دل کہیں میکے میں

آج اتوار تھا اور حسب معمول گھر میں بہت رونق لگی تھی سب کی چھٹی تھی اتوار کو اس کی نندیں بھی آنے والی تھیں حسب معمول ،چھٹی کا دن سب ساتھ مل کر گزاریں اس لیے اس کی نندیں میکے آ جایا کرتیں تھیں اور یوں اتوار کا دن عید سے کم نا ہوتا تھا ،تمام گھر والے اس کے کمرے میں براجمان ہوتے تھے خوش گوار ماحول میں دن میں گزرتا تھا آج بھی صبح ہی اس کے شوہر نامدار نے کمرے کی سیٹنگ میں مدد کرواتے ہوۓ اماں کا ارشاد جاری کیا اماں کہہ رہی ہیں بہو سے کہو نیا جوڑا پہن کر اچھے سے تیار ہو جاۓ ،اور وہ سن کر مسکرا دی اس کی ساس ہر ہفتے اس کو نیا جوڑا پہنے کی تاکید کرتی جس کو کبھی وہ ٹال جاتی تو کبھی عمل کر لیتی،کیا سوچ رہی ہو شوہر نامدار نے اس کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہرایا،کچھ نہیں وہ آنکھوں میں آئ نمی کو صاف کرتے ہوۓ مسکرائ،اور کمرے کی سیٹنگ پر ایک آخری تفصیلی نگاہ ڈالنے کے بعد اماں (ساس) کے پاس چلی آئ جو تسبیح پڑھ رہی تھی اماں کیا منگواؤں پکانے کو ،اس نے اماں سے پوچھا تو وہ بولیں پتر تم تیار نہیں ہوئی ادھر آ میرے پاس بیٹھ وہ اسے پاس بٹھا کر اس کا سر سہلانے لگیں ،پتر تو ابھی نئی نئی دلہن ہے ابھی تو شادی کو چھ مہینے نہیں ہوۓ یوں حال بکھیر کے پھرتی ہے تیری عمر میں تو ہمارا میکپ اور مہندی پھیکی نہیں پڑتی تھی ،کتنی بار سمجھایا ہے تیار ہو کر رہا کر سجی سنوری،میری دھی تو پراۓ گھر کی ہو گئی ہیں اب تو میرے گھر کی رونق ہے تو زرا اپنے چہرے پر بھی رونق لا میری سوہنی دھی ،اور ابھی دن پڑا ہے ناشتہ سب نے کر لیا ہے سونی اور غزل جب آجائیں گی تو دن میں تینوں مل کے بنا لینا کھانا اب تو تیار ہو جا ،جا کے ،

اچھا اماں وہ اماں کی بات سن کر بے دلی سے تیار ہونے چلی آئ جب سے وہ سسرال بیاہ کر آئ تھی اس کے دل کے سارے ڈر جو آج تک سسرال کو لے کر تھے ظالم ساس نند دیور اور بے چاری بہو وہ سب دور ہو گۓ تھے وہ سوچا کرتی بہت ساری بد دعاؤں کے باوجود شائد کوئ چپکے سے دی گئ اس کے ماں بابا کی دعا لگ گئ اس کو کہ اس کو میکے کے بعد پھر سے میکہ مل گیا تھا ،اس کی ساس اس کی تعریفیں کرتی نا تھکتی تھی دیور اس کے حکم کو بجا لانا اپنا فرض سمجھتے تھے وہ جو اپنے گھر کی سب سے نا اہل نکمی بیٹی تھی ہمیشہ ڈر لاحق رہتا تھا کہ سسرال کی زمہ داری ساس کے نخرے کیسے برداشت کرے گی شوہر کے ناز کیسے اٹھاے گی جب سسرال آئ تو ہر ڈر دور ہو گیا اس کی ساس روایتی ساسوں سے بالکل الگ نکلی کبھی اس کے لیٹ اٹھنے دیر تک جاگنے سونے پر اعتراض نا کبھی اس کے روز آن لائن شاپنگ کے ڈھیروں پارسل جن پر اس کے بیٹے کے ہزاروں لگتے ماتھے پر بل ڈالا نا کبھی اس پر کسی کام کا بوجھ ڈالا اس کے چھ دیور دو نندیں تھیں نندوں کی شادی ہو گئ تھی اور دیور سب ابھی کنوارے