دیواروں سے سر ٹکرانا اچھا لگتا ہے

میں نے 1971-73 کے دوران قائد اعظم یونیورسٹی ،جو اس وقت اسلام آباد یونیورسٹی تھی ،سے ایم ایس سی کی۔ایک انتہائی فعال ایلومینائی ایسوسی ایشن کے سبب وہاں کے ہر دور کے طالب علموں سے رابطہ ہے اور سبھی ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں شریک ہوتے ہیں۔سینئر ہونے کے ناطے تمام ساتھی میرا احترام کرتے ہیں۔ سبھی بہت اچھے ہیں مگر پتہ نہیں کیوں کبھی کبھی کسی مسئلے پر اصولی سٹینڈ لے کر بات ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ میں نے بڑی دفعہ سمجھایاکہ تمام ماہرین تعلیم جن کا تعلیم سے صرف ماہر ہی کی حد تک قدرے تعلق ہے مگر حکومتی پالیسی سازی سے بہت زیادہ تعلق ہے ، اس بات پر متفق ہیں کہ وہ جس نظام تعلیم کو پچھلے ستر سال سے بدلنے کی مسلسل سعی کر رہے ہیں وہ لارڈ میکالے کا بنایا ہوا فضول نظام ہے۔ اس نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ہمیں دبنا اور جھکنا سکھاتا ہے۔ہم شاید دبنے اور جھکنے ہی کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔مگر یونیورسٹی کی ایلو مینائی کے لوگ میری بات سننے اور ماننے کو تیار ہی نہیں۔وہ دبتے نہیں، جھکتے نہیں۔ لگتا ہے میکالے کا نظام بھی کرپٹ ہو گیا ہے۔ انہیں احساس ہی نہیں کہ بڑے آدمی ہر صورت بڑے ہوتے ہیں۔ موم کی ناک جیسا ملکی قانون انہی کا سہولت کار ہے،اس لئے بے وجہ دیواروں سے سر ٹکرانا کا کیا فائدہ مگر انہیں ایسا ٹکرانا اچھا لگتا ہے۔

1967 میں یونیورسٹی جب وجود میں آئی تو اس کی ملکیتی زمین 1709 ایکڑ4 کنال اور 12مرلے تھی جس کی قیمت ادا کر دی گئی تھی۔ شروع میں چند ڈیپارٹمنٹ ہونے کے سبب زیادہ تر رقبے پر ویرانی کا راج تھا۔لوگ کہتے ہیں کہ جگہ ویران ہو تو بھوت پریت قبضہ کر لیتے ہیں اور ان سے قبضہ چھڑانا کافی مشکل ہوتا ہے۔سوئے اتفاق کہ بھوت پریت تو نہ آئے مگر بہت سے مقامی لوگوں نے بھوت پریت کی طرح یونیورسٹی کی زمین پرقبضہ کر لیا جن میں کچھ تو بھوت پریت سے بھی بڑھ کر ثابت ہو رہے ہیں ، کوئی دھونی ، کوئی ٹوٹکا ان پر کام نہیں کر رہا۔ CDA ، جس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس زمین کی مکمل نشاندہی کرے ، بھی خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے۔یونیورسٹی کی 298 ایکڑ زمین پر اس وقت کچھ لوگوں کا قبضہ ہے اور حکومتی محکموں میں اتنی جرات نہیں کہ وہ اسے خالی کرا سکیں۔

ادارے جرات کیسے کریں،اس یونیورسٹی کی اس متنازع زمین پر ایک بہت بڑے آدمی ،سابق سینٹر اور قائم مقام صدر صاحب کا بھی قبضہ ہے۔کون ہے جو ان کی ذات سے واقف نہیں۔وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے صف اول کے رہنما ہیں۔اک عرصہ سینٹ کے چیرمین رہے۔ چند دن صدر مملکت بھی رہے اور نظام سقے سے بڑھ کر شاندار اور جاندار تاریخ رقم کی۔سنا ہے کہ ایک دن کی حکمرانی میں انہوں نے یونیورسٹی کے علاقہ پٹواری کو زیر کرکے وہ زمین اپنے نام کرائی۔پٹواری بھی ایک بڑا آدمی ہوتا ہے، اسے زیر کرنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں ۔کہتے ہیں ایک کمشنر دورے پر ایک پٹواری کے علاقے میں گیا تو ایک عورت نے شکایت کی کہ پٹواری اس کی زمین کا انتقال نہیں کر رہا۔ کمشنر کی مداخلت پر اس کا کام فوراً ہو گیا تو اس عورت نے کمشنر کو دعا دی کہ اﷲ تجھے بھی پٹواری بنا دے تو جو شخص پٹواری کو منٹوں میں زیر کر لے آپ اس کی عظمت کا اندازہ لگا لیں مگر یہ یونیورسٹی کے سادہ دل سابق طالب علم سوچنے اور سمجھنے کو تیار ہی نہیں۔ وہ نہ صرف خود میدان عمل میں ہیں بلکہ یونیورسٹی انتظامیہ کو بھی ہر لمحہ گمراہ کر رہے ہیں۔انہیں اندازہ ہی نہیں کہ ہماری انتظامیہ مکمل طورپر لارڈ میکالے ہی کی شاگرد ہے۔ سوچتا ہوں کہ بڑے آدمیوں کے سامنے سجدہ ریز بیوروکریسی کو یہ کیسے جگا پایئں گے۔

