جنسی زیادتی کی سزا قران وحدیث اور پاکستانی اعلیٰ عدلیہ کے فیصلہ جات کی روشنی میں

2006 ء میں خواتین پروٹیکشن ایکٹ کے ذریعہ سے زنا کی حدود کے تحت سزاؤں میں ترمیم کر دی گی۔ اِس لیے اب حدود کے تحت زانی اور زانیہ کو سزا نہیں دی جارہی ہے۔مرد کا اپنی بیوی کے علاوہ کسی اور عورت سے مباشرت کرنا یا بیوی کا اپنے شوہر کے علاوہ کسی اور مرد سے مباشرت کرنا زنا کہلاتا ہے ۔زناکے بہت سے اسباب ہیں۔ جیسے عورتوں کا باریک کپڑے کا استعمال کرنا بے پردگی فحاشی وعریانیت مرد عورتوں کا تنہائی میں ملنا یا باتیں کرنا گندہ لٹریچر موبائل کا غلط استعمال ٹی وی فلمیں وغیرہ ان تمام چیزوں کواسلام میں منع اور حرام قرار دیا گیا ہے اوراس سے بچنا ضروری ہے۔ جو زنا سے قریب کر دے۔ اﷲ تعالی نے فرمایا۔‘‘اورتم زنا کے قریب بھی مت جاؤ، یقیناوہ بے حیائی اوربُرا راستہ ہے۔بنی اسرائیل 32:17۔زنا معاشرے کی تباہی کا ایک بہت بڑا عنصر ہے، جوسوسائٹی اور خاندان کو تباہ و برباد کر دیتا ہے، اور انسانی نسلوں کو غلط ملط کر دیتا ہے،اس لئے مذہب اسلام میں زنا کی سخت سزا ہے۔ غیرشادی شدہ زانی اور زانیہ مرد و عورت کی سزا 100 سو کوڑے، اور ایک سال کیلئے شہر بدر کرنا ہے۔دلیل:- اﷲ تعال نے فرمایا‘‘ چنانچہ زانیہ عورت اور زانی مرد ان دونوں میں سے ہر ایک کو تم سو کوڑے مارو اور اگر تم اﷲ اور یوم آخرت پر إیمان رکھتے ہو تو اﷲ کے دین پرعمل کرنے کے معاملے میں تمہیں ان دونوں زانی اور زانیہ پرقطعا ترس نہیں آنا چاہئے اور مومنوں میں سے ایک گروہ ان دونوں کی سزا کے وقت موجودہونا چاہیے۔ سورۃالنور 2:24۔دلیل:- ابوہریرۃ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس شخص کے بارے جو زنا کا مرتکب ہوا اور شادی شدہ نہ ہو، یہ فیصلہ فرمایا کہ اسے ایک سال کیلئے شہر بدر کر دیا جائے اور اس پر حد بھی لگائی جائے۔ صحیح بخاری حدیث6833۔دلیل:- ابوہریرہ اور زید بن خالد جہنی رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی آدمی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اﷲ کے رسول میں آپ کو اﷲ کی قسم دے کر عرض کرتا ہوں کہ آپ کتاب اﷲ کے مطابق ہی میرا فیصلہ فرمائیں، اوردوسرا جو اس کے مقابلے میں زیادہ سمجھدار تھا اس نے بھی کہا کہ جی ہاں: آپ ہمارے درمیان کتاب اﷲ کے مطابق فیصلہ فرمائیں، اور مجھے کچھ عرض کرنے کی اجازت دیں، نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا بیان کرو، وہ بولا: میرا بیٹا اس کے ہاں مزدوری پرکام کرتا تھا، اس نے اس کی بیوی سے زنا کا ارتکاب کر لیا اور مجھے خبر دی گئی کہ میرے بیٹے پر رجم کی سزا لازم آتی ہے، چنانچہ میں نے اس کے فدیے میں ایک سو بکریاں اور ایک لونڈی دے کر اس کی جان چھڑائی اس کے بعد میں نے اہل علم سے دریافت کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے، اور اس شخص کی بیوی کی سزا رجم ہے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تمہارے درمیان کتاب اﷲ کے عین مطابق فیصلہ کروں گا، لونڈی اوربکریاں تمہیں واپس لوٹائی جائیں گی اور تیرے بیٹے کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے، اور اُنیس تم اس آدمی کی اہلیہ کے پاس جاؤ، اگر وہ زناکاری کا اعتراف کر لے تو اسے سنگسار کر دو۔ بخاری ومسلم کے الفاظ ہیں1697۔شادی شدہ زانی اور زانیہ مرد و عورت کی سزا سنگسار کرنا ہے،۔دلیل:- ابوہریرۃ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مسلمان آدمی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ اس وقت آپ مسجد میں تشریف فرما تھے، وہ بلند آواز سے آپﷺ کو پکار کر کہنے لگا: اے اﷲ کے رسولﷺ میں نے زنا کیا ہے، آپﷺ نے اس سے منہ پھیر لیا، وہ دوسری طرف سے گھوم کر آپ کے سامنے آگیا اور عرض کیا، اے اﷲ کے رسول ﷺ میں نے زنا کیا ہے، آپ ﷺنے پھر اپنا رخ انور پھیر لیا حتی کہ اس شخص نے چار مرتبہ اپنی بات دہرائی، اس طرح جب اس نے اپنے خلاف چار مرتبہ گواہیاں دے دیں تورسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے اپنے پاس بلایا اور پوچھا ’’کیا تو دیوانہ ہے اس نے کہا نہیں آپ نے پھر فرمایا: کیا تو شادی شدہ ہے؟ اس نے کہا جی ہاں، توپھر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے لے جاؤ اور سنگسار کردو۔ بخاری5271،مسلم1691۔اگر کسی نیک سیرت عورت پر جھوٹی تہمت لگائی اور چار گواہ نہ ہوں تو زنا کا الزام لگانے والوں کو 80 کوڑے لگیں گے۔دلیل:- اﷲ تعالیٰ نے فرمایا‘‘اور جولوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں، پھر وہ چار گواہ نہیں لاتے تو انھیں 80 کوڑے مارو ۔سورۃالنور4:24اگرتین افراد گواہی دیں اور چوتھا منکر جاے تو تینوں پر قذف لاگو ہوگی۔دلیل:- اﷲ تعالیٰ نے فرمایا‘‘اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں، پھر وہ چار گواہ نہیں لاتے تو انھیں 80 کوڑے مارو سورۃالنور4:24۔زنا کا اقرار ایک مرتبہ کرنے سے ہو جاتا ہے، چار مرتبہ کہلوانا تاکید اور پختگی کے لئے ہے۔دلیل:-جیسا کہ ابوہریرۃ رضی اﷲ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اور ایاُنیس تم اس آدمی کی اہلیہ کیپاس جاؤ، اگر وہ زناکاری کا اعتراف کر لے تو اسے سنگسار کر دو۔ بخاری 2696مسلم 1697۔دلیل:- بریدہ رضی اﷲ عنہ کی روایت میں غامدی خاتون کا ذکر ہے کہ اس نے صرف ایک بار اقرار کیا تھا۔صحیح مسلم1695۔اﷲ تعالی ہم لوگوں کو زنا سے بچائے اور قرآن و سنت پرعمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔زناکار جب قیامت کے دنیا سے اُٹھایا جائے گا تو اس حال میں کہ اس کی شرمگاہ اس کے منہ پر لٹکی ہوگی اور وہ ساری انسانیت کے سامنے شرم سار و ذلیل ہوگا _1997 FSC 330 کے مطابق اگر زنا اجازت کے ساتھ یا بضیر اجازت کیا جائے تو اُسے زنا بالجبر کہا جائے گا۔