اسلامی عائلی قوانین کا نفاذ گھریلو تشدد کےمسئلے کا بہترین حل ہے

ہمارے بچے ہمارا سرمایہ ہیں یہ ہمارے ملک اور قوم کا مستقبل ہیں ماں باپ اپنے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کے لئے دل و جان سے کوشاں رہتے ہیں ہر طرح کی قربانی دیتے ہیں ان کی تمام ضروریات پوری کرتے ہیں تاکہ وہ مستقبل میں لائق فائق بن کر ان کا سہارا بنیں اور ملک و قوم کا نام روشن کریں یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے نوجوانوں کا شمار دنیا کے ذہین ترین افراد میں ہوتا ہے ان کی ذہانت کی دھوم پوری دنیا میں ہے آکسفورڈ یونیورسٹی کے کئی ریکارڈ پاکستانی طالب علموں کے نام ہیں ارفع کریم کے نام سے کوئی کون واقف نہیں دنیا کی کم عمر ترین آئی ٹی ایکسپرٹ کا تعلق پاکستان ہی سے تھا پاکستان کے کئی ڈاکٹرز انجینئرز سائنسدان بیرون ملک اپنے اپنے شعبہ جات میں ملک کی نیک نامی کاباعث ہیں اس لیے کہ ان کی تربیت اور تعلیم میں ان کے ماں باپ اور خاندان کی کاوشوں اور محنتوں کا ایک بڑا حصہ ہے گویا خاندان ہی وہ ادارہ ہے جہاں سے ذہین اور قابل افراد تیار ہو سکتے ہیں اور ایک پتھر کو ہیرا بننے کا موقع ملتا ہے۔ تربیت کا یہ انتظام ہمارا دین ہمیں عطا کرتا ہے جس نے حقوق اور فرائض کے ذریعے افراد کو ایک دوسرے سے جوڑ رکھا ہے ماں باپ، اولاد ،رشتےدار، اساتذہ کے حقوق اور فرائض ملکر ایک خوبصورت اور تعمیری معاشرہ تشکیل دیتے ہیں۔

جون کے مہینے میں سینٹ میں گھریلو تشدد سے بچاؤ کے نام سے ایک بل منظور کیا گیا بظاہر عورتوں کو بےجا تشدد سے بچانے کے لیے تھا مگر اس کے مندرجات اسلام کے عائلی قوانین سے سراسر متصادم ہیں یہ بل کھلم کھلا خاند ان مرد و خواتین اور بچوں کے درمیان تفریق پیدا کرنے کے مترادف ہے یہ بات قابل غور ہے کہ خاندان میں اصلاح کے لیے اسلامی تعلیمات اور قوانین کے ہوتے ہوئے مغربی طرز کی اس بل کو منظور کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی پاکستان ایک اسلامی ملک ہے یہاں کوئی ایسا قانون اور بل منظور نہیں ہوسکتا جو اسلامی تعلیمات سے متصادم ہو اس میں بیوی اور بچوں سے کسی معاملے میں سختی اور باز پرس کرنے پر باپ کو قید اور جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے باپ جو کہ گھرانے کا سربراہ ہوتا ہے اپنی بیوی اور بچوں کا کفیل و نگران بھی ہوتا ہے اس سے اس کے حقوق چین لینا گھر کے ادارے کو تباہ کر دینے کے برابر ہے جبکہ اس قسم کے اقدامات کے نتائج مغربی ممالک میں سرعام بکھرے پڑے ہیں وہاں لوگ نکاح کرنے کو ترک کر رہے ہیں انہی قوانین کی بدولت جس کے باعث خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے مرد خاندان کی ذمہ داری اٹھانے کے لئے تیار نہیں اور عورت معاش اور بچوں کی پرورش کی دوہری ذمہ داری کو اٹھانے کے قابل نہیں جس کے باعث معاشرہ انتشار کا شکار ہے جرائم کی کثرت ہے عورت عدم تحفظ کا شکار ہے عورت کے خلاف جرائم عروج پر ہیں اس سے اس کا خاندان چھین کر اسے در بدر کر دیا گیا ہے۔

دین اسلام ایک ضابطہ حیات کے طور پر مرد کو خاندان کا نگران بنا کر اسے ذمہ داریاں دے کر کچھ حقوق بھی دیتا ہے جس طرح کسی ادارے کے سربراہ کے احکام کی خلاف ورزی اس ادارے کی تباہی کا سبب بنتی اسی طرح خاندان کے سربراہ کو بے اختیار کر دینا خاندان کو ختم کر دینا ہے

مغربی قوانین انسانوں کے بنائے ہوئے اصولوں پر مبنی ہیں ان کو جوں کا توں لاکر اپنے ملک میں نافذ کر دینا ہمارے لیے کسی طرح بھی مناسب نہیں یہ عمل اپنے پیر پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے اسلامی قوانین کو بروئے کار لاتے ہوئے عورتوں پر بےجا تشدد کو روکا جائے تو اس کے بہترین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے پردگی دین سے دوری جرائم کی شرح میں اضافے کی بڑی وجہ ہے اس صورتحال کی سے نمٹنے کے لیے شراب اور نشے کی دوسری اقسام پر پابندی لگاکر میڈیا کے ذریعے اصلاحی پروگراموں کے ذریعے لوگوں میں قرآنی تعلیمات کی آگاہی پیدا کی جائے جرائم اور فحاشی کی تشہیر پر پابندی لگائی جائے تو نہ صرف گھریلو تشدد بلکہ عورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم پر ناصرف قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ اس طریقے سے خاندان کے ادارے کو بھی مضبوط کیا جا سکتا ہے جو ملک و قوم کی ترقی کے لئے بہت ضروری ہے ۔
مہناز ناظم

 

Mehnaz Nazim
About the Author: Mehnaz Nazim Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.