عھدِ سلیمان کے سُلطانی کمالات و کرشمات !!

#العلمAlilmعلمُ الکتاب سُورَةُالنمل اٰیت 1 تا 14🔰🔰اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
طٰسٓ
تلک اٰیٰت
القران و کتاب
مبین 1 ھدی و
بشرٰی للمؤمنین 2
الذین یقیمون الصلٰوة
یؤتون الزکٰوة وھم بالاٰخرة
ھم یوقنون 3 ان الذین لایؤمنون
بالاٰخرة زینالھم اعمالھم فھم یعمھون
4اولٰئک الذین لھم سوءالعذاب وھم فی
الاٰخرةھم الاخسرون 5 وانک لتقی القراٰن من
لّدن حکیم علیم 6 اذقال موسٰی لاھلهٖ انی اٰنست
نارا ساٰتیکم منہابخبر او اٰتیکم بشھاب قبس لعلکم
تصطلون 7 فلماجاءھا نودیَ ان بورک من فی النار ومن
حولھا وسبحٰن اللہ رب العٰلمین 8 یٰموسٰی انی انااللہ العزیز
الحکیم 9 والق عصاک فلما راٰھا تھتز کانھا جان ولّٰی مدبراولم
یعقب یٰموسٰی لاتخف انی لایخاف الدی المرسلون 10 الّا من ظلم
ثم بدل حسنابعد سوء فانی غفوررحیم 11 وادخل یدک فی جیبک
تخرج بیضاء من غیر سوء فی تسع اٰیٰت الٰی فرعون وقومهٖ انھم کانوا
قومافٰسقین 12 فلماجاءتھم اٰیٰتنامبصرة قالواھٰذا سحرمبین13وجحدوا
بھاواستیقنتھا انفسھم ظلما وعلوا فانظر کیف کان عاقبةالمکذبین 14
اے میرے عالَم کے پاکیزہ کردار سردار ! آپ کو یہ روشن نشانات آپ کو پڑھائی جانے والی اُس روشن کتاب کے نقشِ روشن سے دکھاۓ جا رھے ہیں جس روشن کتاب میں عالَمِ بے خبری میں رہنے والے لوگوں کے لیۓ وہ دائمی خوش خبری ھے جو آپ نے اُن لوگوں کو سُنانی ھے جو آپ پر ایمان بھی لاچکے ہیں ، جو اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ اعمالِ حیات بھی اَنجام دے رھے ہیں ، جو اپنا تزکیہِ جان و نفس بھی کر رھے ہیں ، جو یومِ حساب کے احتسابِ عمل سے بھی ڈرتے رہتے ہیں اور جو اِس کوشش میں کوشاں ہیں کہ اِس کتابِ حیات کے اَحکامِ حیات کو عالَم کے اِس خاص خطہِ زمین سے نکال کر عالَم کے ہر خطِ زمین تک پُہنچادیں لیکن جو لوگ اِس کتاب کے دین اور یومِ حساب پر یقین نہیں رکھتے تو اُن کی نظر میں اُن کے اعمالِ کفر ہی اُن کے خوب صورت اعمال ہیں اور ھم نے بھی انسانی ارادے کے حقِ آزادی کے مطابق اُن کے اُن اعمالِ کفر کو اُن کی نظر میں خوب صورت ہی رہنے دیا ھے اِس لیۓ وہ لوگ اپنے کفر کے اِس سفر میں بہت دُور جا چکے ہیں لیکن اللہ کے مَخزنِ علم و حکمت سے آپ کو ماضی و حال کا جو علم دیا جا رہا ھے اُس علم کی تفہیم کے لیۓ آپ مُوسٰی کی اُس سرگزشت پر ضرور غور کریں کہ جب مُوسٰی سردی کی سَردا اور لَرزا دینے والی ایک رات کو اپنی بیوی بچوں کے ساتھ چلتے ہوۓ اَچانک ہی آگ کا ایک شُعلہ دیکھ کر بولے کہ مُجھے جلتی آگ کا