آسمانی نیلا رنگ

میں عام طور پر شلوار قمیض پہنوں تو وہ سفید یا سفید نما کسی ہلکے سے رنگ کی ہوتی ہے۔تھوڑا تیز رنگ ہو اور کسی دوسرے نے ایسا لباس پہنا ہو تو جانے کیوں میری حس ظرافت پوری طرح حرکت میں آ جاتی ہے۔ نوے کی دہائی میں میں ایک ایسے کالج میں تھا جہاں طلبا اور طالبات کو پڑھانے کے لئے مخلوط سٹاف تھا۔تیس کے قریب خواتین اور ہم اٹھارہ مرد۔ ایک اچھی بھائی چارے کی فضا تھی۔چائے کے وقفے میں سب اکٹھے ہوتے اور اس وقفے میں ہنسی مذاق کے ساتھ وقت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے۔ کسی نے تھوڑا شوخ لباس پہنا ہو تو میں شور مچا دیتا کہ آج تو فلاں نے توجہ دلانے والے کپڑے پہنے ہیں اور جب توجہ ہو گئی ہے اور پہننے والا ہر شخص کا مرکز نگاہ ہے تو پارٹی تو بنتی ہے۔ اسی طرح ہنستے کھیلتے شوخ لباس پہننے والا قابو آ جاتا ۔ پارٹی ہوتی اور رونق بنی رہتی۔وقت بدل گیا، بیس پچیس سال ہو گئے توجہ دلاؤ گروپ ختم ہو چکا۔ کوئی کہاں ہے ، کچھ فوت ہو چکے ،کچھ کا اتاپتا معلوم نہیں۔ جو باقی ہیں ان کو بھی اک دوجے سے ملنے کی فرصت اب کہاں۔ بس یادیں ہیں جو آج بھی ہمیں ان خوشگوار لمحوں میں پھر لے جاتی اور انسان کو مسرور اور شاداں رکھتی ہیں۔

میں نے اپنے لئے اپنے بھائی کو مارکیٹ سے چند انتہائی ہلکے رنگ کے سو ٹ لانے کا کہا۔ہلکے کا معیار میرے اور میرے بھائی کا قدرے مختلف تھا اس لئے وہ جو رنگ لایا وہ شوخ تو نہیں تھے لیکن اس قدر ہلکے نہیں تھے جو میں پہنتا ہوں بلکہ قدرے تیز تھے۔آج میں نے وہی رنگ پہنا تھا۔مہربانی ہے آن لائن ایجوکیشن کی کہ کہ میں گھر تک محدود تھا ورنہ میں بھی کسی توجہ دلاؤ گروپ کے قابو آکر پارٹی سے لطف اندوز ہو رہا ہوتا۔اس وقت جو میں نے سوٹ پہن رکھا ہے وہ ہلکے آسمانی رنگ کا ہے۔یہ ایک خوبصورت رنگ ہے۔ کسی توجہ دلاؤ گروپ کی زد میں نہ آئے کہ جسے رنگ سے زیادہ بھنگ ڈالنے میں دلچسپی ہوتی ہے تو جان لیں کہ آسمانی نیلا رنگ آسمان اور سمندر سے منسوب ہے۔ یہ کھلی فضا، آزادی، خوبصورت تصورات، تخیل اور تجسس کی علامت ہے۔ کہتے ہیں آسمانی نیلا رنگ پسند کرنے والے لوگ، بڑے گہرے، قابل اعتبار ، وفادار، مخلص ، ذہین، اور قابل بھروسہ ہوتے ہیں۔ آسمانی نیلا رنگ آپ کو صفائی اور اچھے پن کا تصور دیتا ہے۔نیلا رنگ بنیادی تین رنگوں میں شمار ہوتا ہے۔ دنیا کے تمام رنگ سرخ، پیلے اور نیلے رنگ کے ملنے سے ہی بنتے ہیں۔نیلے رنگ کی لہریں تیز تریں رفتار سے ( تقریباً 450 نینومیٹر کی رفتار سے) آنکھ تک پہنچتی ہیں۔