1997P.Cr..LJ 263 کے مطابق زنا کے مرتکب عورت اور مرد کے خلاف چار افرادکی گواہی لازمی ہے صرف شک کی بنیاد پر خاوند کو اپنی بیوی کو ذبیع کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔1997 P.Cr.L J 313 کے مطابق اسلام اِس بات کی حمایت کرتا ہے حالات و اقعات سے کسی نتیجے پر اگر کسی شخص کو حدود کے الزام سے بری کیا جاسکتا ہے تو کردینا چاہیے۔1997 P.Cr.L.J 263 کے مطابق صرف اِس شک پر کہ عورت اور مرد ایک ہی کمرے میں رہتے ہیں حدود لاگو نہیں کی جاسکتی صرف یہ کافی نہیں ہے کہ وہ ایک ہی کمرے میں رہتے ہیں تو زنا کے مرتکب ہوتے ہوں گے۔PLJ 1082 FSC58 کے مطابق چشم دید گواہ سے سوالات کیے جانے ضروری ہیں۔1994 SCMR 2012 سپریم کورٹ کے مطابق نابالغ لڑکی کے ساتھ زنا کو ہمیشہ زنا بالجبر ہی مانا جائے گا۔1997P.Cr.LJ 1082 کے مطابق سزا دینے کے لیے واضع شہادت / ثبوت ہونا ضروری ہیں۔P.Cr.LJ 227 کے مطابق زناء کے کیس میں ملزم کی ضمانت خارج کردی گئی اِس کیس میں شکایت کنندہ نے ایف آئی آر درج کروانے میں دیر ہونے کی وجہ بتائی تھی اور اپنی بہو کو بطور چشم دید گواہ پیش کیا تھا۔زنا کا ثبوت تب مانا جائے گا کہ جب اگر ملزم عدالت کے سامنے اقرار جرم کر لے اور اُس عدالت کو اِس مقدمہ کو سُننے کا اختیار حاصل ہو ۔کم ازکم چار گواہ موجود ہوں ۔ اگر ملزم غیر مسلم ہے تو گواہ بھی گیر مسلم ہوسکتے ہیں۔PLD 2010SC 47 کے مطابق سپریم کورٹ نے یہ قرار دیا ہے کہ لڑکی کے بیان پر فطرتی طور پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔اور اِس کے ساتھ زیادتی کے بیان پر یقین کیا جاسکتا ہے۔ لڑکی کے والد اور والدہ جو کہ چشم دید گواہ نہیں ہیں لیکن بیان سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ درست کہہ رہے ہیں اور میڈیکل رپورٹ میں بھی جرم ہونا ثابت ہے۔ ایک تین سال کی لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی ایک سنگین جرم ہے۔ اور اُس کے خاندان پر بد نما داغ ہے ایسا مجرم سزا کا مستحق ہے۔ پاکستان میں خواتین پروٹیکشن ایکٹ 2006 میں کچھ ایسی شقیں شامل ہیں جس سے زنا کی حدود کے تحت سزا کی ہیت تبدیل ہوگئی ہے۔PPC 365-B یہ شق بھی خواتین پروٹیکشن ایکٹ کی پاس کردہ ہے اِس کے مطابق عورت کو اغوا کرنا یا عورت کو شادی کرنے پر مجبور کرنا یا زبردستی اُس کے ساتھ زنا کرنا تو ایسے شخص کو عمر قید اور جرمانے کا سزا ہوگی۔اگر کوئی شخص کسی عورت کو کسی اور شخص کے پاس جنسی زیادتی کے لیے لے کر جاتا ہے تو اُس کی سزا بھی عمر قید و جرمانہ ہوگا۔
