بیلٹ اینڈ روڈ کا ترقیاتی وژن

چین کی جانب سے پیش کردہ "بیلٹ اینڈ روڈ" انیشیٹو کو رواں برس 8 سال مکمل ہوچکے ہیں۔ گزشتہ 8 سالوں کے دوران "بیلٹ اینڈ روڈ" سے وابستہ ممالک نے ترقی کے مضبوط مواقع اور ٹھوس ثمرات حاصل کیے ہیں۔ اس منصوبے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تا حال 172 ممالک اور عالمی تنظیموں نے چین کے ساتھ " بیلٹ اینڈ روڈ " انیشیٹو کے تحت تعاون کی 200سے زائد دستاویزات پر دستخط کر چکے ہیں ۔چین اور بی آر آئی شراکت داروں کے درمیان مجموعی تجارتی حجم 9.2 ٹریلین امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے جبکہ "بیلٹ اینڈ روڈ " سے وابستہ ممالک میں چین کی مجموعی براہ راست سرمایہ کاری 130 ارب ڈالرز سے تجاوز کر چکی ہے ۔ اس وقت دنیا کے وسیع اور عظیم ترین عالمی تعاون پلیٹ فارم کی حیثیت سے "بیلٹ اینڈ روڈ" انیشیٹو نے مختلف ممالک اور خطوں کو باہمی سود مند تعاون اور مشترکہ ترقی کا نیا موقع فراہم کیا ہے ۔ پاکستان کی ہی مثال لی جائے تو چین پاکستان اقتصادی راہداری بیلٹ اینڈ روڈ کا مثالی منصوبہ کہلاتی ہے ۔سی پیک کے تحت پاکستان بھر میں تعمیراتی منصوبے جاری ہیں اور یہ اعلیٰ معیار کی ترقی کے نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔چین کی جانب سے ابھی حال ہی میں چین پاک اقتصادی راہداری کی تعمیر میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی حمایت اور سرمایہ کاری کو سراہا گیا ہے ۔ چین نے کہا ہے کہ وہ دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت کے درمیان طے شدہ اتفاق رائے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہاں ہے، تاکہ موجودہ منصوبوں کی بنیاد پر صنعت، زراعت، سماج اور لوگوں کے معاش سمیت دیگر شعبوں میں تعاون پر مزید توجہ مرکوز کی جا ئے اورسی پیک کو "بیلٹ اینڈ روڈ" کے تحت اعلی معیاری ترقی کا ایک مثالی منصوبہ بنایا جائے ۔چین نے یہ توقع بھی ظاہر کی کہ پاکستان کاروباری ماحول کو بہتر بنائے گا اور دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں کاروبار کے لیے مزید سہولیات فراہم کرے گا۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور دیگر مختلف قومی رہنماوں کا بھی یہ کہنا ہے کہ سی پیک کی تعمیر ، پاکستان کی ترقی کے لیے انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ امید ہے کہ چین کے ساتھ تعاون کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے اور چین کے شاندار ترقیاتی تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے سی پیک کی اعلیٰ معیار کی ترقی کے ذریعے پاکستان کے لیے ایک بہتر مستقبل یقینی بنایا جائے گا۔

جہاں تک چین کی جانب سے بیلٹ اینڈ روڈ کو آگے بڑھانے کا تعلق ہے تو ابھی حال ہی میں بیجنگ میں تیسرے "بیلٹ اینڈ روڈ" تعمیراتی سمپوزیم کا انعقاد کیا گیا جس میں اس منصوبے کی ترقی کا ایک خاکہ تشکیل دیا گیا ہے۔بی آر آئی کے تصور کے خالق چینی صدر شی جن پھنگ نے اس موقع پر زور دیا کہ اعلیٰ معیار اور پائیدار ثمرات کے اہداف کی روشنی میں بیلٹ اینڈ روڈ کے نئے ترقیاتی تصور پر کامل، درست اور جامع طور پر عمل درآمد کیا جائے جس کا مقصد لوگوں کے معاش میں بہتری ، باہمی ربط اور تعاون کی مضبوطی، بین الاقوامی تعاون کے لیے نئے امکانات کو وسعت دینا اور خطرات کی روک تھام اور کنٹرول کا نیٹ ورک قائم کرنا ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ بی آر آئی کی تعمیر میں اعلیٰ سطح کے تعاون، سرمایہ کاری کی بلند صلاحیت، اعلیٰ سپلائی کوالٹی، اعلیٰ ترقیاتی لچک اور مشترکہ تعمیر کو فروغ دینے کی جستجو کی جائے۔ صدر شی جن پھنگ نے مزید کہا کہ "بیلٹ اینڈ روڈ" کی اعلیٰ معیار کی ترقی نے مسلسل نئے ٹھوس نتائج حاصل کیے ہیں۔