مردوں کی ایک بڑی تعدادہلکے نیلے رنگ کو پسند کرتی ہے کیونکہ یہ سکون اور شعور کا احساس دیتا ہے۔ ذہنی بوجھ کم کرتا ہے ۔ نیلا رنگ دیکھنے سے آپ کے اندر وہ کیمیکل بنتے ہیں جو انسان کو پر سکون کرتے اور بلڈ پریشر کم کرتے ہیں۔ آپ کے اندر روحانی طور پر سچائی حب الوطنی اور محفوظ ہونے کے جذبات کو فروغ دیتے ہیں۔ایک ریسرچ کے مطابق عورتیں سب سے زیادی نیلے رنگ کے سوئیٹر پہنتی ہیْْْْں اس لئے کہ انہیں پتہ ہے کہ مردوں کو نیلا رنگ پسند ہے۔ پیار محبت کے شیدائی لوگوں کے لئے نیلا رنگ امید کا پیامبر ہے۔ نئے آغاز کی نوید ہے ۔ کسی معجزے کی امید ہے۔یہ صحت، تندرستی ، نرم دلی اور اچھے تعلقات کی عبارت ہے۔ البتہ زیادہ گہرہ نیلا رنگ ، بے توجہی ، سرد مہری اور اداسی کی پہچان بن جاتا ہے۔زیادہ گہرے نیلے رنگ کو پسند کرنے والے خود سر، بے مروت اور اپنی ذات میں مگن رہنے والے لوگ ہوتے ہیں۔بھارت کے ہندو نیلے رنگ کو بد قسمتی کی علامت سمجھتے ہیں جب کہ چین میں اسے درد و الم کا رنگ کہا جاتا ہے۔ قدیم روم میں سرکاری ملازم اس رنگ کی وردی پہنتے تھے۔ یہی روایت صدیوں تک پوری دنیا میں چلتی رہی ۔ آج بھی بہت سی جگہوں اور بہت سے ملکوں میں پولیس نیلی وردی ہی پہنتی ہے جو اسی روایت کا تسلسل ہے۔برطانیہ میں کینسر کی کچھ اقسام کی نشاندہی اور علاج کے لئے بلو ربن کا استعمال کیا جاتا ہے۔ امریکہ کے تمام پوسٹ بکس نیلے ہوتے ہیں۔سب سے خوبصورت بات کہ مچھر اس رنگ کے کمال شیدائی ہیں۔ اگر آپ نے نیلا رنگ پہنا ہو تو مچھر کے کاٹنے کے مواقع دوسرے رنگوں کی نسبت دگنا ہوتے ہیں۔پھلوں اور سبزیوں میں یہ رنگ بہت کم نظر آئے گا مگر لباس میں دنیا میں سب سی زیادہ نیلے رنگ کی جین پہنی جاتی ہے۔دنیا کے 53 فیصد مما لک کے جھنڈوں میں نیلا رنگ شامل ہے۔

نیلی لڑکیوں کا نام بھی ہوتا ہے۔ کچھ سال پہلے ہماری فلموں میں نیلی نام کی ایک ہیروئین بھی ہوتی تھی جو اپنے وقت پر بہت مقبول تھی۔ کہتے ہیں ایک صاحب کو فلم ایکٹریس نیلی بہت پسند تھی۔ نیلی کے شیدائی وہ صاحب نیلی کی ایک تصویر ہمیشہ اپنے پرس میں بہت سجا کر رکھتے تھے۔ایک دن ان کے چھ سات سال کے بچے نے ان سے کچھ پیسے مانگے۔ پرس نکال کر پیسے دینے لگے تو بچے کی نظر نیلی کی تصویر پر پڑی۔ بچے ماں اور باپ کی کمزوریوں سے واقف ہوتے ہیں۔ باپ کے پرس میں نیلی کی تصویر دیکھ کر اس نے زور زور سے چلانا شروع کر دیا، ’’ماما نیلی، ماما نیلیـ‘‘۔ باپ نے گھبرا کر بچے کو ایک زور دار تھپر رسید کیا کہ چپ، اگر اب شور مچایا تو بہت ماروں گا۔ بچہ سہم کر چپ ہو گیا۔ اسی دوران اس کی ماں پہنچ گئی ۔ پوچھنے لگی کہ یہ کیوں رو رہا ہے ۔ باپ نے کہا ، ’’پاگل ہے ویسے ہی شور مچا رہا ہے، منع کر دیا ہے اب بولے گا تو بہت مار کھائے گا۔ بچہ مزید سہم گیا۔ ماں نے پھر پوچھامگر یہ نیلی نیلی کی کیا رٹ لگائی ہوئی تھی۔باپ ہنسا اور بولا،’’ تمہاری ایک تصویر پرس میں رکھی ہوئی تھی ، پڑی پڑی نیلی ہو گئی ہے تو اس احمق نے شور مچا دیا ہے، ایک تازہ فوٹو دے دینا بدل لوں گا۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 21 Articles with 21289 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.