او آئی سی،امتِ مسلمہ کی نمائندہ یا مجرم؟

او آئی سی(organization of islamic countries)دنیا کی نقشے پر موجود 61اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم ہے ۔اس تنظیم کے قیام کی وجہ اوپر تلے پیش آنیوالے وہ دو بڑے واقعات بنے جنہوں نے عالمِ اسلام کو ہلا کر رکھ دیاپہلاواقعہ 1967ءمیں پیش آیا جب اسرائیل نے امریکہ و یورپ کی شہہ پر شام،مصراوراردن پرحملہ کرکے غزہ کی پٹی،نہرسویز،گولان کی پہاڑیاں،صحرائے سینااورمشرقی یروشلم پرقبضہ کرلیامسلمان رہنما یہ کیس لے کر اقوامِ متحدہ گئے لیکن یہاں بھی طاغوتی طاقتوں نے اسرائیل کا ساتھ دیاابھی یہ زخم ہی نہ بھرا تھا کہ یہودیوں نے 1969ءمیں مسجدِ اقصیٰ کو آگ لگا دی تاریخِ عالم کی بدترین قوم کی اِس ناپاک حرکت نے ایک بار پھرمسلمانوں کے دلوں کو بری طرح مجروح کیا اور ایک بار پھرانہوں نے انصاف کی امیند لئے اقوامِ متحدہ کی زنجیرہلائی لیکن نتیجہ اس بار بھی پہلے سے مختلف نہ رہااس صورتحال نے مسلم حکمرانوں کو پہلی بار مل بیٹھ کرسوچنے پر مجبور کیا تا کہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جا سکے چنانچہ22ستمبر1969ءکومراکش کے شہر رباط میںتمام اسلامی سربراہان جمع ہوئے اور اسی اجتماع نےOICکو جنم دیااس تنظیم کے پانچ بڑے مقاصد طے کئے گئے(1)اسلام کا ہر حال میں دفاع (2)امتِ مسلمہ کا اتحاد(3)مسلم امہ کی آزادی اور دیگر اقوام سے مسلمانوں کا دفاع (4)دنیا میں قیام امن کی کوشش(5)اقوامِ متحدہ کے چارٹر پر عملدرآمد۔

1969ءکے بعد سے اب تک او آئی سی کے 38اجلاس وزرائے خارجہ کی سطح پر ہو چکے ہیں اس سلسلے کا آخری اجلاس 28جون کو قازقستان کے شہر آستانہ میں منعقد ہوا۔

