جمعہ نامہ: سیرت نبیﷺ کے آئینے میں فلسطین و اسرائیل جنگ

فلسطین میں اہل ایمان کا مقابلہ کسی ایک ملک سے نہیں بلکہ اس عالمی سپر پاور کے بغل بچے سے ہے جس کی حفاظت کو وہ عزیز از جان سھتا ہے۔ اس کا کھلا مظاہرہ نہ صرف اقوام متحدہ میں ہورہاہےبلکہ دوران جنگ اسلحہ فروخت کرکے بھی کیا جارہا ہے۔ ماضی میں امریکہ جنگ کے دوران اپنی کمک بھیج کر بھی اسرائیل کوتحفظ دے چکا ہے۔ اس لیے سیرت کے واقعات سے اگرموازنہ کرنا ہو توجنگ مؤتہ یا غزوۂ تبوک سے کرنا ہوگا۔ شُرحبیل بن عمرو کی قیادت میں نصرانیوں کی ایک لاکھ فوج جنگ مؤتہ کے میدان میں اور ایک لاکھ کی کمک راستے میں تھی ۔ اس کے مقابلے مسلمانوں کا لشکر محض تین ہزار پر مشتمل تھا۔جو لوگ اسرائیل کی طاقت کا حماس سے موازنہ کرکے پریشان ہوتے ہیں انہیں یہ فرق پیش نظر رکھنا چاہیے ۔ اس کے باوجود مسلمان نہ تو جنگ کامیدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے اور نہ بالکل پیس دیئے گئے۔یہ اندیشہ حماس کے حوالے سے کیا جارہاہے۔

موجودہ جنگ میں "القسام بریگیڈ" کے کمانڈر "حسن القہوجی (ابوعلی)" اور "وائل عیسی (ابواحمد)" کی شہادت کا غم بجا ہے مگر یہ بات بھی یاد رہے کہ جنگ مؤتہکے اندرپہلے حضرت زید بن حارثہؓ ، ان کے بعد حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ اور بالآخرحضرت عبداللہ بن رواحہؓ جیسے کمانڈرشہید ہو گئے تھے ۔ اس کے بعد حضرت خالد بن ولید ؓ کی حکمت عملی سے نصرانی لشکر پیچھے ہٹا اور وہ اپنی فوج کو بخیر و عافیت واپس لانے میں کامیاب ہوگئے ۔ اس بے نتیجہ جنگ کا اثر یہ پڑا کہ عرب اور شَرقِ اَوسط نے مسلمانوں کی طاقت کا لوہا مان لیا کیونکہ ایک اور ۳۳ کے مقابلہ میں بھی کفارکے مسلمانوں پر غالب نہیں آسکے۔ اس جنگ نے کسریٰ کے زیرِ اثر شام و عراق کے قبائل کو اسلام کی طرف متوجہ کیا اور وہ ہزاروں کی تعداد میں مسلمان ہوگئے ۔ ان میں روم کی عربی فوجوں کا کمانڈر فَروَہ بن عَمرو الجُذامی بھی شامل تھا۔ الحمدللہ حماس بھی عالمی سطح پراسی طرح اپنی طاقت کا لوہا منوا رہا ہے۔

مستقبل کے بارے میں فکرمند حضرات کو غزوہ تبوک پیش نظررکھنا چاہیے۔یہ اس وقت کی سپر پاور سے سیدھا تصادم تھا۔ یہاں بھی ایک لاکھ کے مقابلے تیس ہزار مجاہدین اللہ رب العزت کے اس حکم پر نکل کھڑے ہوے تھے کہ:’’نکلو، خواہ ہلکے ہو یا بوجھل، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو‘‘۔فی زمانہ پر لوگ جو مسلم ممالک کی بے عملی اور بے حسی کے مظاہرے سے پریشان ہیں ان کے ہیجان کا جواب اگلی آیت میں ہے ،فرمایا:’’اے نبی ؐ اگر فائدہ سہل الحصُول ہوتا اور سفر ہلکا ہوتا تو وہ ضرور آپ کے پیچھے چلنے پر آمادہ ہو جاتے، مگر ان پر تو یہ راستہ بہت کٹھن ہو گیا‘‘۔ جی سی سی کے اجلاس میں بلند بانگ دعووں کو سن کر یہ آیت یاد آتی ہے:’’ اب وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہیں گے کہ اگر ہم چل سکتے تو یقیناً تمہارے ساتھ چلتے!وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں ۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں‘‘۔

آگے کیا ہوگا یہ تو صرف رب ذوالجلال جانتا ہے لیکن غزوۂ تبوک کی کامیابی تاریخ کا حصہ ہے۔ جنگ مؤتہ کے اگلے سال قیصر نے اہل ایمان کو سزا دینے کے لیے فوجی تیاریاں شروع کر دیں ۔ نبی کریم ﷺنے بلا تامل کے قیصر سے لوہا لینے کا فیصلہ فرمایاحالانکہ مدینہ کے منافقین مسجد ضرار تعمیر کر کے اسلام کے بغل میں چھُرا گھونپنے کی تیاری کررہے تھے۔ اب بھی ایسا ہورہا ہے۔ ملک میں قحط سالی ، گرمی کا موسم ، فصلیں تیار ، سواریوں کی کمی اور بےسروسامانیکے ساتھ سرمایہ کا فقدان۔ ان مسائل کے باوجود اللہ کے نبی ؐ نے جنگ کا اعلانِ عام فرما دیا۔ آج بھی کورونا کی وبا اور دیگر مشکلات ہیں ۔ قیصر روم نے جب دیکھا کہ محمدﷺ مقابلہ پر پہنچ گئے تو اس نےخوفزدہ ہوکر سرحد سے فوجیں ہٹا لیں ۔ اسرائیل نے بھی غزہ کی سرحد پر فوج تو جمع کرلی مگر اس کو اندر بھیجنے کی ہمت نہیں جٹاسکا۔ روم جیسے سپر پاور پر آخری اور فیصلہ کن جنگ میں اخلاقی فتح درج کروا کر نبی کریم ؐ لوٹ آئے۔ قیصر روم کی مانند اسرائیل جیسی جابر طاقت آسانی سے شکست نہیں مانتی لیکن اسے ٹال بھی نہیں سکتی ۔ ماضی میں یہ ہوا ہے اور آگے بھی ہوگا ۔ ان شاء اللہ ۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1225137 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.