تھے دیور اس کے بھائیوں اس کی نندوں کی طرح تھے جن کے ہوتے ہوۓ اسے سب آسان لگتا وہ کھانا بنا کے دیتی تو بوڑھی ساس اور دیور ممنون ہوتے کھانا کیا صرف سالن اور چاول بنایا کرتی روٹیاں پکانے کی وہ میکے میں بھی چور تھی ادھر آ کر بھی کہہ دیا اماں مجھے روٹی نہیں بنانی آتی آپ کے بیٹے کو پہلے بتایا تھا شادی سے پہلے کہ مجھ سے بس تین روٹی ٹھیک پکتی ہے پھر خراب ہونا شروع ہو جاتی ہیں اماں اس کی بات سن کر مسکرا دی تھی اچھا پتر کوئ بات نہیں تو تین بھی نا پکانا بازار سے آجایا کریں گی یا آٹا گوندھ دیا کر کبھی لگوا لایا کریں گے تندور سے بچے اور وہ خوش ہو گئ کہ چلو روٹیوں سے تو بچی ،اماں مجھے برتن دھونے سے بہت الجھن ہوتی ہے میرے ہاتھ خراب ہو جاتے سب رنگ کا ہاتھوں کا اس نے اپنے نازک ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے اماں کو کہا تو اماں مسکرا دی بیٹا تو نا دھونا یہ نکمے ہیں نا تیرے اتنے سارے دیور یہ دھو لیں گے برتن جب میری طبیعت ٹھیک ہوتی ہے میں دھو لیتی ہوں ورنہ یہ دھو لیتے ہیں اچھا اماں تھینک یو وہ خوشی سے مسکرا دی گھر کی صفائ بھی اس کے دیور اور ساس خود ہی کیا کرتے تھے اس کے زمہ بس اپنے کمرے کی صفائ تھی اس میں بھی برابر سے مدد شوہر نامدار کرواتے اور جب زیادہ کمرہ پھیلا لیتی تو دیور مدد کو آپہنچتے ساس حکم دیتی بھابھی کے ساتھ اس کے کمرے کی صفائی کرواؤ وہ بس سالن بناتی جس کی تعریف اس کے پورے سسرال نند اور تمام سسرالی رشتے داروں میں ہوتی اس کے ہاتھ میں ذائقہ بہت تھا اور کچھ اس کے سیدھے سادھے سسرال والے نے نئے منفرد سالن بس اس کے ہاتھ کے ہی پہلی بار کھا رہے تھے کیونکہ وہ سیدھے سادھے گاؤں جیسے لوگ تھے ،ان کے لیے یہ سالن بہت انوکھے تھے اور وہ ان کو سالن یا کوئ نئ چیز بنا کر اپنی زمہ داری سے بالکل آزاد ہو جاتی اور ساس خوشی سے پھولے نا سماتی کہ میری بہو کھانا بنا کر کھلاتی ہے کھانا بنانے کے بعد ہر چیز یونہی چھوڑ کے آجاتی کبھی اماں نے یہ نہیں کہا کہ سامان اٹھا کر رکھا کرو ہر وقت پتر پتر بیٹا کہتے اس کی زبان نا تھکتی تھی اور وہ حیران ہوتی ،کہ ساس تو بہت ظالم ہوتی ہیں یہ میری ساس اتنی اچھی کیسے ہے ،وہ تیار ہوتی تو ساس اس کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی نظر اتارتی کہتی تصویریں بنا لیا کر یاد ہوتی ہے ،ہمیشہ تاکید کرتی سجا سنورا کر اچھے اچھے کپڑے جو اتنے لیتی ہے پہنا بھی کر اس کے سسرال والے نارمل شکل و صورت کے سیدھے سادھے لوگ تھے اور وہ ان میں اندھوں میں کانا راجا تھی بہت حسین ایجوکیٹڈ فیشن سینس اور پھر نخریلی ساس اس کو دیکھ کر صدقے واری ہوتی کہ میری بہو جیسی میرے خاندان میں کوئ نہیں ہے دیور خوش ہوتے کہ ہماری بھابھی سب سے الگ ہے شوہر تو بس اس کو دیکھ دیکھ کہ جیتا کہ جیسے کوئ شہزادی