عبدﷲ بن حذافہ بن قیسؓ کے سر کو بوسہ

آج مسلم دنیا کمال کی بجائے زوال کا شکار ہے۔اسلام امن اور بھائی چارے کے دین کی شکل بگارڈ کر اسلام کو دہشت گرد کے طور پر دیکھایا جاتا ہے ۔ہمارے زوال کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک وجہ اپنی تاریخ سے چشم پوشی ہے ۔آج ہمارے اصل ہیروکا تصور ہمارے دل و دماغ سے کھرچ کھرچ کر نکالا جا رہا ہے ۔ جلتی پر تیل کا کام ہمارے نصاب میں اسلامی ہیرو کی بجائے آئیں بائیں شائیں شامل کر کے ہمیں صرف گمراہ ہی نہیں بلکہ ہمارے شاندارماضی کے زندہ جاوید مہکتے ستاروں اور اصل ہیرو ز سے دور کرنے کی ناپاک کوششیں جاری ہے !
آج ہم ماضی کے ایک اسلامی ہیرو جن کو تاریخ ایک نوجوان صحابی عبد اﷲ بن حذافہ بن قیس السھمی رضی اﷲ عنہ کے نام سے جانتی ہے ان کازکر کرتے ہیں
حضرت عمربن الخطاب رضی اﷲ عنہ نے روم سے لڑنے کے لیے ایک فوجی دستہ روانہ کیا، اس دستے میں ایک نوجوان صحابی عبد اﷲ بن حذافہ بن قیس السھمی رضی اﷲ عنہ بھی تھے۔ مسلمانوں اور روم کے بادشاہ لڑائی نے طول پکڑ لیا، قیصرنے حکم دیاکوئی جنگی قیدی ہو تو حاضر کیا جائے۔ عبد اﷲ بن حذافہ کو لا کر حاضر کیا گیا جن کے ہاتھوں اور پاؤں میں ہتھکڑیاں تھی، -
قیصر: نصرانیت قبول کر لے تمہیں چھوڑ دونگا۔
عبد اﷲ: نہیں قبول کروں گا۔قیصر: ننصرانیت قبول کر لے آدھی سلطنت تمہیں دے دوں گا
عبد اﷲ: نہیں۔قیصر: نصرانیت قبول کر لے آدھی سلطنت دوں گا اور تمہیں حکمرانی میں شریک کروں گا
عبد اﷲ: نہیں، اﷲ کی قسم اگر تم مجھے اپنی پوری مملکت، اپنے آباواجداد کی مملکت،عرب وعجم کی حکومتیں بھی دے دو تو میں پلک جھپکنے کے برابر بھی اپنے دین سے منہ نہیں موڑوں گا۔
روم کا بادشاہ قیصر غضبناک ہوا اور کہا: تجھے قتل کر دوں گا،عبد اﷲ: مجھے قتل کردے۔
قیصر نے حکم دیا کہ ان کو ایک ستون پر لٹکا کر ان کے آس پاس تیروں کی بارش کی جائے (ڈرانے کے لیے) پھر اس کو عیسائیت کو قبول کرنے یا موت کو گلے لگانے میں سے ایک بات کا اختیار دیا جائے۔جب قیصر نے دیکھا کہ اس سے بھی بات نہیں بنی اور وہ کسی حال میں بھی اسلام چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تو حکم دیا کہ اسکو قید میں ڈال دو اور کھانا پینا بند کر دو۔۔۔ عبد اﷲ کو کھانا پینا نہیں دیا گیا۔یہاں تک کہ پیاس اور بھوک سے موت کے قریب ہو گئے تو قیصر کے حکم سے شراب اور خنزیر کا گوشت ان کے سامنے پیش کیا گیا۔۔۔
جب عبد اﷲ نے یہ دیکھا تو کہا: اﷲ کی قسم مجھے معلوم ہے کہ میں وہ مضطر(پریشان حال) ہوں جس کے لیے یہ حلال ہے، مگر میں کفار کو خوش کرنا نہیں چاہتا، یہ کہہ کرکھانے کو ہاتھ بھی نہ لگایا۔ یہ بات قیصر کو بتائی گئی تو اس نے عبد اﷲ کے لیے بہترین کھانا لانے کا حکم دیا، اس کے بعد ایک حسین وجمیل لڑکی کو ان کے پاس بھیجا گیا کہ ان کو چھیڑے اور فحاشی کا مظاہر ہ کرے۔۔۔اس لڑکی نے بہت کوشش کی مگر عبد اﷲ نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی اور اﷲ کے ذکر میں مشغول رہے۔۔۔
جب لڑکی نے یہ دیکھا تو غصے سے باہر چلی آئی اور کہا: تم نے مجھے کیسے آدمی کے پاس بھیجا میں سمجھ نہ سکی کہ وہ انسان ہے یا پتھر؟۔۔۔ اﷲ کی قسم اس کو یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ میں مذکر ہوں یا مونث!!
