تھے تو آبا وہ تمھارے ہی۔۔

تحریر حنظہ عابد


امت محمدیہ کی نوجوان نسل ( یوتھ ) کیلئے حضرت حسن اور حسین کو ایک ماڈل اور نمونہ کے طور پر پیش کیا گیا اور ان دونوں عظیم ہستیوں سے انسانیت کی فلاح کی خاطر خدا کی راہ میں دل دہلا دینے والی قربانیاں لے کر قیامت تک آنے والی نوجوان نسل کو ان کی اقتداء اور پیروی کا حکم دیا گیا۔
ان دونوں بھائیوں کی قربانی کی الگ الگ داستان کچھ یوں ہے کہ جب ایک عرصہ سے سارا عالم اسلامی اندرونی اختلافات کا شکار تھا ، امن کی چادر تار تار تھی ، کوئی اپنے حق سے دستبردار ہونا تو دور کی بات ایک قدم پیچھے ہٹنے تک کیلئے تیار نہیں تھا ، جنگ صفین اور جمل جیسی ہولناک داستانیں رقم ہو چکی تھیں اور اب ایک بار پھر مسلمانوں کے دو عظیم گروہ میدان میں آمنے سامنے تھے اور قریب تھا کہ تاریخ اپنے آپ کو دھراتی ، مقدس خون کی ندیاں بہتیں اور اپنوں کی تلوار اپنوں ہی میں جوہر دکھلاتی۔ کائنات کا ذرہ ذرہ سکتے کے عالم میں اپنی آنکھیں سختی سے موندے ہوئے تھا کہ کہیں اس خونی جنگ کے دلخراش مناظر پر نظر نہ پڑ جائے اور ہر کوئی اپنا دامن سمیٹ رہا تھا کہ کہیں پاکیزہ خون کے چھینٹے نہ پڑ جائیں کہ اچانک نواسہ رسول حضرت حسن صلح کا پرچم ہوا میں لہراتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور انسانیت کی خاطر اپنے حق سے دستبردار ہونے کا اعلان کرتے ہیں اور اپنے نانا کی دی ہوئی پیشن گوئی کو پورا کرتے ہیں کہ میرا یہ بیٹا مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے بیچ صلح کرائے گا اور پھر مسلمانوں کے بیچ مدتوں سے آیا ہوا خلا پر ہو جاتا ہے ، سب ایک پرچم تلے جمع ہو جاتے ہیں ، امن کا دور دورہ ہو جاتا ہے اور مسلم تلوار ایک بار پھر حضرت حسن کی قربانی کے صدقے باطل کے عزائم کو خاک میں ملاتے ہوئے کفر و شرک کا صفحہ ہستی سے صفایا کرنے لگتی ہے۔
پھر نواسہ ثانی حضرت حسین کا کردار ملاحظہ کیجئے
دس محرم کا دن ہے اور کربلا کے میدان میں امام حسین بہتر جاں نثاروں کو لئے امت مسلمہ کے نوجوانوں کیلئے ایک بے مثال قربانی کا کردار پیش کرنے جا رہے ہیں ، دہکتے ہوئے سورج کی تپش میں اپنا سارا خاندان خدا کی راہ میں قربان کرنے آئے ہیں ، پیاس کے مارے بلکتے بچوں کے لئے دو گھونٹ پانی میسر نہیں ہے کہ حلق تر کر سکیں پھر جنگ کے شعلے بھڑک اٹھتے ہیں ، کائنات کا افضل ترین خون پانی کی طرح سستا ہو کر بہتا ہے ، بہتر 72 بے چارے ہزاروں کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں۔ ان قیامت خیز لمحات میں نماز کا وقت ہو جاتا ہے ، تلواروں کی جھنکار اور تیروں کی سنسناہٹ میں لہو سے لت پت جسموں کے ساتھ نماز ادا کی جاتی ہے۔
لہو کو دھونے کی کیا ضرورت کہ اس لہو پر تو ہزار طہارتیں قربان ہوں اور اس لہو سے بھیگی ہوئی نماز پر ساری دنیا کے مسلمانوں کی وہ نمازیں قربان ہوں جو صاف پانی سے وضو کر کے ادا کی جاتی ہیں۔ آسمان کے تمام فرشتے ہی نہیں ، شمس و قمر اور شجر و حجر بھی کربلا کی زمین پر سجدہ ریز ان دیوانوں کو دیکھ کر انگشت بدنداں ہیں کہ کیا خدا کی راہ میں خدا کے حکم کو پورا کرنے کیلئے اس حد تک بھی جایا جا سکتا ہے ؟؟؟؟؟
