اے تحیرِ عشق (نہ جنوں رہا، نہ پری رہی): ناول نگار۔ڈاکٹر رفیع مصطفی

اے تحیرِ عشق (نہ جنوں رہا، نہ پری رہی): ناول نگار۔ڈاکٹر رفیع مصطفی
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
پیش نظرنا ول ’اے تحیرِ عشق (نہ جنو ں رہا، نہ پری رہی) کا عنوان سراج اونگ آبادی کی غزل کے مطلع سے لیا گیا ہے۔ سراج اونگ آبادی کی غزل کا مطلع کچھ اس طرح ہے ؎
خبر تحیرِ عشق سن نہ جنو ں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی
ناول دراصل کہانی ہی ہے جس میں معاشرہ میں پیش آنے والے واقعات، حادثات، اچھے برے واقعات، غمی اور خوشی کی باتوں پر مبنی کہانی کو پڑھنے والے کے لیے دلچسپی اور اس کی توجہ کو برقرار رکھنے کے لیے کہانی کا پلاٹ، کردار، جگہ، کرداروں کی زبان سے ادا کیے گئے الفاظ اور جملے ناول کو دلچسپ بناتے ہیں۔ ناول سو سال سے زیادہ کا سفر طے کرچکا ہے۔ اس طویل دور میں معروف ناول نگار سامنے آئے اور ان کے لکھے ہوئے نال بے حد مقبول بھی ہوئے۔ناول میں چند نکات بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں یعنی ناول کی کہانی کیا ہے، لکھنے والے کا انداز کیسا ہے یعنی اسلوب کیسا ہے، ناول کے کردار بہت اہم ہوتے ہیں، کرداروں کا گفتگو کرنا، ہنسنابولنا، اٹھنا بیٹھنا، جملوں کی ادائیگی، زبان و بیان قاری کو ناول کے بارے میں رائے قائم کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔زمان و مکان بھی اہم ہوتا ہے، خوشی یا غمی کا عنصر بھی اہمیت رکھتا ہے۔ ناول نگار کا کہانی کو
اپنی گرفت میں رکھنا، کرداروں کو کہانی کے مطابق اداکاری کے جوہر سامنے لانا ناول کو قاری کے لیے دلچسپی کا باعث ہوتاہے۔ پیش نظر ناول ”اے تحیرِ عشق (نہ جنوں رہا، نہ پری رہی) ڈاکٹر رفیع مصطفی کی تخلیق ہے جس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر رفیع مصطفی نے اپنے اس ناول کی کہانی کو مہارت سے اس طرح ترتیب دیا ہے کہ کہانی میں موجود کردار جملوں کی خوبصورت ادائیگی کرتے نظر آتے ہیں۔ناول سے ایسا اندازہ بھی ہوتا ہے کہ یہ شاید ناول نگار کی آپ بیتی ہے یا یہ واقعات، حالات سے ناول نگار خود گزرا ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کیوں کہ اس ناول کے مرکزی کردار کے بچپن سے جوانی تک کی کہانی پر مبنی ہے اس وجہ سے بھی یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ ناول نگار پر گزرے حالات اور واقعات ہیں۔ اس ناول کی کہانی ایک خاندان کی کہانی کے ساتھ شروع ہوتی ہے جو شمالی ہندوستان کے ایک قصبے کے رسم و رواج اور اقدار سے بھر پور ثقافت میں گہرائی سے پیوستہ ہے۔ ناول نگار نے یہ کہانی 1930ء سے1940ء کی دیہائی کے پس منظر میں بیان کی ہے۔ اس کے مرکزی کردار ”بلال“ ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن پیش لفظ میں ناول نگار نے وضاحت کی ہے کہ ”آخر میں اتنا عرض کرتا چلوں کہ خدارا اس کہانی کو میری سوانح حیات نہ سمجھیں کیو ں کہ سوانح حیات صرف مشہور لوگوں کی ہی لکھی اور پڑھی جاتی ہے۔ جب کہ شہرت میرے قریب سے کیا دور سے بھی نہیں گزرای۔ اس کہانی میں، میں‘ میرا ہمزاد ضرور ہے مگر میں ہر گز نہیں“۔اس اشارے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ناول نگار کی آپ بیتی تو نہیں لیکن کسی نہ کسی طور اس کہانی سے کچھ تعلق ضرور ہے۔
ناول’اے تحیرِ عشق (نہ جنوں رہا، نہ پری رہی)‘ کی بنیاد ی خاکہ تقسیم ہند کے بعد پاکستان ہجرت کے واقعات ہیں۔ ہجرت کے بعد کے حالات، ہجرت کرنے والوں کی جدوجہد کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ کیمپ میں اور کبھی کھلے آسمان تلے وقت گزارنا، علاوہ ازیں اس میں اس میں دھیمے سلگتے عشق کی داستان بھی اپنا رنگ دکھاتی دیتی ہے۔ وہ نسل جو اس دور میں موجود تھی وہ اس ناول کو پڑھ کر ماضی کی یادوں میں کھو جائے گی۔ اسے وہ دن اوروہ راتیں یاد آجائیں گی کہ کس طرح تقسیم ہند کے وقت پاکستان ہجرت کرنے والوں نے کیا کیا دکھ اور مصیبتیں اٹھائیں۔