میرے خوابوں کی راجدھانی ۔۔۔میرا گلگت

میں نے زندگی کا پہلا سانس لیا تو وہ گلگت کی فضا تھی ،میری آنکھ نے جو پہلا منظر دیکھا وہ گلگت کا تھا ،میرے وجود سے پہلی ہوا گلگت کی ٹکرائی تھی ،میرے ننھے سے شعور کی ابتدائی تمام یادیں گلگت سے وابسطہ ہیں ،اپنے بہن بھائیوں سے شرارتیں ، مجاہد کالونی کونوداس کی گلیوں میں تین پہیوں والی سائیکل چلانا، چاند کی چاندنی میں دریائے گلگت کا محسور کن شور ،اپنے گھر کی چھت پر بیٹھ کر فوجی گراؤنڈ میں فوجی پریڈ دیکھنا،سکول جاتے ہوئے ایک دوسرے پر برف کے گولے بنا کر مارنا ،واپسی پر سب کی شکایتیں لگانازندگی کا سب سے پہلا ٹی وی بھی کونوداس والے گھر میں دیکھا وہ تھا بھی تھری ان ون ۔ریڈیو ،ٹیپ اور ٹی وی اس میں ایک ہفتہ واری سیریز لگتی تھی’’ ائیر وولف‘‘ پورا ہفتہ اسی کا انتظار رہتا میں اور مجھ سے ایک سال بڑے بھائی ہم گھر میں موجود باغ کے درختوں پر چڑھ کر ائیر وولف کی نقل کیا کرتے اور جنگیں لڑا کرتے تھے ،اس میں موجود ریڈیو میں اپنے والد صاحب کی خوبصورت آواز میں نعت سناکرتے تھے جو ہمارے آنے کے کئی سال بعد بھی نشر مکرر کی جاتی رہی کیا خوبصورت آواز میں پڑھا کرتے تھے
ہم پہ ہو تیری رحمت جم جم
تیرے ثنا خاں عالم عالم
صلی اﷲ علیہ وسلم
اس امت کی نبضیں ڈوب رہی ہیں ڈوب چکی ہیں
دھیرے دھیرے مدھم مدھم
صلی اﷲ علیہ وسلم

رب کے حضور سب سے پہلا ننھا منا سا سجدہ بھی گلگت کی سرزمین پر کیا ،پہلی دفعہ توتلی زبان میں لفظ ـــ’’اﷲ ‘‘اور پہلا کلمہ پڑھا تو اس کی گواہی بھی انشاء اﷲ گلگت کی فضائیں دینگی،الف ،ب ، ت کے شعوری سفر کی ابتداء بھی گلگت ہی میں ہوئی۔

ہفتہ میں ایک مرتبہ مغرب کی بعددریائے گلگت جاتے اور چور سپاہی کھیلتے ،دریائے گلگت اور ہمارے گھر کے درمیان صرف سڑک تھی دو ،تین منٹ میں پیدل پہنچ جاتے اور ہاں سب سے پہلے دریامیں مچھلی تیرتے دیکھی تو اسے پکڑنے کی کوشش میں کتنی مرتبہ گرا تھا سب کچھ تھوڑ ا تھوڑا یا د ہے ،نجانے کتنی کاغذ کی کشتیاں دریائے گلگت میں بہائیں ایک تو بچپن یعنی زندگی کا سب سے خوبصورت وقت اور دنیا کی سب سے خوبصورت وادی گلگت بچپن تو یاد گار ہونا ہی تھا ۔

زندگی کی پہلی عیدیں گلگت میں کیں اور ظاہر ہے پہلی عیدی بھی وہیں ملی ،اور سب سے پہلی کتابوں(بچوں کی کہانیاں) کی خوشبو بھی گلگت کی ہواؤں کے دوش پر ایسی روح میں اتری کی زندگی اور کتابیں لازم و ملزوم ہوگئیں،اباجان مرحوم مہینے میں ایک دوبار گلگت کے مضافات میں سیر کو لے جاتے تو جیسے ہماری عید ہوجاتی ،گلگت کے پہاڑوں پر بھاگ کر چڑھنا ، ایک پتھر کو ٹارگٹ بنا کر اسے ہاتھ لگانے کی دوڑ میں شریک ہونا اور پھر بڑے بہن بھائیوں نے جان بوجھ کر مجھ سے ہار جانا اور میں نے جیت کی خوشی میں دور سے ہی نعرے لگانے میں جیت گیا میں جیت گیا ،ایک وقت کا کھانا کسی باغ میں بیٹھ کر کھانا وہیں کوکنگ کرنا ،لوگوں نے اپنے باغات میں کچھ حصہ مخصوص کیا ہوتا تھا کہ راہگیر یا سیر پر نکلی فیملیز وہاں آرام سے بیٹھ کر پکنک منا سکیں یہ سب کچھ کتنا محسور کن تھا ۔