ایک شُعلہ نظر آیا ھے ، تُم لوگ یہاں رُک کر میرا انتظار کرو تاکہ میں جلد ہی وہاں سے کسی قریبی بستی کی کوئی خبر یا آگ کا ایک اَنگارا لے کر آجاؤں جس سے تُمہارے جسم و جان کو کُچھ حرارت مل جاۓ اور جب مُوسٰی وہاں پُہنچے تو اُن کو یہ صدا سُنائی گئی کہ بڑھائی ھے اُس ذات کے لیۓ جس ذات نے یہ آگ جلائی ھے اور جس ذات نے اُس آگ میں اپنی نشست بنائی ھے اور اُس نے اُس ماحول کو بھی بڑھائی دے دی ھے جو اُس کے آس پاس موجُود ھے اور یہاں پر اللہ کی وہی مُتحرک اپنی جلونمائی کرائی ھے جو سارے جہانوں کی ایک ہی پرورش کار ذات ھے اور اے مُوسٰی توجہ سے سُن کہ میں ہی وہ حاکم و غالب اللہ ہوں جس نے تیرے لیۓ یہ ماحول روشن کیا ھے اِس لیۓ اَب تُو میرے حُکم سے اپنی یہ لاٹھی زمین پر رکھ دے اور جیسے ہی مُوسٰی نے یہ حُکم سُن کر اپنی یہ لاٹھی زمین پر رکھی تو وہ زمین پر رکھتے ہیں ایک مُتحرک سانپ بن کر دوڑنے لگی جس کو دیکھ کر مُوسٰی اپنے اُلٹے پیروں پر پلٹ کر بھاگنے لگے اور اللہ نے فرمایا کہ تُو اِس سے بالکُل بھی خوف زدہ نہ ہو کیونکہ میرے نمائندے میرے دربار میں خوف زدہ نہیں ہوا کرتے لیکن جو لوگ اُلٹے پیروں پر بھاگ جاتے اور پھر سیدھے سبھاؤ لوٹ آتے ہیں تو وہ اُن کو معاف بھی کردیتا ھے اور اَب جب تُو لوٹ آیا ھے تو اَب ذرا پہلے اپنا ہاتھ اپنے پہلُو میں لے جا اور پھر واپس اپنے سامنے لا اور جب مُوسٰی نے اللہ کے اِس حُکم پر عمل کیا تو مُوسٰی کا ہاتھ جلے بغیر ہی جلتے ہوۓ سُورج کی روشنی کی طرح روشنی دینے لگا تَب اللہ نے مُوسٰی سے کہا کہ اَب تُو میری اِن تعارفی نشانیوں کو لے کر فرعون اور اُس کی ظالم قوم کے پاس جا اور اُس فاسق قوم کو میرے وہ نو اَحکام بھی سُنا جو تجھے وہاں جانے سے پہلے دیۓ جائیں گے اور جب مُوسٰی نے فرعون و قومِ فرعون کو عصا و یدِ بیضا کے وہ دو چشم کشا نشان دکھاۓ اور اللہ کے وہ نو اَحکام سُناۓ تو وہ بولے کہ یہ تو ایک سر چڑھ کر بولنے والا جادو ھے کیونکہ وہ مُتکبر لوگ پہلے سے ہی اِس تعلیم کے انکار کرنے پر تُلے ہوۓ تھے اِس لیۓ اُس قوم کا بھی وہی بُرا اَنجام ہوا جو ہمیشہ ہی ہر بُری قوم کا بُرا اَنجام ہوتا رہا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