ہندوستان کی سر زمین سے پاکستان ہجرت کرنے میں کن کن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ہجرت کرکے پاکستان آنے والوں میں بہت سے ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنے پیاروں کو شہید ہوتے دیکھا، مال کی قربانی دے، اپنا سب کچھ لٹا کر انہوں نے ہجرت کی۔ ناول نگار کے اسلوب کی ایک جھلک اس مختصر پیراگراف سے عیاں ہوتی ہے۔ لکھتے ہیں ”دالان کی ایک طرف چھت گری اور ہم بھاگ کر پھر آنگن میں آگئے۔ ہر طرف آگ کے شعلے بلند ہورہے تھے۔ باہر کا شور ختم ہوچکا تھا۔ اچانک خاموشی کا احساس ہوا، صرف چٹختی ہوئی لکڑیوں کی آوز اور گرِتی ہوئی چھتوں کی چر چراہٹ سنائی دے رہی تھی۔ اب یہاں سے نکلنے کی فکر کرو کیونکہ یہ دیواریں گر ِنے والی ہیں ’ماموں جان نے کہا‘۔ جب ہم دروازہ کھول کر گلی میں نکلے تو وہاں نقشہ ہی کچھ اور تھا۔ محلے کے بیشتر مکان ملبے میں تبدیل ہوچکے تھے اور ہر طرف دھواں اُٹھ رہا تھا۔ کچھ گھروں سے ابھی تک شعلے بلند ہورہے تھے۔ گلی میں جگہ جگہ لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ کچھ لاشیں اوندھی پڑی تھیں اور پیٹھ سے رِستا ہوا خون جم چُکا تھا۔ کچھ لاشوں کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور منہ پھٹے ہوئے تھے جیسے سخت کرب سے گزررہے ہوں۔ ایک شیر خوار بچے کی آنکھیں بند تھیں جیسے سورہا ہو اور پیٹ سے آنتیں نکل کر پھیل گئی تھیں۔ مجھے ماموں جان نے اُٹھا رکھا تھا اور زرینہ ابا میاں کی گود میں تھی۔پیچھے پیچھے امی جان آرہی تھیں۔ ہم لوگ گلی میں دوڑ رہے تھے۔ سامنے ایک آدمی کھڑا ہوا اپنی طرف بُلارہا تھا۔ پاس جانے پرمعلوم ہوا کہ ہمارے اسکول کے ایک ماسٹر صاحب تھے اور سیدھی جانب اشارہ کر رہے تھے۔ اُنہوں نے سر گوشیوں میں کہا ”اسکول میں جائیں، اسکول میں جائیں۔ ہم اسکول کی طرف مُڑ گئے۔ آگے آگے ایک شخص لنگڑاتا اہوا چل رہا تھا۔ اُس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور جگہ جگہ خون کے دھبے تھے جب ہم گزرے اور پیچھے مُڑ کر دیکھا تو وہ کاظمی صاحب تھے۔ شیو بڑھا ہوا تھا، بال بکھرے ہوئے تھے۔ ایک بازو سے خون رِس رہا تھا اور وہ خالی خالی نظروں سے سامنے گھور رہے تھے۔ ابا میاں نے چلا کر کہا، ’کاظمی صاحب، اور باقی لوگ؟ اُنہوں نے ہاتھ چلا کر کہا،”سب ختم ہوگیا، سب ختم ہوگیا، اور اسی طرح لنگڑ ا لنگڑ ا کر چلتے رہے۔ ماموں جان نے مجھے گود سے اُتارا اور کاظمی صاحب کو سہارا دیا۔ اُنہوں نے جھٹک کر کہا، ”تم بچے کو سنبھالو، میں بھی پیچھے پیچھے آتا ہوں“۔ کالم نگار کی اس تحریر سے نہ صرف ان کے اسلوب کا اندازہ ہوتا ہے ساتھ ہی ان حالات اور واقعات پر درد بھری معلومات سامنے آتی ہیں۔
ڈاکٹر رفیع مصطفی نے سندھ یونیورسٹی سے ایک استاد کی حیثیت سے خدمات کا آغاز کیا، یہ زمانہ ان کے مطابق 1964ء کا تھا۔ پیش نظر ناول یکم جولائی 2020ء میں منظر عام پر آیا۔ اس وقت ناول نگار کینیڈا میں مقیم ہیں۔ مصنف کی یہ دوسری کتاب ہے۔ ڈاکٹر رفیع مصطفی کے اس ناول سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے کہانی اور افسانہ بھی لکھا ہوگا۔ اس لیے کہ ناول نگار بنیادی طور پر کہانی کار ہوتا، افسانہ نگار پھر ناول نگار بھی۔ ڈاکٹر رفیع مصطفی کے انگریزی زبان میں لکھے گئے افسانوں کا مجموعہ 2016ء میں بعنوان ”ٹیلز فرام بریھرا“ Tales From Birehra: a journay through a world within usاپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔ زندہ کتابوں کے بانی جناب راشد اشرف نے اس ناول کی اشاعت کا اہتمام کیا جب کہ فضلی بک کے زیر اہتمام اس ناول کا دوسرا ایڈیشن اگست2020ء میں شائع ہوا۔ پہلی بار یہ ناول جنوری 2019ء میں شائع ہوا تھا۔ ناول نگار نے خوب صورت انداز سے اپنے خیالات کی عکاسی اس طرح کی ہے کہ قاری جیسے جیسے ناول کا مطالعہ کرتے ہوئے آگے بڑھے گا، اس کی دلچسپی اور تجسس قائم رہے گا۔ زندگی کے اہم موضوع پر دلچسپ انداز سے ناول لکھنے پر مصنف کو دلی مبارک باد۔ (13مارچ2021ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1283688 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More