لے آیا ہو اس کے ناز نخرے اٹھانا فرمائشیں پوری کرنا اس کو مہنگی شاپنگ کروانا اس کا اولین فرض تھا اور سب کو فخر سے کہتا کہ میری بیوی بڑی قسمت والی ہے اس کے نصیب کا اللہ مجھے بہت دیتا ہے اور سب سسرال والے اس کی بات سے سو فیصد ایگری ہوتے اور تب اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے جب اس کی ساس نے اس کو پاس بٹھا کر اس کے لمبے سلکی،الجھے بالوں کو کھولا اور کہا اتنے پیارے بال ہیں کیسے خشک کر رکھے ہیں اور تیل کی مالش شروع کر دی اور کہا ہر دو دن بعد مجھ سے تیل لگوایا کر یہ تیرے بال بہت لمبے ہونے والے ہیں ان کا خیال رکھا کر دنوں میں گھٹنوں تک آجائیں گے اور پھر اماں اس کے بالوں میں تیل لگاتی چٹیا کرتی ،اور وہ حیران ہوتی کہ ایسی ساس تو فلموں ڈراموں میں ہوتی تھیں اپنی ممی سے سنا کرتی تھی مگر آج خود ایسی ساس سسرال پا کر وہ خوش تھی کہ اس میں تو کوئ ایسی کوالٹی نا تھی اللہ کو اس کی کون سی نیکی تھی اور کون سی دعا تھی جو اسے لگی ،تھی اس کو سسرال میں کوئ کمی نا تھی مگر میکے کی کمی کی کسک ایک ایسی کسک تھی جو ہر وقت اس کے دل کو اداس رکھتی تھی ،اس کی نظر دروازے سے لگی رہتی تھی کہ شائد کبھی اس کے میکے سے کوئ آۓ اس کو آکر گلے لگا لے اور کہے ہم نے تجھے معاف کیا اس گناہ اس غلطی کے لیے جس کے لیے ان کا دل بہت دکھا جس غلطی کے لیے اس پر اس کے گھر کے دروازے اس پر بند ہو گۓ تھے ،ہم غیر برادری میں شادی نہیں کرتے اپنی بیٹی کسی اور برادری میں دینے سے بہتر کنواری بیٹھی رہے اس کے گھر والوں کی سوچ سختی کبھی اس کو ہمت نہیں دے پائ تھی کہ وہ اپنے دل کی بات کسی کے سامنے کر سکے اور بس پھر پتہ نہیں کب کیسے اپنی محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس نے کورٹ میرج کا فیصلہ کر لیا تھا اس کے شوہر کی پوری فیملی اس کے لیے راضی تھی اور دل سے اس کا ویلکم کیا تھا اس کو اس کے شوہر نے گھر میں خاندان میں عزت دلوائی بڑی بہو کا مقام دلوایا تھا اس نے اپنے مرتے ہوۓ محبوب کا جینے کی امید تھی اس کی ایک ہاں اسے زندگی کی طرف واپس لے آئ تھی اس کی ساس اس کی شکر گزار تھی کہ اس نے اس کے بیٹے کو اس کی محبت دے کر اس کے بیٹے کی زندگی بچائ تھی اور وہ خوش تھی کہ اس کا محبوب اس سے اتنی محبت کرتا تھا اور اس نے اس پاک محبت جو ملاقاتوں اور کسی بھی ہوس سے دور تھی کو نکاح جیسے مقدس رشتے میں باندھا تھا ہاں مگر اس نکاح اس شادی کے بعد اس کے اپنے اس سے دور ہو گۓ تھے اور اس کو اس کے بدلے بہت الزام جو کوئ ایک بھی سچ نا تھا سہنے اور سننے پڑے تھے مگر اس نے سب خاموشی سے سہا تھا اس کا دل سخت نہیں تھا مگر اس کو خود کو سخت بنا دیا تھا اندھا بہرا گونگا شائد اس نا معاف کرنے والی غلطی کی سزا کے لیے اور اس کا شوہر ہر وقت اس کی دلجوئی کرتا مگر آج