خواتین پروٹیکشن ایکٹ 2006 میں شامل PPC-265-B کے مطابق دو نکات کا ہونا ضروری ہے یہ کہ کسی عورت کو زبردستی کسی ایک جگہ سے دوسری جگہ جنسی زیادتی کے لیے لے کر جانا یا اُس کی مرضی کے کے خلاف شادی کروانے کے لیے لے کر جانا ۔ 2010Pcr. LJ182 کے مطابق اغوا شُدہ عورت نے عدالت میں یہ بیان دیا ہے کہ اُس نے پہلے خاوند سے طلاق کے بعد اور عدت پوری کرنے کے بعد ملزم سے شادی کی اور اُس کے والد نے اغوا کا جھوٹا مقدمہ درج کروادیا ہے۔ پراسیکوٹرز کو 173سی آر پی سی کی سکروٹنی کرنے کو کہا گیا لیکن پراسیکیوٹرنے جلدی میں ٹرائل کورٹ میں چالان پیش کر دیا۔ٹرائل کورٹ نے 173 crpc کے تحت رپورٹ پر عمل نہیں کیا لہذا ایف آئی آر خارج کردی گئی۔ PLD 2009Lahore 223 کے مطابق لڑکی عمر اٹھارہ سال ہے اور ولی اجازت کے بغیر نکاح غیر قانونی نہیں ہے۔ PLD 2009 Karchi 278 کے مطابق مغویہ کی عمر اُنیس سال ہے اور اُس کے بیٹے کی پیدائش ہوئی ہے۔اُس نے ہائی کورٹ میں حلف دیا ہے کہ اُس نے مرضی سے شادی کی تھی اُس ے اغوا نہیں کیا گیا تھا۔کیس لڑکی کے حق میں خارج کر دیا گیا۔PLD 2009 Lahore 546 کے مطابق لاہور ہائی نے قرار دیا کہ میاں بیوی نے اگر نکاح نامے کے مندرجات کو مان لیا ہے تو کوئی دوسرا شخص اِس نکاح کو ئی چیلنج نہیں کر سکتا۔ کسی عورت کا نکاح اِس وجہ سے غیر قانونی نہیں قرار دیا جاسکتا کہ اُس لڑکی نے ولی کی اجازت کے بغیر شادی کی تھی۔2009 P.cr.LJ 751 کے مطابق مغویہ ملزم کے ساتھ اپنی مرضی سے بھاگ کر گئی اور اُس نے ملزم سے شادی کرلی تھی مغویہ کی مرضی ہی مقدمے کی قسمت کا فیصلہ ہے۔ہائی کورٹ نے کیس ختم کردیا۔اِسی طرح خواتین پروٹیکشن ایکٹ میں شامل PPC366-A کے مطابق اگر کسی نابلغ لڑکی سے زنا کیا جاتا ہے اُس کو ورغلا کر لے جاکر جنسی زیادتی کی جاتی ہے یا اُس پر دباؤ ڈال کر کسی اور شخص سے اُس کے ساتھ جنسی زیادتی کروائی جاتی ہے۔ تو اُس کی سزا دس سال قید اور جرمانہ ہوگی۔PPC 366 -B کی جو شق خواتین پروٹیکشن ایکٹ میں شامل ہے کے مطابق اگر کسی لڑکی جس کی عمر 21 سال سے کم ہے اور اسے اسِ نیت سے باہر سے پاکستان لایا جاتا ہے کہ اس کے ساتھ وہ زنا کا مرتکب ہوگا یا کسی اور شخص سے اُس عورت کو زیادتی کرواے گا تو ایسے شخص کو دس سال قید اور جرمانہ ہوگا۔PPC367-A کے مطابق اگر کسی شخص کو اغوا کر لیا جاتا ہے کہ اُس کے ساتھ غیر فطری فعل کیا جائے گا تو اُس کی سزا سزائے موت یا پچس سال قید و جرمانہ ہوگی۔PPC-371-A کے مطابق اگر کوئی شخص کسی کو اِس نیت سے فروخت کرتا ہے کہ وہ اس سے جنسی فعل ہوگا۔ تو اُس کو پچس سال قید اور جرمانہ سزا ہوگی۔اگر عوارت کو جنسی زیادتی کے لیے فروخت کرتا ہے تو اُسے بھی یہی سزا ہوگی۔PPC371-B کے مطابق جو کوئی بھی کسی مرد یا عورت کو جنسی زیادتی کے لیے خریدات ہے تو اُس کو پچس سال سال قید اور جرمانے کی سزا ہوگی۔