حضرت حسین کی بہن حضرت زینب بھی اس امت کی نوجوان بیٹیوں اور بہنوں کیلئے اعلی مثال پیش کرنے کی خاطر آئی ہوئی ہیں۔ ان کے آس پاس نوجوان بھتیجوں اور بھائیوں کی لاشوں کا ڈھیر ہوتا ہے اور یہ صبر کا مثالی پیکر بنے زخمیوں کی تیمارداری اور اپنے بھائی حضرت حسین کا حوصلہ بڑھانے میں مگن ہیں۔۔
بانی اسلام ﷺ کے گھرانے کے پھول بن کھلے تیروں اور تلواروں کے سائے میں مرجھاتے ہیں اور امام حسین اپنے لخت جگر بچوں کو گود میں لئے دین کی خاطر قربانی ک نذرانہ پیش کرتے ہیں اور آخر کار رہتی دنیا کو پیغام دیتے ہوئے اپنی جان بھی جان آفرین کے سپرد کر دیتے ہیں کہ
نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے
زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے
یہ وہ ہستیاں ہیں جنہیں جنت کے نوجوانوں کا سردار بتلایا گیا اور دنیا میں نوجوانوں کیلئے مقتدا بنایا گیا
مگر آئیے ذرا اک نظر اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھئے۔۔۔
جس قوم کے اسلاف نے دوسروں کی خاطر اپنا سب کچھ لٹا دیا تھا وہ قوم آج اپنی خواہشات کو پورا کرنے کی خاطر اس قدر جنونی ہو گئی ہے کہ خواہ خون کی ندیاں بہیں یا لاشوں کے انبار گریں مگر میری خواہش پوری ہونی چاہیے۔۔۔
بے غرض اور بے مطلب دوسروں کیلئے قربانیاں دینے والوں کے نام لیوا اس قدر مفاد پرست ہو گئے کہ غرض اور مطلب کے بغیر کسی کے کام آنا جانتے ہی نہیں ، خود غرضی کا ایسا منہ زور طوفان آیا کہ درخت کے سائے میں بھی چند گھڑی دم لیتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کہیں یہ درخت بھی اپنی فیس اور مزدوری نہ مانگنے لگ پڑے۔۔
جس قوم کی تاریخ صنف نازک کے احترام سے روشن ہے وہ خود آج اس قدر انسانیت سے گر چکی ہے کہ ایک معزز خاتون کیلئے لالچی اور ہوس بھری نگاہوں کی بھینٹ چڑھے بغیر گھر سے نکلنا ممکن نہیں۔۔۔
جن خواتین کی رہبر حضرت زینب بنت علی ہیں جو گھمسان کی جنگ میں تیر اور تلواروں کے بیچ میں اپنی چادر سے سر ڈھانکنا نہیں بھولتیں ، آج وہ خواتین اپنے جسموں کی نمائش کر کے نامحرم مردوں سے داد وصول کرنا اپنی زندگی کا مقصد سمجھتی ہیں۔۔
اس سب سے بڑھ کر بد قسمتی صرف یہ ہی نہیں کہ معاشرہ اس قدر زبوں حالی کا شکار ہے بلکہ المیہ تو یہ ہے کہ اس بد اخلاقی کے سیلاب کو روکنے تھامنے کی سرکاری و غیر سرکاری سطح پر کوئی صورت نظر نہیں آتی۔۔
آج وقت کی صدا ہے کہ اس قوم کو اپنی تاریخ سے روشناس کرایا جائے ، اپنے اسلاف کا کردار پڑھایا جائے اور اس قوم کیلئے اقتداء اور پیروی کے قابل صحابہ کی جماعت کے تذکروں کو گھر گھر میں عام کیا جائے تاکہ یہ بدتمیزی اور بے حیائی کا بڑھتا طوفان تھمے اور قوم کچھ سکھ کا سانس لے سکے۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا ،شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 

Sohail Azmi
About the Author: Sohail Azmi Read More Articles by Sohail Azmi: 181 Articles with 138106 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.