا سے متصل ہیں انڈیا جسے قدامت پرست ملک قرار دیا جاتا ہے اور شاید وہ دنیا کے خطے میں وہ ملک ہے جہاں مختلف رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے اور مختلف زبانوں کا چربہ بولتے دکھائی دیں گے چربہ کا لفظ اس لئے استعمال کیا ہے کہ بڑی اور عالمی زبانوں کو مختلف حروف تہجی کی اشکال دیکر دیگر زبانیں وجود میں آئی ہیں اور ایسا ہی پاکستان میں بھی ہے لیکن انڈیا جیسے قدامت پسند ملک میں بھی ہندی کو اولیت دیجاتی ہے یہاں تک ہے کہ اقوام متحدہ میں بھی اپنے اظہار خیال کیلئے ہندی زبان کو استعمال میں لایا جاتا ہے اقوام متحدہ میں انڈین لوگ آپکو ہندی زبان میں ہی گفتگو کرتے دکھائی دیں گے ماسوائے ضرورت کے لحاظ سے وہ دیگر زبانوں میں گفتگو کریں گے البتہ انگریزی کا رواج انڈین قوم میں بھی پاکستان کی طرح عروج پا چکا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں قومیں شاید اب تک برٹش دور سے باہر آنے کو تیار نہیں ہوئی ہیں البتہ انڈیا اب ہندی کی ترویج پر بہت زیادہ کام کر رہا ہے جس کی مثال یہ ہے کہ مختلف زبانوں میں تیار کردہ فلمز، دستاویزی فلمز، تاریخی فلمز، سائنس فکشن ودیگر علوم سے متعلق فلمز، ڈراموں ودیگر کا ترجمہ ہندی زبان میں کر کے اپنی عوام تک پہنچایا جا رہا ہے تاکہ وہ اپنی زبان کے ذریعے دنیا کو سمجھ کر آگے بڑھ سکیں،ایران ایک اور اسلامی ملک ہے جو درس وتدریس سمیت جدید ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کر رہا ہے اس کی بھی تحقیق کر لیں تو یہ دلچسپ اور خوشگوار بات سامنے آئے گی کہ وہ اپنی قومی زبان فارسی کو چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں اور کہا جاتا ہے کہ عربی کے بعد فارسی قدیم ترین زبان ہے جس کو بہت سے اقوام نے تبادلہ خیال کیلئے استعمال کیا ہے آج بھی یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ دنیا کے قیمتی ترین علوم فارسی زبان کی مرہون منت ہیں جس کو مختلف زبانوں میں ترجمعہ کر کے دوسری اقوامیں ترقی کی بلند منازل پا چکی ہیں اور یہ بات سب سے زیادہ عربی کے متعلق تحریر کی جاتی ہے کہ قرآن مجید سے مسلمانوں نے کچھ حاصل کیا ہویا نہ کیا ہوا لیکن دیگر ممالک قرآن مجید سے قیمتی ترین معلومات حاصل کر کے ترقی پا چکے ہیں صرف اس بات کی کمی ہے کہ وہ ایمان کے درجے کو نہیں سمجھ سکے، پاکستان اپنی قوم زبان رکھتا ہے لیکن بحثیت قوم ہم اپنی ہی زبان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں پاکستان میں ہم سندھی، مہاجر، سرائیکی، پنجابی، پشتون، ہندکو، کشمیری، بلوچی، مکرانی اور نہ جانے کیا کیا کہلانا پسند کرتے ہیں مگر پاکستانیت کی بات ہو تو لسانی رنگ نمایاں ہونے کی وجہ سے "اردو"سے رشتہ توڑتے دکھائی دیتے ہیں اور انگریزی زبان میں کلام کرنا پسند کرتے ہیں جبکہ یہ زبان ہماری ہے ہی نہیں، انجیکٹیڈ زبان ہم پر صرف اس لئے حاوی ہو جاتی ہے کہ اردو زبان کو ایک مخصوص لوگوں سے منسوب کر دیا جاتا ہے کہ یہ زبان ان کی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے اردو پر جتنا عبور دیگر علاقائی زبانیں بولنے والوں نے حاصل کیا وہ یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ زبان یکجہتی کی علامت ہے جسے فروغ دینے کیلئے باہمی اخوت کی ضرورت ہے ورنہ ہمارا ملک خدانخواستہ ترقی کی منازل طے کرنے سے ہمیشہ محروم رہ سکتا ہے کیونکہ ہمارے پاس زبانی تشخص اب بھی موجود نہیں ہے بعض ممالک آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ شاید ہماری قومی زبان کچھ اورہے، اردو کی تاریخ ایک ہزار سال پرانی ہے اسوقت جب یہ رائج ہوئی تھی دنیا نے اسے تسلیم کیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب دنیا میں انگریزی زبان کو کوئی جانتا ہی نہیں تھا البتہ اردو کی دھوم مچی ہوئی تھی پھر ایک دور ایسا آیا کہ اردو جیسی شاہی زبان کو ایک طرف کر کے غلامی زبان انگریزی کو اہمیت دی جانے لگی اور غلامی کی یہ زنجیر پاکستان میں اب بھی ہمارے پاں کی بیڑیاں بنی ہوئی ہے، پاکستان کی عوام ترقی کی منازل طے کرنے کیلئے اپنی قومی زبان کو اہمیت دینے کو تیار ہیں انہیں اردو کی بحثیت قومی زبان ہر سطح پر رائج ہونے پر قطعی کوئی اعتراض نہیں ہے وہ چاہتے ہیں کہ وہ ہر سطح پر اس کو رائج ہوتا دیکھنے کے ساتھ عدالتی کاروائی سمیت دیگر سرکاری، سیاسی، علمی علوم کو اردو میں پڑھ اور دیکھ کر سمجھ سکیں لیکن پاکستان میں اردو کے رائج ہونے کو اپنے لئے خطرہ محسوس کرنے والے اسے رائج کرنے سے گریزاں ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایسا ممکن ہوگیا تو ان کی کھلی دکانیں بند ہو جائیں گی عوام کو یہ سمجھ میں آنے لگے گا کہ دراصل ان کے ساتھ کیا، کیا جارہا ہے اسی لئے اردو کو زخمی کرنے کیلئے پینترے آزمائے جاتے رہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اردو زبان دن بہ دن کمزور کی جارہی ہے جس کی مثال اس شعر سے دی جاسکتی ہے کہ

