زندگی اتنی مشکل تو نا تھی

زندگی کی وہ تلخیاں جن سے خونی رشتوں میں دوریاں پیدا ہوئی اور دولت لوگوں کا تشخص بنی۔

گاؤں کا ایک منظر

اگلے وقتوں کے لوگ سمجھدار تھے تعلق نبھاتے تھے اور آج کے لوگ پریکٹیکل ہوگئے ہیں، فائدہ ہو تو تعلق رکھتے ہیں۔ دن بدن زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔ غریب غریب تر اور طاقت ور طبقہ مزید طاقت ور ہوتا جا رہا ہے۔ دولت کی اس ہوس نے انسان کی حلال اور حرام میں تمیز کو ختم کر دیا ہے۔ انسان ہر ذرائع سے پیسہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔

اگلے وقتوں میں یہ سب کچھ نہیں ہوتا تھا۔ سب لوگ ایک ساتھ رہتے تھے۔ جوائنٹ فیملی سسٹم کا کوئی رواج نا تھا۔ آپس میں سب لوگ پیار محبت سے رہتے تھے۔ لوگ اپنے بڑوں کا احترام کرتے تھے اور آپس میں اتحاد قائم رکھتے۔ رزق حلال کی تلاش میں صبح صبح نکلتے اور شام ہوتے ہی گھر کو لوٹ آتے۔ تعلیم کا کوئی رواج نا تھا۔ پھر بھی لوگ باشعور ہونے کے ساتھ ساتھ سلیقہ مند بھی تھے۔ عورتیں گھروں اور زمینوں وغیرہ میں کام کرتی۔ خوشی وغم میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ برابر کے شریک ہوتے۔ اگر کوئی مسلئہ ہوتا تو اس کو آپس میں بیٹھ کر حل کر لیتے تھے۔ اگرچہ مٹی کے گھر ہوتے تھے، مگر ان میں خوب رونق نظر آتی تھی۔ اتفاق و اتحاد کے بندھن میں لوگ بندھے ہوئے تھے۔

وقت کے ساتھ ساتھ زمانے نے بھی اپنا رنگ بدلہ اور لوگوں کے مزاج میں بھی تبدیلی آنا شروع ہوگئی۔ تعلیم آہستہ آہستہ گھروں میں داخل ہوئی اور لوگ تعلیم و نوکری کی خاطر گھروں سے باہر نکلے۔ شاید یہی وہ پوائنٹ تھا جہاں سے زمانے نے کروٹ بدلی ۔ لوگوں کے پاس دولت آنا شروع ہوگئی اور دوریاں بڑھتی چلی گئیں۔ لوگوں کے معیار زندگی اور رویہ میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ دولت کی اس ہوس نے خونی رشتوں میں تنازعات کو جگہ دی۔ تنازعات بڑھنا شروع ہوگئے تو دوریاں بھی بڑھنے لگ گئیں۔ عزت و احترام کا معیار دولت بن گیا۔ جن کے پاس دولت اور تعلیم آنا شروع ہوگئی، لوگوں نے ان کی عزت کرنا شروع کیا۔ گاؤں کے لوگوں نے شہروں کا رخ کیا تو ان کے رہن سہن میں بھی تبدیلی آئی۔ لوگ پریکٹیکل ہونا شروع ہوگئے۔ سگے رشتوں میں بھی تنازعات شروع ہو گئے۔

پھر ایک وقت آیا کہ سارہ عالم نفسا نفسی کا عالم بن گیا۔ جہاں لوگ صرف اپنے فائدے کے لئے تعلق رکھنے لگے۔ اسی جہاں میں زندگی بہت مشکل ہوگئی جو پہلی اتنی نا تھی۔ اب کے دور میں بڑے بڑے محل تو موجود ہیں، مگر ویرانی وہاں کا مقدر بن چکی ہے۔ بھائی بھائی کا دشمن بن گیا ہے۔ دولت حاصل کرنے کی رفتار میں خطرناک حد تک کا اضافہ ہوگیا ہے۔ آج کل خوشی و غمی میں لوگوں کی کمی کی وجہ آنا ہے جس نے خونی رشتوں میں دوریاں پیدا کر دی ہیں۔ دو دن پہلے لیاقت پور میں بھتیجے نے اپنے چچا کو زمین کے تنازعے پر گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ ہر دوسرے روز صرف چند گز زمین کے عوض لوگوں کے قتل کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ لوگوں کا تشخص زمین، فیکٹریاں، وغیرہ بن چکا ہے۔ دین سے دوری کی وجہ سے لوگ بڑے چھوٹے کا احترام کرنا بھول گئے۔ ماں باپ کا جو مقام پہلے ہوا کرتا تھا شاید آج ویسا نہیں ہے۔ کچھ دن پہلے کسی کام سے کچہری جانا ہوا تو وہاں ایک صاحب ملے جو اپنی زمین اپنے کسی دوست کے نام کروانے آئے تھے حالانکہ انکے اپنے چار بیٹے ہیں۔ پتا کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ اپنے بیٹوں سے دلبر داشتہ ہو کر اپنی زمین کسی دوست کو دے رہے۔ یہ تو حالات ہیں اس زمانے کے جس میں جینا واقعی مشکل ہے۔
اللہ پاک سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین !
 

Danish Hameed
About the Author: Danish Hameed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.