حضرت اِمام رفاعی کی منفرد کرامت

سلطان الاولیاء و العارفین حضرت سیدنا امام احمد الرفاعی الحسینی قدس اللہ سرہ سلسلہ مبارکہ رفاعیہ کے جلیل القدر بزرگ اور مؤسس ہیں۔ آپ قدوۃ الاقطاب شیخ عبد القادر الجیلانی الحسنی قدس اللہ سرہ کے ہم عصر ہیں اور دونوں بزرگ ایک دوسرے سے واقف اور ایک دوسرے کے علمی و دینی کمالات کے قائل اور معترف رہے ہیں۔

یاد رہے کہ سلسلہ مبارکہ رفاعیہ اہل سنت کے سلاسل طریقت میں سے ایک معروف سلسلہ ہے جو عرب و عجم میں پھیلا ہوا ہے اور اس وقت بھی عرب و عجم میں اس سلسلے کے مشایخ دین اسلام کی تعلیمات و ہدایات کی ترویج اور نشر و اشاعت میں کوشاں ہیں۔ الحمدللہ علی ذلک

سیدی امام احمد رفاعی کی ایک منفرد کرامت کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ انہوں نے ۵۵۵ھ میں جب حج کیا اور روضہٴ اقدس پر حاضر ہوئے تو عرض کیا: السلام علیک یا جدّي (دادا جان السلام علیک) جواب مسموع ہوا وعلیک السلام یا ولدی (بیٹا! وعلیک السلام) اس پر ان کو وجد ہوا اور بے اختیار یہ اشعار زبان پر جاری ہوئے۔
في حالة البعد روحی کنت أرسلھا
تقبل الأرض عني و ھي نائبتي
و ھذہ نوبة الأشباح قد حضرت
فامدد یمینک کي تحظی بھا شفتی

ترجمہ : ”جب ہم دور تھے تو اپنی روح کو اپنا نائب بناکر بھیج دیا کرتے تھے وہ روضہٴ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر زمین بوس ہوجایا کرتی تھی، اب جسم کی باری آتی ہے، ذرا اپناد ست مبارک بڑھائیے؛ تاکہ میرا لب اس سے بہرہ ور ہوسکے اور ہونٹوں کو (بوسہ) کی دولت نصیب ہوجائے۔“

علامہ جلال الدین السیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے کہ اس وقت روضہٴ اقدس کے اندر سے ایک نہایت نورانی ہاتھ ظاہر ہوا (جس کے روبرو آفتاب کی روشنی بھی ماند تھی) در حقیقت وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک تھا، انہو ں نے آگے بڑھ کراسے بوسہ دیا اور ان پر ایک خاص کیفیت طاری ہوگئی، اور پھر وہ ہاتھ غائب ہوگیا، مگر کیفیت یہ ہوئی کہ تمام مسجد نبوی میں نور ہی نور پھیل گیا، ایسا نور کہ اس کے سامنے آفتاب کی بھی حقیقت نہ تھی، اور واقعی آفتاب کی، اس نور کے سامنے کیا حقیقت ہوتی، ایک بزرگ سے جو کہ اس واقعہ میں حاضر تھے کسی نے پوچھا کہ آپ کو رشک تو بہت ہوا ہوگا، فرمایا ہم تو کیا! اس وقت ملائکہ کو بھی رشک تھا کہ ہمیں بھی یہ دولت نصیب ہوتی (دیکھئے خطبات حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانوی: ۱۴/۲۰۲)

اگرچہ بعض ظاہر پرست اور تصوف سے دلچسپی نہ رکھنے والے علماء نے اس واقعہ کا انکار کیا ہے؛ لیکن محققین علماء نے اس واقعہ کی صحت پر شبہ نہیں کیا ہے مگر کبار علماء کی بڑی جماعت نے اس واقعہ کوتسلیم کیا ہے اور خاتمۃ الحفاظ علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے تو باقاعدہ اس کی تحقیق و ثبوت میں ایک مستقل رسالہ ”شرف محتم“ تحریر فرمایا ہے۔

علاوہ ازیں علاّمہ صفوری الشافعی (م: ۸۹۴ھ) نے تو ان اشعار کو نقل کرکے یہاں تک لکھا ہے:
ولا إنکار في ذلک فإنَّ إنکار ذلک یوٴدّي إلی سوء الخاتمة والعیاذ باللہ و إن کرامات الأولیاء حق ، والنبی صلی اللہ علیہ وسلم حي في قبرہ سمیع بصیر منعم فی قبرہ (نزھة المجالس و منتخب النفائس: ۱/۱۹۰)

اس واقعے کا انکار کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہےبلکہ اس کا انکار بُرے خاتمے کا سبب بھی بن سکتا ہے، کیوں کہ اولیاء کرام کی کرامات برحق ہیں اور نبی کریم ﷺ اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں اور سنتے ودیکھتے ہیں اور اپنی قبر میں نعمتوں سے لطف اندوز ہیں۔
 

mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 343144 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.