میرے کانوں میں مصری گھولتا ہے
کوئی بچہ جب اردو بولتا ہے

کہہ دو کے نہ شکوہ لب مبہوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

سب میرے چاہنے والے ہیں، میراکوئی نہیں۔۔۔
میں بھی اس ملک میں اردو کی طرح رہتا ہوں

پاکستانیوں کیلئے یہ اشعار اس بات کی وضاحت ہیں کہ ہم نے اپنی ترقی کو خود ہی احساس محرومی کی نذر کر دیا ہےہم انگریزی کو راہ نجات سمجھ رہے ہیں جس سے قومی زبان پنپنے کے بجائے گلی گلی اپنی یتیمی پرآنسو بہارہی ہے جبکہ دنیا گواہی دے رہی ہے کہ ان کی ترقی کے پیچھے ان کی قومی زبان ہی سب سے بڑھ کر ہے، پاکستان کے حکمراں جب تک غلامی اور ایماندارانہ بنیاد پر اردو کو رائج کرنے کا فیصلہ نہیں کرینگے ممکن ہی نہیں کہ ہم دنیا میں وہ مقام حاصل کر سکیں جو کہ ہمارا بحثیت قوم بنیادی حق ہے کیونکہ ہمارے علوم آج بھی اردوکے بجائے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں اردو زبان کی ترقی وترویج کے لئیے انقلابی اقدامت کے ساتھ اس قومی زبان سے محبت کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا

تماری نفرتوں میں پیار کی خوشبو بسا دینگے ۔۔
ہماری بزم میں آؤتمیں اردوسکھا دینگے ۔۔۔۔۔
 

Syed Mehboob Ahmed Chishty
About the Author: Syed Mehboob Ahmed Chishty Read More Articles by Syed Mehboob Ahmed Chishty: 34 Articles with 26525 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.