بھی دل اس کا کہیں میکے میں تھا کبھی لگتا تھا اس کا پاپا آواز دے رہا ہے کبھی بہن اس کے ساتھ شرارت کرتی نظر آتی تو کبھی بھائ اپنے قصے اپنی باتیں سناتا دکھائ دیتا دل لگاتا ہوا اور اپنی ماں اسے کبھی بھولی ہی نہیں تھی جو اس سے بے انتہا پیار کرتی تھی جس کو بیماری کہ باعث بہت غصہ آتا تھا مگر پھر غصے کہ بعد خود ہی پچھتاتی تھی کبھی اس کو چاۓ پیتے ہوۓ ماں کے ہاتھ کا ذائقہ یاد آتا تو کبھی کھانے کے وقت ماں کے ہاتھ کا بنا کھانا کبھی ساس پیار سے بلاتی تو ماں سامنے آجاتی مگر اب رشتے اس کے مقدر میں کب تھے مگر وہ خود ماں کے عہدے سے نوازے جانے والی تھی اس کی ساس بہت خوش تھی اس کا شوہر اور ساس کہتے تھے ہمارے ہاں بیٹی ہو اور وہ نور جیسی ہو اس سے اچھی بیٹی کوئ نہیں ہو سکتی اس کا شوہر کہتا تھا میری بیٹی میری گڑیا تم جیسی ہو گی تو مجھے فخر ہو گا اور وہ سوچتی تھی کہ میں کب اچھی بیٹی ہوں مگر ناجانے پھر بھی اس کی شوہر اور ساس کو اس میں کیا دکھائ دیتا تھا جو دعا کرتے تھے کہ بیٹی ہو تو تم جیسی ،بھابھی آج تو آپ بہت پیاری لگ رہی ہو اس کی نند نے آ کر اس کے گلے میں لاڈ سے بانہیں ڈالتے ہوۓ کہا تو وہ خیالوں سے باہر آگئ اور میک اپ کا لاسٹ ٹچ پورا کرتے ہوۓ مسکراتے ہوۓ غزل سے مخاطب ہوئ تم کب آئ ،
جب میری پیاری بھابھی تیار ہوتے ہوۓ گہری سوچ میں گم تھی بس اسی وقت آئ ،اچھا جی ،وہ مسکرائ بھابھی ایک بات بتاؤ ں غزل نے مسکرا کر اور تھوڑا شرما کر کہا ؟
جی بتاؤ میری جان نور نے پیار سے پوچھا تو وہ بولی بھابھی میری طرف بھی گڈ نیوز ہے میں امید سے ہوں ،
سچ ارے یہ تو بہت اچھی خبر سنائی تم نے اللہ کا لاکھ شکر اللہ پاک پیارا سا بیٹا دے تمہیں ۔
بھابھی بیٹا نہیں بیٹی دانش کو اور مجھے بیٹیا بہت پسند ہیں اور اللہ جس کے گھر پہلی اولاد کی صورت بیٹی دیتا ہے اس سے راضی ہو جاتا ہے اور میں نے تو آج نماز فجر کے بعد دعا کی ہے کہ خدا مجھے نور بھابھی جیسی بیٹی دے ،
چپ پاگل ایسے نا کہہ اس نے غزل کے ہونٹوں پر جلدی سے انگلی رکھی تو غزل نے اس گلے لگا لیا بھابھی سب میں مجھے خوشی ہو گی آپ جیسی بیٹی ہوئ تو اور اس کی آنکھیں پھر سے آنسوؤں سے بھیگ گئیں ان محبتوں کو پا کر نا جانے جو کن بددعاؤں کے درمیان چوری چوری نیکی کی صورت مل رہی تھیں اور اس نے فیصلہ کر لیا اپنی زندگی کو خاموش راز کی صورت جینے کا اور آج اس نے اپنے دل کے اندر امید کی سبھی کھڑکیاں سبھی در بند کر دیے جو بار بار بجتے تھے کہ اس کے دروازے پر کبھی اس کے میکے سے کوئ آۓ گا یہ احساس جگاتے تھے ۔آج اس نے یہ خود کو باور کرا دیا تھا کچھ دروازوں کے تالوں کی چابیاں نہیں ہوتیں اور کچھ دروازے کبھی نہیں کھلتے ،


 

Nosheen Tahir
About the Author: Nosheen Tahir Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.