ہم تین بھائی دو بہنیں ہیں اور میں سب سے چھوٹا میرے اباجان مرحوم گلگت ہائی سکول نمبر ۱ میں عربی ، اسلامیات کے ٹیچر تھے اور پاک آرمی کی سیپر مسجد جوٹیال میں خطیب بھی تھے ،میری پیاری ماں جی مرحومہ مجاہد کالونی کونوداس میں مڈل سکول فار وومن میں ٹیچر تھیں ، ایک ڈیڑھ کنال میں مشتمل ذاتی گھر تھا جس میں سے آدھے گھر کو باغ بنایا گیا تھا ،گراسی پلاٹ کے اردگرد خوبصورت پھول، انگوروں کی بیل تھی پھر باغ شروع ہوتا تھا جس میں جاپانی پھل ،بادام،انگور،سیب ،خوبانی وغیرہ کے درخت تھے زندگی میں راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا کہ صدر پاکستان جنرل محمد ضیاالحق کو شہید کردیا گیا اس کے بعد گلگت کے حالات خراب ہوئے اور ہمیں اونے پونے سب کچھ بیچ باچ کر پنجاب شفٹ ہونا پڑا ور۔۔۔۔اور۔وہ زندگی بھی گلگت میں ہی کہیں رہ گئی۔

آج کتنے سال گذرگئے لیکن یادوں کے دریچوں سے حسرتوں کے محلات تک سب میں گلگت ہی گلگت ہے ہاں ایک مرتبہ 1995میں چند ہفتوں کے لئے ماں جی کے ساتھ گیا تھا گلگت اپنے گھر کی دیواروں کو ہاتھ لگایا تو یوں لگا جیسے وہ دوبارہ جی اٹھے ہوں ،ایسے لگا زندگی دوبارہ سانس لینے لگی ،محسوس ہوا کہ آنکھوں میں منظر بہتر ہونے لگے ہیں لیکن واپس تو آنا تھا اپنے گھر کے اجڑے ہوئے باغ کو تسلی دی تھی کہ دل کا عالم بھی یہی ہے،سیمنٹ کے بلاکوں کا بنا وہ گھر یادوں کا ریشمی محل ہے ،اس کے آنگن میں بلی کے بچوں کے پیچھے پیچھے بھاگتے ہوئے شور مچانا ،کیسے بھول سکتا ہے،دریائے گلگت کی محسور کن آواز،شینا زبان کے چند الفاظ،چنار باغ میں کی جانی والی شرارتیں ،وہ لکڑی کا پل جس سے گذر کر بازار جایا کرتے تھے ،دریائے گلگت اور دریائے ہنزہ کا سنگم ،اس کے قریب ایک سرنگ بھی تھی جس سے گذر کر نجانے کہاں جایا کرتے تھے شاید کچھ یاد گاریں تھیں وہاں ،اور کونوداس کے بالکل سامنے دریا کے پار ،امپھری محلہ جس کے ایک مکان میں میری پیدا ئش ہوئی تھی ۔سردیوں کی چھٹیوں میں پنجاب آیا کرتے تھے لاہور یا اسلام آباد وہیں سے واپسی ہوجاتی کبھی تو فلائٹ دو تین لیٹ ہوجایا کرتی تھی کہ مطلع ابر آلود ہوتا۔

ننھے سے ذہن کے کینوس پر بکھری یادیں ذہنی پختگی کے ساتھ ساتھ اوجھل ہونے کی بجائے پختہ ہوتی گئیں،گلگت کے نام پر دل آج بھی ویسے ہی مچلتا ہے جیسے بچپن میں مچلتا تھا ،گلگت سے تقریباً تیس سالہ دوری بھی اس سے محبت یااس کی بانہوں میں سمانے کی تڑپ کو کم نہ کرسکی ،گلگت واقعی گلگت ہے دنیا کی جنت اور میرے خوابوں کی راجدھانی ۔

اور آخر میں گزارش ہے کہ آج کل وہاں کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم پورے پاکستان سے ان ایریاز میں سیرو تفریح کے لئے جاتے ہیں تو اس بات کا بالکل خیال نہیں کرتے ہمارا لائف سٹائل وہاں کے سادہ لوح ،ملنسار،محبتو ں میں گندھے ہوئے لوگوں کے طرزِ زندگی کو شدید متاثر کررہا ہے ۔تصنع اور ریا کاری سے پاک ان معاشروں کو اسی حالت میں رہنے دیں ،وہاں جاکر ان کے تمدن کو متاثر مت کریں کہ وہ تمدن اور لائف سٹائل
ان پہاڑوں کی خوبصورتی سے مل کر ہی اس خطے کو جنت نظیر بناتا ہے ۔
٭٭٭٭٭
 

Sufian Ali Farooqi
About the Author: Sufian Ali Farooqi Read More Articles by Sufian Ali Farooqi: 28 Articles with 27325 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.