تاریخ خیر پور / نسیم امروہوی(طبع دوم)

تاریخ خیر پور / نسیم امروہوی(طبع دوم)
٭
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
نسیم امروہوی کی کتاب ’تاریخ خیر پور‘ چند دن قبل محمد عارف سومرو نے مجھے تحفہ میں دی۔ کتابیں اور بھی تھیں لیکن یہ کتاب دیکھ کر نسیم امرہوی کی اردو ادب و زبان کے لیے خدمات کی ایک فلم ذہن میں چلنے لگی اور اسی لمحہ میں نے کتاب کا مطالعہ شروع کردیا ساتھ ہی اس پر اظہاریہ کا فیصلہ بھی کیا۔ نسیم امرہوی کی مرتب کردہ لغت بعنوان ”نسیم اللغات“میں استعمال کرتا رہا ہوں۔ نسیم امرہوی کی یہ تصنیف 66سال قبل 1955ء میں پہلی مرتبہ شائع ہوئی تھی۔ ورثہ پبلی کیشنز نے نسیم امروہوی میموریل سوسائیٹی، ٹورنٹو، کینیڈا کے اشتراک سے سال رواں میں شائع کی۔ اس کتاب نے گویا شہر خیر پور کے ماضی کو از سر نو تازہ کردیا۔ نسیم ا مروہوی ایک شخصیت کا نام نہیں بلکہ ایک ادارہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ ادب کے لیے ان کی خدمات تعداد اور معیار کے اعتبار سے منفرد ہیں۔ شاعری میں مرثیہ نگاری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اسی طرح لغت نویسی میں اپنے جوہر دکھائے اور ایک معیاری اردو لغت ترتیب دی، صحافی کی حیثیت سے سہ روزہ”مراد“ کے مدیر بھی رہے،وہ فاضل ادیب و فاضل فقیہ بھی تھے۔ وہ ایک مورخ بھی تھے۔پیشِ نظرتصنیف تاریخ نویسی پر عمدہ کاوش ہے۔ یہ تصنیف اس اعتبار سے منفرد ہے کہ پاکستان ہجرت کے بعد انہوں نے خیر پور کو اپنا مسکن بنایا، خیر پور کی تاریخ کا مطالعہ کیا جس کی بنیاد پر خیرپور کو زندہ جاوید کردیا۔ کریم بخش خالد جنہوں نے کتاب کا پیش لفظ بعنوان ”ہمارے شہر کا ایک زندہ شاعر اور ادیب‘لکھا۔ انہوں نے نسیم امروہوی کی من جملہ شخصی خصوصیات، علمی و ادبی خدمات کا سیر حاصل احاطہ کیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ پاک و ہند کے مورخ،جامعہ کراچی میں تاریخ کے استاد اور شیخ الجامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر محمود حسین نے کتاب کا تعارف تحریر فرمایا۔ انہوں نے لکھ ’میں نے زیر نظر تاریخ کو دیکھا، میں سمجھتا ہوں کہ نسیم صاحب نے یہ تاریخ بڑی محنت اور جستجو سے مرتب کی ہے۔ بہت مطالعہ کے بعد کتاب لکھی گئی ہے اور خیر پور کے متعلق تمام اہم تاریخی واقعات کتاب میں آگئے ہیں۔ نسیم صاحب کا اندازِ تحریر دل نشین ہے اور ترتیب میں بڑے سلیقہ سے کام لیا گیا ہے‘۔طبع دوم میں ’حرفِ تشکر‘ عقیل عباس جعفری صاحب نے تحریر کیا ہے۔ عقیل عباس جعفری نے لکھا ”جناب نسیم امروہوی کی وجہ شہرت مرثیہ نگاری اور لغت نویسی ہے لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ ایک مورخ بھی تھے۔ ان کی یاد گار تصانیف میں تاریخ خیر پور بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ تاریخ پہلی مرتبہ کتابی صورت میں 1955میں منظر عام پر آئی تھی۔ اس وقت ریاست خیر پور اپنی جداگانہ حیثیت برقرار رکھے ہوئے تھی۔ 1955کے اواخر میں یہ ریاست صوبہ مغربی پاکستان میں ضم ہوگئی اور 1970میں صوبہ سندھ کا حصہ بن گئی۔ جناب نسیم امروہوہ کی اس تاریخ کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے‘۔
