رکن الدین بیبرس

وه عالم اسلام کا ایک نایاب اور نامور سلطان تھا۔ وه ان گنت زبانوں پر عبور رکھتا تھا ۔ عربوں سے عربی میں ، منگولوں اور تاتاریوں سے تاتاری میں ، یونانیوں سے یونانی میں، حبشیوں سے ان کی زبان میں اور اس طرح دوسری اقوام سے ان کی زبان میں گفتگو کرنے کی مہارت رکھتا تھا سلطان بننے سے پہلے وہ جگہ جگہ ایک غلام کی حیثیت سے دھکے کھاتا پھرتا تھا لہذہ اس نے اس دوران میں مختلف زبانیوں میں مہارت حاصل کر لی تھی وقت کی آنکھ نے اسے کبھی ایک گڈریے کی صورت میں " دشت قپچاق " میں بھیڑ بکریاں چراتے ہوئے دیکھا ، آسمان نے اسے کبھی دمشق شہر میں برده فروشوں کی منڈی میں ایک غلام کی حیثیت سے بکتے دیکھا ، کبھی اس نے دمشق اور مصر کے امراء کی نوکری و چاکری کرتے ہوئے وقت گزارہ اور کبھی رزم گاہ میں ایک صف شکن لشکری کے سنگ میں بھی دیکھا گیا اور کبھی وقت کی تیز آنکھ نے اسے اسلامی لشکر کے سالار اعلی کی حیثیت سے بھی دیکھا ۔
مشہور امریکی مؤرخ ہئیر لڈیم اس کے متعلق لکھتا ہے ۔
اسے اپنے سوا کسی پر اعتبار نہ تھا اس لیے وہ بھیس بدل کر خود گشت لگاتا اور اپنے لیے خود ہی دشمنوں کی مخبری کرتا تھا ۔ وہ اپنے ہم پیالہ ، ہم نوالہ ساتھیوں کو چھوڑ کر تنہا نکل جاتا۔ کبھی اسے مصر میں دیکھا جاتا اور کبھی وہ دوسرے دن فلسطین میں نمودار ہوتا ۔ چار دن بعد لوگ اسے عرب کے ریگزاروں میں دیکھتے اور اس کے چند دن بعد وہ خانہ بدوشوں کی سی تیز رفتاری کسی دوسری جگہ لوگوں کو دکھائی دیتاجن دنوں وہ عالم اسلام کا سلطان بنا ان دنوں منگولوں نے مسلمانوں پر حملہ آور ہو کر ان کے بیشتر علاقوں کو تباہ و برباد کر دیا تھا اور ہلاکو خان مسلمانوں کے علاقوں میں دندناتا پھرتا تھاایک بار ایک منگول مغنی کے بھیس میں وه اکیلا و تنہا ہلاکو کی سلطنت میں داخل ہوا اور قریہ قریہ چل پھر کہ جاسوسی کرتا رہا ، چونکہ وہ مختلف زبانوں پر عبور رکھتا تھا اور جاسوسی میں بھی مہارت کا حامل تھا اس لیے کسی کو شک نہ ہوا کہ وہ مسلمان ہے یا مسلمانوں کا سلطان ،ایک دن اس نے منگولوں کے ایک شہر میں ایک دکان میں کھانا کھایا اور اپنی انگوٹھی جان بوجھ کر ایک محفوظ جگہ پر رکھ آیا ، اس کے بعد وہ اپنے علاقے میں آ گیا اور ایک قاصد بھیج کر ہلاکو خان کو کہلایا۔
٫٫ میں تمہاری مملکت میں حالات کا معائنہ کرنے
فلاں فلاں جگہ گیا تھا ۔ فلاں شہر میں فلاں
دکان پر اپنی شاہی انگوٹھی بھول آیا ہوں
مہربانی کر کے وہ انگوٹھی تلاش کر کے مجھے
مجھے بھجوا دو کیونکہ وہ انگوٹھی مجھے
بے حد عزیز ہے ۔ ،،
ہلاکو خان مسلمانوں کے سلطان کی اس جرأت اور جسارت پر ششدر رہ گیا اور وه اس کی دلیری سے ایسا مرعوب ہوا کہ اس کی انگوٹھی تلاش کر کے اس کی طرف بھیجوا دی ۔ منگولوں کو جب خبر ہوئی کہ مسلمانوں کا سلطان خود بھیس بدل کر ان کے علاقوں میں داخل ہوا تھا تو ان پر سلطان کی ہمت و شجاعت کی وجہ سے ایک دہشت اور خوف طاری ہو گیا تھا اور وه سوچنے لگے تھے کہ جس سلطنت کا حکمران اس قدر جری و جرأت مند ہو اس کے لشکریوں کا کیا عالم ہوگا اور ہم اس کا مقابلہ کیسے کریں گے ۔