سُورَةُالنمل قُرآنِ کریم کی کتابی ترتیب میں آنے والی وہ ستائسویں سُورت ھے جس کا پہلا مضمون مُوسٰی علیہ السلام کا وہ مُشاھدہِ حق ھے جس مُشاھدہِ حق کا اٰیاتِ بالا میں ذکر ہوا ھے ، اِس سُورت کا دُوسرا مضمون سلیمان علیہ السلام کی وہ بے مثال حکم رانی اور اُن کا وہ بے مثال اندازِ حُکمرانی ھے جس کا ذکر اِس سُورت کے اِس مضمون کے بعد آۓ گا ، اِس سُورت کا تیسرا مضمون صالح علیہ السلام کی دعوتِ حق ھے جس کا اِس سے پہلی سُورت میں بھی ایک خاص انداز سے ذکر ہوا ھے اور اِس سُورت میں بھی ایک خاص زاویۓ سے اِس کا اعادہ ہوا ھے ، اِس سُورت کا چوتھا مضمون قومِ لُوط کی تباہی کا وہ ذکر ھے جس کا جس طرح دیگر مقامات پر غرضِ عبرت کے لیۓ ذکر ہوا ھے اسی طرح اِس مقام پر بھی اُس کا غرضِ عبرت کے لیۓ ہی ذکرِ مُکرر ہوا ھے اور اِس سُورت کا پانچواں مضمون اللہ تعالٰی کی توحید ھے جو قُرآن کا بُنیادی اور مقصدی موضوع ھے اور توحید کے اِس مضمون کے خاتمہِ کلام پر مُنکرینِ توحید کا ذکرِ عبرت بھی شاملِ ذکر کیا گیا ھے لیکن اِس سُورت کا اَصل موضوعِ سُخن سلیمان و حکومتِ سلیمان ھے جس کو اِس سے قبل سُورَةُالکہف کے آخر میں دو زمانوں پر حکومت کرنے والے اُس شاہِ ذوالقرنین اور دو سمتوں میں حربی سفر کرنے والے اُس بادشاہِ ذُوالقربین کے لقب سے مُلقب کیا گیا ھے جس کو عُلماۓ روایت نے بہت زور لگا کر ایک دو سنگا ایرانی بادشاہ ثابت کرنے کی کوشش کی ھے اور ھم نے سُورَةُالکہف کے اُس متعلقہ مقام پر دلائل کے ساتھ اِس اَمر کو پایہِ ثبوت تک پُہنچایا ھے کہ ذُوالقرنین کے اِس لقب سے سر پر اُگی ہوئی دو سنگٹیوں والا کوئی خیالی بادشاہ مُراد نہیں ھے جس کا ایران و طوران کے قصوں سے تعارف کریا جاۓ بلکہ ذُوالقرنین سے مُراد دو زمانوں میں زمین پر باد شاہی کرنے وہ پہلا باشاہ سلیمان ھے جس نے پہلی بار اپنے باپ داؤد کے زمانے میں اپنے باپ داؤد کی نگرانی میں حکومت کی تھی اور دُوسری بار اپنے زمانے میں اُس خلیفہِ داؤد کے خلیفہِ ثانی کے طور پر حکومت کی تھی جس خلیفہِ داؤد کو اللہ تعالٰی نے سُورَہِ صٓ کی اٰیت 26 کے مطابق انسانی نسل میں سے پہلے اور آخری انسان کے طور پر بذاتِ خود اور بزبانِ خود پہلی اور آخری بار اپنا پہلا اور آخری خلیفہ بنایا تھا اور داؤد کے بعد اللہ تعالٰی نے ہی اپنی مشیت سے سلیمان علیہ السلام کو بھی داؤد کا خلیفہِ ثانی بنایا تھا اور قُرآنِ کریم کی رُو سے یہی وہ پہلی اور آخری عملی خلافتِ نبوت تھی جو زمین پر قائم ہوئی تھی ، اِس عملی خلافت کے اُس سلیمانی عھد میں جن پانچ چیزوں کا چرچا ہوا تھا اُن پانچ چیزوں میں پہلی چیز نمل ، دُوسری چیز ہُد ہُد ، تیسری چیز عفریت ، چوتھی چیز سبا و تختِ سبا اور پانچویں چیز وہ خُدا داد علم تھا جس خُدا داد علم پر سلیمان علیہ السلام کا نظامِ سلطنت قائم تھا ، عُلماۓ روایت کے نزدیک یہ اُس معجزاتی زمانے کے وہ مُعجزاتی اَسماء ہیں جن اَسماء کے ذریعے اُس زمانے