نسیم امروہوی تصانیف و تالیفات کے حوالہ سے اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ انہوں نے پاکستان ہجرت سے قبل ہندوستان کی سرزمین میں رہتے ہوئے بے شمار کتابیں تحریر کیں اور پاکستان آنے کا بعدبھی تحریر و تصنیف کا سلسلہ جاری رہا۔ کریم بخش خالد نے ان کی تصانیف کی فہرست بھی اپنی تحریر میں شامل کی ہے۔ پاکستان سے شائع ہونے والی تصانیف میں نسیم اللغات،آئین اردو، ادبی کہانیاں، ملاپ (ناول)، گلزار نسیم، الصرف (قواعد عربی)، النحو (عربی قواعد)، ان کے علاوہ درسیات کے سلسلہ میں بھی انہوں سولہ ریڈریں مرتب کیں۔ ہندوستان میں ان کی جو تصانیف شائع ہوئیں ان میں نسیم البلاغت، خطباتِ مشران، جنگ عالمگیر، حل حدائق البلاغت، حل معیرا لا شعار محقق طوسی، انتخاب میرؔ، سفر نامہ ناصرالدین شاہ قاچار، دفترابوالفضل ہرسہ حصہ، الفلسفہ، المنطق، معراج العروض، برق وباراں، ساز حریت اور رضوان جنت سے کشمکش شامل ہیں۔ عام طور پر رواج ہے کہ کتاب کے ابتدا میں کتاب میں شامل موضوعات یا ابواب کی فہرست دی جاتی ہے تاکہ قاری کتاب کا مطالعہ شروع کرنے سے قبل ہی فہرست عنوانات سے معلوم کر لے کہ اس میں کن کن موضوعات کااحاطہ کیا گیا ہے۔پیش نظر تصنیف میں فہرست عنوانات کی کمی محسوس ہوتی ہے،اگر طبع اول میں فہرست نہیں بھی تھی تو طبع دوم میں فہرست شامل کی جاسکتی تھی۔ امید ہے آئندہ آنے والے ایڈیشن میں فہرست شامل ہوسکے گی۔کتاب کے متن کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے خیر پور شہر کی تاریخ، سیاست، معاشرت، تہذیب و تمدن، علمی، ادبی فضاء کا احسن طریقے سے احاطہ کیا ہے۔ ابتدا میں ’ریاست خیر پور کا تعارف‘ہے جس میں جغرافیائی وضعیت، آبادی اور تمدن، زبان، صنعتیں، کارخانے، تعلیم، دواخانے، حمل و نقل، واٹر ورکس، بجلی اور نظام حکومت کا سرسری ذکر ہے۔ خیر پور کی تاریخ کا پس منظر بیان کرتے ہوئے مصنف نے قدیم سندھ کے تناظر میں سندھ میں مسلمانون کا اقتدار، مغلوں کی حکومت، عباسی کلہوڑوں کا سندھ پر قبضہ کی تفصیل فراہم کی ہے۔ ’سندھ میں میران ِ ٹالپور کی ابتدا‘انگریزوں کے قبضہ، تالپوروں کے دور حکومت سندھ میں میران خیر پور کا دائرہئ اثر، کلہوڑوں اور تالپوروں کا سندھ میں تصرف گورنر اور جاگیرداروں کی حیثیت، دونوں کے درمیان نزاع اور معرکے، میران کی حکومت کی داغ بیل کا ذکر ہے۔ کلہوڑوں اور ٹالپوروں کی جنگ کی روداد ہے، پورے سندھ میں میروں کی مسلمہ حکومت کی کہانی، میران خیر پور کی خانہ جنگی کا حال بیان کیا گیا ہے۔میر رستم خان کا دور حکومت، میر علی مراد کی وفات اور ان کی لاش کی کربلا معلی روانگی، ساتھ ہی میر علی مراد کی فارسی شاعری پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ میر فیض محمد خان اول کا عہد، میر امام بخش کا عہد حکومت، میر علی نواز خان کا عہد حکومت، میر فیض محمد خان دوم کا عہد حکومت، میر علی نواز خان ٹالپور ثانی کے ریاست خیر پور تقسیم ہند کے بعد کی تفصیل پر روشنی ڈالی گئے ہے جسے ریاست کا عہد زرین کہا گیا ہے۔ قائد اعظم کی تین امانتوں کا ذکر ہے، ریاست خیر پور میں پہلی جمہوری حکومت کی کہانی ہے، خیر پور کا پہلا اخبار ”مراد“ کی تفصیل ہے، خیر پور کے پرانے دستور کی منسوخی اور نئے دستور کا نفاذ، خیر پور کی اقتصادی صورت حال کا ذکر، خیر پور کے باشندوں کا سیاسی شعور، خیر پور میں آباد کاری، خیر پور میں طب یونانی اور ہومیوپیتھک کی صورت حال،معماران خیر پور کا ذکر ہے جن میں خان بہادر قادر داد خان، سردار محمد یعقوب، خان بہادر شیخ صادق علی انصاری، شیخ محمد قادر، خان بہادر سیداعجاز علی، مرزا ممتاز حسن قزلباش، شیخ بہاء الدین، مسٹر اے ایم سیال، صاحبزادہ میر علی مرداں خان ٹالپور، صاحبزادہ میر عطا حسین خان ٹالپور، مسٹر عبد الحسین جعفری شامل ہیں۔ خیر پور اور مسئلہ کشمیر پر روشنی ڈالی گئی ہے، ہزہائی نس کے اساتذہ مولوی رفیع عالم، یکتا امروہوی اور سید پنا علی شاہ کے بارے میں اظہار خیال ہے۔ آخر میں کتاب کی تدوین میں معاونت کرنے والوں کے شکریہ پر کتاب کا اختتام ہوتا ہے۔
خیر پور پاکستان کا خاص طور پر سندھ کا ایک اہم ضلع ہے جس نے پاکستان کو بے شمار اہم شخصیات سے روشناس کرایا جنہوں نے مختلف شعبوں میں قابل قدر خدمات انجام دیں۔خیر پورسے تعلق رکھنے والی اہم اور معروف شخصیات میں سچل سرمست، صبغت اللہ شاہ راشدی، پیر پگارا، علی مراد ٹالپور، سید غوث علی شاہ، سید قائم علی شاہ، علامہ علی شیر حیدری، علامہ ثابت علی نجفی، یوسف خٹک، علامہ محمد پہنورشامل ہیں۔یوں تو خیر پور نے بے شمار علمی ادبی سیاسی شخصیات کو جنم دیا یہا ں میں پروفیسر خورشید حیدر زیدی کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جن کے خاندان نے 1950 ء میں پاکستان ہجرت کی اور خیر پور کو اپنا مسکن بنایا،1970 ء کی دہائی میں لیکچرر مقرر ہوئے اور خیر پور میں تعلیمی خدمات انجام دیں،1992 ء میں کراچی تبادلہ ہوا، گورنمنٹ کالج فار مین، ناظم باد میں استاد رہے 2000ء میں کالج پرنسپل ہوئے اوراسی حیثیت سے اسی کالج سے ریٹائر بھی ہوئے۔ راقم کا تبادلہ عبدا للہ ہارون گورنمنٹ کالج سے 1997ء میں گورنمنٹ کالج فار مین، ناظم بادہوگیا اس وقت خورشید صاحب ہمارے شریک کار ہوئے پھر ہمارے پرنسپل بھی ہوگئے۔ نفیس، ملن سار، ہنس مکھ انسان ہیں۔ ان کے ساتھ کئی سال بہت اچھے گزرے جو یاد گار ہیں۔ خیر پور کے حوالے سے ان کی خدمات بھی قابل ذکر ہیں۔ پاکستان کی تاریخ خاص طور پر سندھ کی تاریخ اور ضلع خیر پور کی تاریخ پر نسیم امروہوی کی یہ کتاب اہم معلومات فراہم کرتی ہے۔بہترین تاریخی کتاب ہے۔اسے تمام کتب خانوں کی زینت ہونی چاہیے۔ورثہ پبلی کیشن نے کتاب طبع دوم کے طور پر شائع کر کے علمی کارنامہ انجام دیا ہے۔ (17اکتوبر2021ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1281671 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More