جب روم کے بادشاہ قیصر کا ہر حربہ ناکام ہوا اور وہ عبد اﷲ کے بارے میں مایوس ہوا تو ایک پیتل کی دیگ منگوائی اور اس میں تیل ڈال کر خوب گرم کیا اور عبد اﷲ کو اس دیگ کے سامنے لایا اور ایک دوسرے مسلمان قیدی کو زنجیروں سے باندھ کر لایا گیا اور ان کو اٹھا کر اس ابلتے تیل میں ڈالا گیا جن کی ایک چیخ نکلی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی ہڈیاں الگ ہو گئیں اور تیل کے اوپر تیرنے لگی، عبد اﷲ یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے، اب ایک بار پھر قیصر عبد اﷲ کی طرف متوجہ ہوا اور نصرانیت قبول کرنے اور اسلام چھوڑنے کی پیش کش کر دی مگر عبد ﷲ نے انکار کر دیا۔
قیصر غصے سے پاگل ہو نے لگا اور حکم دیا کہ اس دیگ میں موجود تیل اٹھا کر عبد اﷲ کے سر پر ڈال دیا جائے، جب قیصر کے کارندوں نے دیگ کھینچ کر عبد اﷲ کے قریب کی اور اس کی تپش کو عبد اﷲ نے محسوس کیا تو وہ رونے لگے!!
آپ کی ان خوش نصیب آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے جن آنکھوں نے رسول اﷲ ﷺ کا چہرہ انور دیکھا تھا!!یہ دیکھ کر قیصر خوشی سے جھومنے لگا اور کہا: عیسائی بن جاو معاف کر دوں گا۔
عبد اﷲ نے کہا: نہیں۔ بادشاہ قیصر: تو پھر رویا کیوں؟
عبد اﷲ: اﷲ کی قسم میں اس لیے رو رہا ہوں کہ میری ایک ہی جان ہے جو اس دیگ میں ڈالی جائے گی۔۔۔ میری یہ تمنا ہے کہ میری میرے سر کے بالوں کے برابر جانیں ہوں اور وہ ایک ایک کر کے اﷲ کی راہ میں نکلیں۔۔۔یہ سن کر قیصر نے مایوسی کے عالم میں عبد اﷲ سے کہا: کیا یہ ممکن ہے کہ تم میرے سر کو بوسہ دو اور میں تمہیں رہا کروں؟عبد اﷲ: اگر میرے ساتھ تمام مسلمان قیدیوں کو رہا کر تے ہو تو میں تیرے سر کو بوسہ دینے کے لیے تیار ہوں۔
قیصر: ٹھیک ہے۔عبد اﷲ نے اپنے ساتھ دوسرے مسلمانوں کو رہا کرنے کے لیے اس کافر کے سرکوبوسہ دیا اور سارے مسلمان رہا کر دیے گئے۔
جب واپس حضرت عمر بن الخطاب کے پاس پہنچ گئے اور آپ کو واقعہ بتا دیا گیا۔توحضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے کہا: عبد اﷲ بن حذافہ کے سر کو بوسہ دینا ہر مسلمان پر ان کا حق ہے اور خود اٹھے اور عبد اﷲ کے سر کو بوسہ دیا۔ رضی اﷲ عنھم,
آج ضرورت اس امر کی ہے اپنے شاندار مستقبل کے لئے اپنے یادگار ماضی سے آنے والی نسلوں کو روشناس کروایا جائے تاکہ فلمی اور نام نہاد ہیروز سے متاثر ہونے کی بجائے اﷲ اور اﷲ کے رسول ﷺ کے اصل ہیروز کی زندگیوں سے استفادہ حاصل کر کے دنیا اور آخرت کی کامیابیاں حاصل کی جائیں ۔
۔۔۔۔۔
 

Dr Tasawar Hussain Mirza
About the Author: Dr Tasawar Hussain Mirza Read More Articles by Dr Tasawar Hussain Mirza: 296 Articles with 314392 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.