میں وہ مُعجزات ظاہر ہوۓ ہیں جن کو قُرآنِ کریم نے اپنی اِن اٰیات کے اِس مضمون میں مُعجزات کے طور پر بیان کیا ھے جبکہ اِس کے برعکس کُچھ دیگر اہلِ مطالعہ کا کہنا ھے کہ اِس مضمون کے اِس سلسلہِ کلام میں نمل اور ہُد ہُد وغیرہ کے جو اَسماء آۓ ہیں وہ کسی چینوٹی یا کسی پرندے کے نام نہیں ہیں بلکہ وہ ٹوٹم Totem نام ہیں جو اُس زمانے میں اَفراد و اَقوام کے عام اور جانے پہچانے نام ہوا کرتے تھے جن ناموں کو ہر خاص عام انسانی ناموں کے طور پر ہی جانتا تھا اور یہی وہ Totemنام ہیں جو اُس زمانے سے ھمارے زمانے تک آنے والے اُن اَفراد و اَقوام کے ساتھ آۓ ہیں جو آج بھی باز و طاؤس ، لُومڑ و خرگوش ، ہَنس و سیال اور بیل و گھڑیال وغیرہ کہلاتے ہیں لیکن یہ بات اتنی سادہ نہیں ھے جتنی سمجھ لی گئی ھے تاہَم اِس سُورت کے اِس ابتدائی تعارف کے بعد اِس سُورت کے اِن مضامین کی تفصیل اِن کے مُتعلقہ مقام پر ہی آۓ گی ، اٰیاتِ بالا میں جن دو نشانات عصاۓ مُوسٰی و یدِ بیضاۓ مُوسٰی کا ذکر آیا ھے یہ اُس قصے کا پیش لفظ ھے جس کی باقی تفصیل سُورَہِ طٰہٰ کی اٰیت 17 تا 24 میں گزری ھے اور اُس سُورت کی اُن اٰیات میں بیان کیا گیا وہ ایک اختتامی واقعہ ھے جو اِس سُورت کی اِن اٰیات میں بیان کیا گیا ایک افتتاحی واقعہ ھے اِس لیۓ جب قُرآن کا ایک پڑھنے والا اِن دونوں واقعات کو ملا کر پڑھتا ھے تو وہ پُورا واقعہ اپنی پُوری تمہیدات و تَکمیلات کے ساتھ اُس کی چشمِ تصور میں آجاتا ھے ، قُرآنِ کریم سے پہلے مُوسٰی علیہ السلام کی کتابِ تورات نے بھی عصاۓ مُوسٰی و یدِ بیضاۓ کے اِن دونوں نشانات کا ذکر کیا ھے لیکن تورات میں یدِ بیضاۓ مُوسٰی کی یہ توجیہ بھی پیش کی گئی ھے کہ فرعون چونکہ برص کا مریض تھا اور اِس کے اِس مرض کا فرعون کے سوا کسی اور کو علم نہیں تھا اِس لیۓ مُوسٰی کے اِس معجزے کے ذریعے فرعون کو یہ پیغام دیا گیا تھا کہ مُوسٰی کا خُدا جو تیرے اِس خُفیہ مرض کو جانتا ھے وہی سَچا خُدا ھے لیکن صاف نظر آتا ھے کہ یہ توجیہ عُلماۓ بنی اسرائیل کی ایک وضعی توجیہ ھے کیونکہ وحی کا مزاج کسی واقعے کو ایک نفسِ واقعہ کے طور بیان کرنا ہوتا ھے اُس کی وہ توجیہات بیان کرنا وحی کا مزاج نہیں ھے جو توجیہات عُلماۓ تورات نے تورات میں بوجوہ شامل کی ہیں اور بَھلا وہ معجزہ ہی کیا ہوا جس کی وہ تفصیل بھی اُس معجزے کے ساتھ دے دی جاۓ جس تفصیل کی بنا پر وہ مُعجزہ اپنی ذات میں مُعجزہ ہی نہ رھے !!
 
Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 478695 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More