’’روزن فردا‘‘۔۔۔ انیلہ حمید کی خوبصورت تخلیق

گزشتہ ڈھائی ماہ سے میرے سرہانے رکھی یہ کتاب '' روزنِ فردا '' مجھے بار بار اپنی جانب متوجہ کرتی رہی۔
مصروفیات نے کچھ ایسے دامن تھاما کہ چاہ کر بھی چھڑا نہ پائی لیکن کتاب کا خوبصورت '' ٹائٹل'' اور دور پردیس میں بیٹھی میری پیاری دوست انیلہ حمید۔ Anila Hameed۔ کی جانب سے چاہت و خلوص کے ساتھ بھیجی گئی کتاب مجھے مسلسل اپنی موجودگی کا احساس دِلاتی رہی سو مجھے اپنی مصروفیات میں سے جیسے ہی کچھ وقت ملتا کتاب تھام لیتی بالآخر کل میں نے دو دوستوں کی مشترکہ کاوش '' روزنِ فردا '' پڑھ ہی ڈالی۔
دونوں دوستوں نے اس کتاب کو خوبصورت کہانیوں سے سجایا ہے جس کے لئے دونوں کو دِلی مبارکباد۔
انیلہ حمید کے بارے میں بتاتی چلوں کہ یہ ادب کی دنیا کا جانا پہچانا نام ہے۔
ادب کی دنیا میں انیلہ کی ایک الگ پہچان ہے۔
انیلہ حمید دوشیزہ ڈائجسٹ کی ''ایوارڈ یافتہ '' مصنفہ ہیں جو بلاشُبہ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔۔۔۔
ایک بہترین مصنفہ ہونے کے ساتھ ساتھ انیلہ حمید بہترین دوست اور انتہائی مخلص و عاجزانہ شخصیت کی مالک ہیں۔
انیلہ جی سے تعلق بہت پرانا ہے، اور انہیں ہمیشہ سے مخلص پایا ہے۔دور دراز رہنے والی انیلہ دوستوں کے دل میں بستی ہیں۔
عرصہ دراز سے دیارِ غیر میں رہ کر بھی انیلہ حمید کا اردو سے لگاؤ قابلِ ستائش ہے۔ انیلہ کے قلم کی روانی بتاتی ہے کہ فرانس جیسے ملک کی پروردہ ہونے کے باوجود پاکستان کی ثقافت و روایات سے مکمل آگاہی رکھتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانے، ناولٹ مکمل طور پر پاکستانی معاشرے کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں۔
انیلہ کی مختلف تحاریر مقبول ڈائجسٹس و رسائل کی زینت بنتی رہی ہیں، ہر تحریر میں ان کے قلم میں تنوع پایا جاتا ہے۔ ان کا قلم ہر گز بھی یکسانیت کا شکار نہیں ہے۔ انیلہ نے جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا اُسے بھرپور نبھایا۔
روزنِ فردا میں شامل '' بھیگا آنچل'' پاکستان کے بگڑے رئیس زادوں کی مکمل نمائندہ تحریر ہے جو چیزوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کو بھی اپنی املاک تصور کرتے ہیں لیکن ان کا انجام بالآخر وہی ہوتا ہے جو واثق خان کا ہوا لیکن واثق خان کو اپنے جرم، اپنے گناہ کا احساس ہو گیا جبکہ حقیقت میں ایسے رئیس زادے زندگی کی بڑی سے بڑی ٹھوکر کھا کر بھی نہیں سنبھلتے۔۔ آئمہ بیگم جیسی مائیں اپنی انا و غرور میں بھول جاتی ہیں کہ وہ جو کچھ کر رہی ہیں اس کا خمیازہ اولاد کے ساتھ ساتھ انہیں بھی بھگتنا ہو گا۔ البتہ '' حسنہ '' جیسی لڑکیاں اپنی عزت کی، ماں باپ کی لاج کی خاطر لبوں پر قفل ضرور ڈال لیتی ہیں اور یہ ان کا صبر ہی ہوتا ہے جو مطلق العنان ہوس پرستوں کو منہ کے بل گرا کر بالآخر انہیں سرخ رو کرتا ہے۔ بیشک انیلہ نے '' بھیگا آنچل'' میں ایک مثبت پیغام دیا ہے اگر کوئی سمجھے تو۔
'' ایک تھی نیلو''
پڑھ کر دل گہرے دکھ سے بھر گیا۔
میں فیصلہ نہیں کر پائی کہ اس سارے قصے میں قصور وار کون تھا؟ سوتیلی ماں، باپ، نیلو کی ناآسودہ خواہشات یا وقت جس نے نیلو کو بے حس، انا پرست، خود غرض بنا کر معاشرے کا ایک معطل عضو بنا ڈالا؟
جو بھی تھا اس کی خود غرض اور شرپسندی بالآخر اُسے اذیت ناک انجام سے دو چار کر گئی۔