ُُPPC375 میں ریپ کے جرم کی بابت ذکر ہے۔ایسا آدمی ریپ کرنے والا مجرم تصور ہوگا۔ اگر وہ کسی عورت سے اُس کی مرضی کے خلاف جنسی زیادتی کرئے ، عورت کے خواپش کے برعکس زیادتی کرے۔ عورت کو جان سے مارنے کی دھمکی دے کر جنسی زیادتی کرے یا عورت کو اِس شبہے میں رکھ کر کہ یہ مرد اُس کے ساتھ شادی کر لے گا اُس کے ساتھ زنا کیا جائے یا اگر لڑکی سولہ سال سے کم عمر کی ہے اور اُص کی مرضی یا مرضی کے خلاف اُس سے جنسی زیادتی کرنا۔ ریپ کی سزا دس سال و جرمانہ ہے۔PPC377 کے مطابق اگر کوئی بھی کسی عورت یا مرد یا کسی جانور کے ساتھ غیر فطری جنسی فعل کرتا ہے تو اُس کی سزا عمر قید ہوگی اور جرمانہ بھی ہوگا۔بضیر شادی کے جو بچہ پیدا ہوگا اُس کا حسب نسب نہ ہوگا۔غیر شادی شدہ عورت کو سو کوڑے مارے جائیں۔

گناہ کی لت جب پڑ جاتی ہے تو انسان پھر رکتا نہیں۔ذرا ایک لمحے کے لیے سوچیں جب معاشرے میں بغیر شادی کے بچے پیدا ہونا شروع ہوجائیں تو پھر معاشرے کی اخلاقی اقدار کا عالم کیا ہوگا۔ بچے کو اُس کی جب پہچان نہیں ملے گی کہ اُس کا باپ کون ہے تو پھر معاشرہ اُس کے ساتھ کیا رویہ رکھے گا۔ اسلام جو کہ دین فطرت ہے وہ اﷲ پاک کے نظام میں غلط ملط کیے جانے کو کیسے برداشت کرسکتا ہے۔ ایک طرف تو عور ت کو پردے کا حکم عورت کی عظمت کا ایسا بیان اور اُس کی ایسی مثال پیش کرتا ہے کہ ماں جو کے ایک عورت ہی ہوتی ہے جس کے قدموں تلے جنت ہے ۔اب ہم یہ بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ حدود آرڈنینس 1979 میں تبدیلی کرنے کے لیے خواتیں پروٹیکشن ایکٹ2006 ء کیوں لاگوکیا گیا۔ خواتین کے تحفظ کا بل 15 نومبر 2006 ء کو پاس ہوا تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ پاکستان کے معروضی حالات میں عورتوں کے ساتھ ہونے والے ریپ کو ثابت کرنا مشکل ہے۔کیونکہ حدود کے تحت چار گواہ جو ہین وہ تزکیہ ۃالشہود پر پورا اُترتے ہیں اور چشم دید گواہی دیں۔ خواتین پروٹیکشن ایکٹ کی وجہ سے حدود آرڈنینس کی بہت سی دفعات کو تبدیل کردیا گیا اور زنا کے جرم کے لیے نئے قوانین متعارف کروائے گئے۔ پاکستان کا لبرل طبقہ ابھی تک اِس خواتیں ایکٹ سے بھی راضی نہیں ہوا کیونکہ سنگ باری سے موت کی سزا یعنی رجم ابھی تک ہے۔ آج تک پاکستان میں سنگ باری کی سزا کبھی بھی نہیں ہوئی۔ ریپ کو پاکستان پینک کوڈ میں شامل کردیا گیا جو کہ اسلامی قانون نہیں ہے بلکہ سول لاء ہے۔ اب زنا کاری کے مقدمات کو اسلامی قانون کے تحت نہیں بلکہ پاکستان پینل کوڈ کے ذریعے سُنا جاتا ہے۔ تحفظ خواتین ایکٹ
2006 در حقیقت آئین پاکستا ن کے آرٹیکل 2A,227 کی خلاف ورزی ہے۔
 

MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 452 Articles with 384540 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More