جلی ہوئی رسی کے بل

ایک بڑے مغربی ملک کا ایک بڑا شہر ہے اس کا ایک مخصوص علاقہ دیسیوں کی آماجگاہ ہے ۔ ایک شام چند دیسی چھڑے اکٹھے بیٹھے آپس میں خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔ وہیں ایک ادھیڑ عمر صاحب بھی سنجیدہ صورت بنائے بیٹھے تھے ۔ ان کی سیدھی سادی دیہاتی بیگم اب ذرا بیمار وغیرہ رہنے لگی تھی پھر بھی ان کی خدمت و تابعداری میں کوئی کمی نہ پڑنے کی پوری کوشش کرتی تھی ۔ مگر صاحب عالم اکثر ہی شاکی و ملول نظر آتے تھے ۔ ایک نوجوان نے انہیں مخاطب کیا چاچا جی! آپ دوسری شادی کیوں نہیں کر لیتے؟
چاچا جی نے چونک کر دیکھا اور ایک ٹھنڈی آہ بھری
کر تو لوں پر اب دیر بہت ہو گئی ہے
سب جنے گلا پھاڑ کر ہنسے اور ہنستے ہنستے دوہرے ہو گئے ۔ چاچا جی کے چہرے پر بھی ایک خجل سی مسکراہٹ بکھر گئی
موج مستی کی اس فضا میں یہ سوچنے کی کسے فرصت تھی کہ کوئی عورت ایک ایسے شخص کو face کر رہی ہے جو confess کر رہا ہے کہ اس کی دیر ہو چکی ہے ۔ مگر کچھ لوگ رسی کی طرح ہوتے ہیں کہ جل جاتی ہے مگر اس کے بل نہیں جاتے ۔ حالانکہ یہ بل بس ایک پھونک کی مار ہوتے ہیں ۔
 

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 225 Articles with 1689338 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.