اب جناب سابق سینٹر صاحب نے چیف کمشنر اسلام آباد کو خط لکھا ہے کہ قائد اعظم یونیورصٹی کی انتظامیہ نے انہیں زمین خالی کرنے کے لئے ایک دھمکی آمیز نوٹس بھیجا ہے۔ان کا گھر تو اسی دن قانونی ہو گیا تھا جب وہ صدر بنے تھے، اس لئے قائد اعظم یونیورسٹی انتظامیہ کو کسی بھی غیر قانونی کام سے روکا جائے۔ان کے بقول اس سے پہلے بھی یونیورسٹی انتظامیہ نے ان کے خلاف کاروائی کی کوشش کی تھی مگر اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم امتناعی موجود ہے جو ان کے بیٹے اور ایک دوسرے شخص نے مل کر لیا تھا اور جس کے مطابق یونیورسٹی آئندہ سماعت تک وہاں موجود تعمیرات کو گرا نہیں سکتی اس لئے یونیوسٹی کی طرف سے کوئی کاروائی توہین عدالت بھی ہو گی۔ انہوں نے کہا یونیورسٹی نے مبینہ غیر قانونی قابضین کا نام دے کرمیرے خلاف نوٹس کی جس طرح تشہیر کی اور اسے سوشل میڈیا اور فیس بک پر جس طرح پھیلایا اور مجھے بدنام کرنے کی کوشش کی گئی اس کے خلاف وہ ایف آئی اے کے شعبہ سائبر کرائم سے رجوع کریں گے۔

میں جناب سینٹر صاحب سے ذاتی طور پر تو واقف نہیں مگر اخبارات میں ان کی شان اقدس میں جو قصیدے ماضی میں لکھے جاتے رہے

ان کے حوالے میں ہمیشہ ان کا پرستار رہا ہوں۔ کاش وہ میرے ذاتی واقف ہوتے تو میں دست بدست عرض کرتا کہ جناب آپ ایک بڑے آدمی ہیں اور بڑے آدمی کبھی خود سامنے آکر ڈاکہ نہیں ڈالتے۔ پاکستان میں کونسا بڑا آدمی ہے جو چوروں اور ڈاکوؤں کا سرپرست نہیں، جو لوٹ مار کا کوئی موقع چھوڑ دیتا ہو۔ مگر سامنے نہ آنے کے سبب وہ بدنامی سے بچ جاتا ہے۔کیچڑ میں پتھر پھینکنا ہو تو کسی فرنٹ مین، کسی کارندے ، کسی عام ورکر کو آگے کر دیں۔ جو ہو گا اس کے ساتھ ہو گا مگر اس گھٹیا عمل کے باوجود آپ کا لباس اجلا رہے گا۔ آپکی بدنامی بھی نہیں ہو گی۔ مگر میں آپ کو کیسے سمجھاؤں۔یہ شہری نوجوان جو عام لوگ ہیں جو بڑے لوگوں کے سفاک کلچر سے واقف ہی نہیں، میرے چھوٹے بھائی ہیں میرا ان پر زور چلتا ہے، میں انہیں سمجھا سکتا ہوں اور سمجھا رہا ہوں کہ بڑے آدمی ہمیشہ بڑے ہوتے ہیں۔ پچھلے ستر سال سے یہ براؤن انگریز اس ملک کی سیاہ و سپید کے مالک ہیں۔کچھ نہیں بدلا۔ کہتے ہیں با ادب با نصیب۔ اس ملک میں اگر نصیب بنانا ہے تو ان جعلی انگریزوں کا ادب کرنا سیکھو۔ کھل جا سم سم کی طرح ہر دروازہ کھلتا جائے گا۔ تھوڑا ضمیر کو ، تھوڑا غیرت کو مارنا ہوتا ہے جیسے یہ سب بڑے آدمی کرتے ہیں۔ میری دعا ہے آپ کی جدوجہد کامیاب ہو مگر ہوتا ہمیشہ یہی ہے کہ کوئی متحرک آفیسر آتا ہے ۔ آپ کو امید اور سینٹر صاحب جیسے قبضہ کرنے والے لوگوں کو پھرتیاں دکھاتا ہے اور اپنا حصہ وصول کرکے آپ کو پھر لال بتی کے پیچھے بھاگتا چھوڑ جاتا ہے۔

تنویر صادق
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 444721 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More