لڑکیاں عموماً سسرال سے نالاں ہوتی ہیں اور جن کے شوہر دیارِ غیر میں ہوں وہ اکثر عدم تحفظ کا شکار بھی ہوتی ہیں لیکن یہ ذمے داری بہرحال مرد پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماں، باپ بہن بھائی اور بیوی کے ساتھ منصفانہ سلوک کرے۔ تف ہے ایسے مرد پر جو اپاہج والدین، جوان بہنوں کی ذمیداریوں کو یکسر فراموش کر کے صرف بیوی کے گن گائے۔ نیلو کی بربادی میں ایک ہاتھ '' سجاد'' کا بھی تھا۔
مغربی ماحول کی نمائندگی کرتی '' آخری ملاقات''
آنکھیں نم کر گئی۔ '' دوستی '' کی ایسی مثال کہاں دیکھنے سننے کو ملتی ہے؟ یا ہوسکتا ہے مغربی معاشرے میں ایسا ممکن ہو لیکن پاکستان میں لوگ ایک دوسرے سے محض حسد و بغض میں ہی بازی لیجانے کی کوشش کرتے ہیں '' بے لوث دوستیاں '' تو کب کی عنقا ہو چکیں انیلہ جی۔۔۔۔۔
انیلہ آپ کی اس کہانی نے بہت متاثر کیا مجھے۔
''جونارتھن اور مغیث'' کے درمیان دشمنی، دوستی کا ایسا انوکھا امتزاج۔۔۔
اسپیشلی جونارتھن کے الفاظ سیدھے دل میں اتر گئے کئی پل کے لئے میری آنکھیں دھندلا گئیں انیلہ جب مغیث کے بیٹے سے ملاقات ہونے اور مغیث کی موت کا پتہ چلنے پر جونارتھن سوچتا ہے '' مجھے شدت سے احساس ہوا، مغیث کو میرے الفاظ نے اندر سے مار ڈالا تھا۔اور آج میرے الفاظ مجھ پر ہنس رہے ہیں ''
بیشک کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو دوسرے کو جیتے جی مار ڈالتے ہیں۔ بعد میں صرف پچھتاوے رہ جاتے ہیں۔
''بند مٹھی'' تاریخی پس منظر میں لکھی گئی اک دلسوز داستان۔۔۔۔
ہندوؤں کی وحشت، ظلم و بربریت کی دلدوز کہانی۔۔۔ جانے کتنی
'' صباحتوں'' کی عزت تار تار ہوئی، جانے حبیب اﷲ جیسے کتنے خاندان بنا جرم موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔ اور موہن داس جیسے کتنے ہی خاندان دوستی کا فرض ادا کرتے اپنوں کے ظلم کا شکار ہو کر دوستی کی بھینٹ چڑھ گئے ۔۔۔۔ بہت عرصے بعد ایسی تاریخی کہانی نے دل کو چھوا۔۔۔۔ ویلڈن انیلہ۔۔۔
پاکستان اور ہندوستان کے پس منظر میں لکھی جانے والی ایک اور داستان '' امنگ '' بیک وقت کبھی خوشی کبھی غم کے احساسات سے دوچار کر گئی۔ مسلمانوں کے خاندان پر بلوائیوں کے ڈھائے جانے والے ظلم و ستم پر لکھی گئی بے شُمار تاریخی کہانیوں میں'' امنگ'' بہترین اضافہ ثابت ہوئی۔ دو بہنوں ''آمنہ اور امنگ '' کے مدتوں بعد ہونے والے ملاپ نے اس یقین پر مہر ثبت کر ڈالی ''دنیا گول ہے''
'' ذرا سی لغزش پہ کاٹ دیتے ہیں
یہ رشتوں کے بھی دانت ہوتے ہیں''
''کفارہ'' اس شعر پر من و عن پوری اترتی دکھائی دی۔
روشانے کو بھی اپنی غلطی کا احساس مکافاتِ عمل کی بنا پراپنے اپاہج ہونے کے بعد ہوا لیکن دیر آید درست آید کے تحت آریان کو اپنی محبت '' ماہ رخ'' کی صورت مل گئی۔
انیلہ حمید راٹھور کے تمام افسانے، ناولٹ بلاشبہ بہترین ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ ایک اچھی کتاب میری الماری کی زینت بڑھا رہی ہے۔۔
انیلہ جی آپ کے قلم کے لیے دعا گو یوں کہ '' اﷲ کرے زورِ قلم اور زیادہ'' اور منتظر ہوں آپ کی اگلی سولو کتاب کی۔۔
 

Rehana Parveen
About the Author: Rehana Parveen Read More Articles by Rehana Parveen: 17 Articles with 21080 views میرا نام ریحانہ اعجاز ہے میں ایک شاعرہ ، اور مصنفہ ہوں ، میرا پسندیدہ مشغلہ ہے آرٹیکل لکھنا ، یا معاشرتی کہانیاں لکھنا ، .. View More