ان دنوں کیونکہ بحیره روم کے ساتھ ساتھ مغرب کے صلیبیوں نے اپنے بڑے بڑے اڈے بنا لیے تھے جہاں سے نکل کر وه مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ کی ابتداء کرتے تھے ۔ ان میں زیاده نامور انطاکیہ کا حاکم بوہمینڈ تھا ۔ سلطان ایک مرتبہ ایک نصرانی زائر کا بھیس بدل کر صلیبیوں کے مقبوضہ علاقوں میں جا داخل ہوا اور کئی ماہ تک ان کے عسکری استحکامات ، قلعوں اور دوسرے کئی مقامات کا جائزہ لیتا رہا۔ وہ تقریباً بائیںس ایسے قلعے دیکھنے میں کامیاب ہو گیا جو ان دنوں صليبيوں کی عسکری قوت کا مرکز تھے اور یہ سارا کام اس نے تن تنہا کیا اور اس کے بعد اس نے ایک عجیب ستم ظریفی کی۔
اس نے ایک قاصد اور ایلچی کا روپ بدلا اور جنگل میں ایک ہرن کا شکار کر کے وہ ہرن لے کر انطاکیہ کے بادشاہ بوہیمینڈ کے دربار میں حاضر ہوا اور اسے وہ شکار پیش کر کے کہنے لگا۔
الملک الظاہر،"عالی جاه ! مجھے مصر کے سلطان نے بھیجا ہے پتا چلا ہے کیونکہ آپ شکار کا بہت شوق رکھتے ہیں اور ان دنوں شکار کے قابل نہی لِہٰذا انہوں نے یہ تازه شکار بطور ہدیہ بھیجاہے اسے قبول فرمائیے۔ میرے آقا آپ کے شکر گزار ہوں گے"سلطان جب گفتگو کرنے اور شمار بادشاه انطاکیہ کے حوالے کرنے کے بعد وہاں سے نکل گیا تو چند دن بعد انطاکیہ کے بادشاہ پر کسی نے انکشاف کیا کہ جو شخص تمہارے پاس ہرن کا شکار لے کر آیا تھا وہی مسلمانوں کا سلطان تھا۔
اس انکشاف پر نصرانیوں کے بادشاہ بوہیمنڈ پر خوف اور لرزه طاری ہو گیا تھا ایسے ناقابل یقین معرکے سرانجام دینے اور عین الجالوت پر پہلی بار منگولوں کو عبرت ناک شکست دے کر، مسلمانوں پر اپنی دہشت کا سکہ جمانے والے منگولوں کو سربازار گھما کر ذلت و رسوائی عطا کر کے مسلمانوں کے قلوب سے منگولوں کے خوف و دہشت کا غلبہ زائل کرنے والی اس نادر و نایاب اور جاہ و جلال کی سے مزین ہستی کا نام " رکن الدین بیبرس " تھا رکن الدین بیبرس منگولوں کی فتوحات اور مسلمانوں پر مظالم ڈھا کر اپنی دہشت کا سکہ جما کر حکومت کرنے والے ہلاکو خان کے متعلق کہا کرتے تھے کہ٫٫وقت آنے پر ہم ان کو بتا دیں گے کہ اللہ کیلئے لڑنے والے کبھی شکست تسلیم نہیں کیا کرتے ،، ۔
اور پھر وقت نے ثابت کیا کہ سلطان رکن الدین بیبرس اپنے قول و قرار کا کس قدر پاسدار تھا ۔
باوجود اس کے ، کہ دیگر نامور اسلامی شخصیات کی طرح تاریخ سے اس ذہین و فطین اور دلیر و بے باک ہستی کے نقوش بھی ایک منظم سوچ و سازش کے تحت بڑی سنگ دلی ، مہارت اور عیاری سے ممکنہ حد تک مٹا دئیے گئے لیکن کچھ مدھم نقوش ابھی بھی سلامت ہیں.

Copied
عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif
About the Author: عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif Read More Articles by عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif: 111 Articles with 199787 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.