جس کی سربراہی تنظیم کے سیکرٹری جنرل پروفیسراکمل الدین حسن اوگلو نے کی۔اس تنظیم کا قیام اسلامی ممالک کیلئے انتہائی اہم پیشرفت تھی کیوں کہ اقوامِ متحدہ واضح طورپریہودونصاریٰ کی ترجمان بنی ہوئی تھی لیکن اپنے قیام کے بعد سے اب تک یہ تنظیم اپنے طے کردہ مقاصد کے حصول میں مکمل طورپرناکام ہی نظر آتی ہے جس کا اندازہ آپ کو عالمِ اسلام کو درپیش مسائل پر ایک ہلکی سی نظر ڈالنے سے ہی ہو جائےگا۔سب سے پہلے ہم کشمیر کا ذکر کریں گے جہاں7لاکھ بھارتی فوج نے گزشتہ بائیس سالوں سے ڈیرے ڈال کر پورے کشمیر کو ایک چھاﺅنی میں تبدیل کر رکھا ہے اور اس کے ہاتھوں کشمیر میں آئے روز پیش آنیوالے درندگی کے واقعات سے پوری دنیا واقف ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اقوامِ متحدہ نے اس مسئلہ پرکشمیری عوام کی خواہشات کے پیشِ نظر رائے شماری کیلئے قراردادیں بھی پاس کر رکھی ہیں لیکن او آئی سی میں اتنا بھی دم نہیں کہ بھارت کو ان قراردادوں پر عمل درآمدکیلئے ہی مجبور کر سکے۔اسی طرح آپ فلسطین کو دیکھ لیںجس کے دفاع کے نام پر یہ تنظیم بنی تھی لیکن آج تک فلسطینی اس صبح آزادی کیلئے ترس رہے جس کا وعدہ ان سے 42سال پہلے کیا گیا تھا غضب خدا کا آپ oicکی بے بسی کا اندازہ کریں کہ61اسلامی ممالک کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کو representکرنیوالی تنظیم محض 80لاکھ کی آبادی والی ایک ناجائز یہودی ریاست سے اپنا مقدس قبلہءاول واگزار نہیں کراسکی۔ آپ اوآئی سی کی مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ 1988ءکی ایران عراق جنگ میں بھی باآسانی ملاحظہ کر سکتے ہیں جب اسلامی دنیا کے دو انتہائی اہم اورطاقتورممالک صیہونی سازشوں کا شکار ہو کر ایک دوسرے کی تباہی کے در پہ کھڑے تھے یہاں اوآئی سی کامیاب سفارتکاری اور حکمتِ عملی سے اس جنگ کو روک سکتی تھی اس طرح عالمِ اسلام ایک بڑے نقصان سے بچ سکتا تھا لیکن بوجوہ ایسا نہ کیا گیا۔اسی طرح 90ءکی دہائی میں بوسنیا،چیچنیا،صومالیہ اور عراق میں جس طرح امریکہ،روس اور سرب قصاب میلازووچ نے جس طرح مسلمانوں کوسرِ عام گاجر مولی کی طرح کاٹااس پر پوری دنیا چیخ اٹھی سوائے او آئی سی کے۔اور نائن الیون کے نام نہاد ڈرامے کے بعدجس طرح امریکہ ایک پاگل سانڈھ کی طرح پہلے افغانستان اور پھر عراق پر چڑھ دوڑا اور وہاں ڈیزی کٹر اورنیپام بموں سمیت ہر غیر ممنوعہ اسلحہ تک چلا ڈالالاکھوں مسلمان ہلاک،ہزاروں معذور اور نامعلوم کتنے ہی امریکی زندان خانوں کی زینت بنادیئے گئے الغرض گزشتہ ایک عشرے میں امریکی بھیڑیوں نے عراق و افغانستان میں جرمن نازیوں کے ظلم و ستم کو بھی پیچھے چھوڑ دیا اور آج افغان و عراق وار کو خود امریکی اہلکار و پالیسی میکرز غلط فیصلے کی پیداوار کہہ رہے ہیں لیکن اس سارے عرصے میں اوآئی سی محض چندمذمتی بیانات سے آگے نہ بڑھ سکی ۔ان تمام واقعات کے بعد اس بات میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ اس وقت او آئی سی امہ کی ترجمان کم اور مجرم زیاد ہ معلوم ہوتی ہے ہے جبکہ امتِ مسلمہ کو اپنے دفاع اور کفار پر غلبے کیلئے ایسی صالح اور ایماندار قیادت کی ضرورت ہے جو یہودونصاریٰ کی مادی طاقت سے ڈرنے کی بجائے صرف اور صرف خدائے واحد کی نصرت پر یقین رکھتی ہوجو بے پناہ وسائل کی حامل امتِ مسلمہ کو حکمت و تدبر سے بروئے کار لاتے ہوئے کفر کے علمبرداروں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکردے اس کے ساتھ ساتھ مسلم امہ کو اپنے اعمال بھی درست کرنا ہوں گے کیوں کہ میرے رسولﷺ کا ارشادِ گرامی ہے ''تمھارے اعمال ہی تمھارے حکمران ہیں ''
Qasim Ali
About the Author: Qasim Ali Read More Articles by Qasim Ali: 119 Articles with 91720 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.