یہاں اُن کی جانب سے واضح کیا گیا کہ بیلٹ اینڈ روڈ کی تعمیر میں وسیع مشاورت، مشترکہ تعمیر اور اشتراکی ترقی کے اصولوں کی بنیاد پر رابطوں کو مزید فروغ دیا جائے گا ۔انہوں نے نشاندہی کی کہ "بیلٹ اینڈ روڈ" کی مشترکہ تعمیر میں درپیش نئی صورتحال کا درست ادراک ضروری ہے۔ اس وقت دنیا ایک صدی کی ان دیکھی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے۔ سائنسی وتکنیکی انقلاب اور صنعتی تبدیلی کے نئے دور میں غیرمعمولی مسابقت کا سامنا ہے۔ عالمی مسائل جیسے موسمیاتی تبدیلی اور وبا کی روک تھام اور کنٹرول جیسے چیلنجز درپیش ہیں۔ایسے میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا بین الاقوامی ماحول تیزی سے پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔لہذا بی آر آئی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے سٹریٹجک عزم برقرار رکھا جائے، تزویراتی مواقع سے فائدہ اٹھایا جائے، ترقی اور سلامتی کو مربوط کرنا چاہیے، ملکی اور بین الاقوامی تعاون اور جدوجہد کو مربوط کرنا چاہیے، ، چیلنجز کا فعال طور پر جواب دینا چاہیے، مفادات کی جستجو کرنی چاہیے اور نقصانات سے بچتے ہوئے جرات سے آگے بڑھنا چاہیے۔

شی جن پھنگ نے ترقی کی بنیاد کو مضبوط کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بیلٹ اینڈ روڈ ممالک کے لیے لازم ہے کہ سیاسی باہمی اعتماد سازی کو گہرا کیا جائے، پالیسی مشاورت کے رہنما کردار کے تحت تعاون کی نئی راہیں تلاش کی جائیں اور سیاسی اتفاق رائے کو ٹھوس اقدامات میں تبدیل کیا جائے ۔اس ضمن میں یہ ضروری ہے کہ بلا روک ٹوک تجارت کو مزید گہرا کیا جائے، ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت کے پیمانے کو وسعت دی جائے، مزید اعلیٰ معیار کی اشیا کی درآمدات کی حوصلہ افزائی کی جائے، تجارت اور سرمایہ کاری میں سہولت کاری کو فروغ دیا جائے ، اور تجارت کی متوازن اور سودمند ترقی کو فروغ دیا جائے۔انہوں نے نشاندہی کی کہ تعاون کے نئے شعبوں کو مسلسل وسعت دینا ضروری ہے۔ صحت، گرین ترقی، ڈیجیٹل، اور اختراع جیسے نئے شعبوں میں مسلسل تعاون کو آگے بڑھانا اور تعاون کے لیے ترقی کے نئے امکانات کو فروغ دینا ضروری ہے۔یہ ضروری ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں سبز اور کم کاربن توانائی کی ترقی میں مدد کی جائے۔ اس موقع پر انہوں نے خطرات کی روک تھام اور کنٹرول کو جامع طور پر مضبوط بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

یہ بات اچھی ہے کہ چینی صدر نے موجودہ دور کے تقاضوں کے عین مطابق ڈیجیٹل شعبے میں تعاون کو گہرا کرنے، "سلک روڈ ای کامرس" کو فروغ دینے اور ڈیجیٹل تعاون کا نمونہ تیار کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔ سائنسی و تکنیکی اختراعی ایکشن پلان پر عمل درآمد، دانشورانہ املاک کے تحفظ میں بین الاقوامی تعاون کی مضبوطی، اور سائنسی و تکنیکی ترقی کے لیے ایک کھلا، منصفانہ، شفاف اور غیر امتیازی ماحول پیدا کرنا ضروری ہے، یہی وہ بنیادی عوامل ہیں جو بیلٹ اینڈ روڈ کو آج دنیا میں رابطوں کے فروغ کا سب سے بڑا وژن ٹھہراتے ہیں۔ اصل امتحان یہی ہے کہ پاکستان سمیت بیلٹ اینڈ روڈ سے وابستہ دیگر ممالک اپنی معاشی پالیسیوں میں کیا ایسی تبدیلیاں لاتے ہیں جن کی بدولت وہ صحیح معنوں میں چین کی ترقی کے تجربے اور بی آر آئی کے ثمرات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔


 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 965 Articles with 414883 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More