’’ہوشے‘‘
بھورے اورسنہرے رنگ کی بلند و بالانوکیلی چٹانیں جوفلک بوس میناروں کی طرح
نظر آتی ہیں، کسی جادونگری کا حصہ معلوم ہوتی ہیں
ملک کے شمالی خطے میں خوبصورت گاؤں’’ ہوشے‘‘ دنیا کی 24ویں اور پاکستان کی
نویں بلند ترین چوٹی میشابروم کے دامن میں واقع ہے۔ اس چوٹی کو کے ون بھی
کہا جاتا ہے اوریہ سطح سمندر سے 23463فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ پرصعوبت،
کٹھن اور دشوار گزار راستوں کی وجہ سے گلگت بلتستان کے پہاڑوں کے درمیان بے
شمار گاؤں دنیا کی نظروں سے اوجھل ہیں، ان ہی میں سے 10,800فٹ کی بلندی پر
ہوشے نامی جادوئی مناظر والا علاقہ بھی ہے، جہاں پہنچنا جان جوکھوں کا کام
ہے لیکن اسے ایک مرتبہ دیکھنے والے لوگ یہاں بار بار آنے کی خواہش رکھتے
ہیں۔ یہ گلگت کے ضلع گانچھے کا انتہائی پسماندہ گاؤں ہے، یہاں تک پہنچنے
کے لیے انتہائی خطرنا ک رہ گزاروں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اسکردو سے خپلو تک کا
فاصلہ 102کلومیٹر ہے، یہاں تک پختہ سڑک بنی ہوئی ہے، اس سے آگے ہوشے تک کا
سفرپہاڑی راستوں پر جیپ کے ذریعے کیا جاتا ہے جوایک ہیبت ناک تجربہ ہوتا
ہے۔ خپلو سے ہوشے تک کا فاصلہ صرف 38کلومیٹر ہے لیکن مشکل ترین پہاڑی
راستوں، تنگ و تاریک دروں، گھاٹیوں ، بل کھاتی ہوئی پگڈنڈی نما کچی سڑک کی
وجہ سےمذکورہ فاصلہ سیکڑوں کلومیٹر پر محیط معلوم ہوتا ہے۔ ہوشے تک پہنچنے
کے لیے سیاح خپلو پہنچ کر وہاں سے بذریعہ جیپ دریائے شیوک کے ساتھ ساتھ کچھ
دیر پختہ سڑک پر سفر کرتے ہیں۔ دریا پر بنے ایک طویل معلق پل کو پار کرنے
کے بعد سیلنگ کا علاقہ شروع ہوتا ہے جہاںپرپیچ راستے پر گھنے درختوں کے
جھنڈ میں دونوں اطراف مٹی، گارے اور لکڑی کے مکانات بنے ہوئے ہیں۔ سیلنگ کے
قصبے کے بعد کچی سڑک بلند سے بلند تر ہوتی جاتی ہے۔یہاں سے ہوشے کے قصبے کا
آغاز ہوتا ہے۔ ناہموار راستے، چٹانی پتھروں پر جیپ اچھلتی ہوئی چلتی ہے
اور دوران سفر سیاح کوہر دم یہی دھڑکا رہتا ہے کہ وہ کہیں پھسلتا ہو ا جیپ
سے نیچے نہ گر جائے، اس راستے پر گرنے کا مطلب خوف ناک کھائی اور گھاٹیوں
میں پتھروں سے ٹکراتے ہوئے دریائے ہوشے میں گرناہوتا ہے۔راستے میں مچلو اور
دوسرے چھوٹے بڑے پہاڑی گاؤں آتے ہیں، جہاںسے میشابروم کی عظیم الشان
پہاڑی چوٹی نظر آتی ہے۔ نیچے گہرائی میں دائیں جانب دریائے ہوشے بہتا
ہوادکھائی دیتا ہے۔ دریا کی دوسری جانب ایک سرسبز و شاداب گاؤں پہاڑوں کے
دامن میں ایک گول پیالے کی شکل میں نظرآتا ہے۔ اس کے پیندے کے اندر گندم
کے سر سبزلہلہاتے ہوئے کھیت اور چند کچے مکانات بنے ہوئے ہیں۔ جوں جوں آگے
بڑھتے ہیں، گردونواح میں پہاڑی راستے بھی تنگ ہونےلگتے ہیںحتی کہ بلند و
بالا پہاڑی سلسلے عمودی شکل کی وجہ سے، دونوں اطراف اونچی دیواروں کی طرح
نظر آنے لگتے ہیں۔یہاں سے ایک کچا راستہ نیچے رسوں کے پل پر سے ہوتا ہوا
’’کھانے‘‘ نامی گاؤں کی طرف جاتا ہے ۔ ہوشے کا یہ علاقہ اپنے مشہور زمانہ
گرینائٹ ٹاورز کی وجہ سے ’’فینٹسی ورلڈ‘‘ کے نام سےمعروف ہے۔بھورے اورسنہرے
رنگ کی بلند و بالانوکیلی چٹانیں جوفلک بوس میناروں کی طرح نظر آتی ہیں،
کسی جادونگری کا حصہ معلوم ہوتی ہیں۔پراسرار انداز میں ایستادہ یہ
چٹانیںانتہائی پرکشش دکھائی دیتی ہیں۔جیسے جیسے آگے بڑھتے ہیں ان کی بلندی
میں اضافہ ہوتا جاتاہے۔ سیاح پرصعوبت لیکن مسحور کن مناظر والے راستوں
سےگزرتے ہوئے ’’کاندے‘‘ نامی گاؤں پہنچتے ہیں۔
یہ ہوشے سے پہلے ایک مشہور گاؤں ہے، جہاں سے کوہ پیما اور ٹریکر حضرات کی
ٹیمیں ’’کے سکس‘ اور ’کے سیون‘ کے لئے اپنی مہمات کا آغاز کرتی ہیں۔’’کے
سیون‘‘ اور’’ کے سکس‘‘ کی طرف جانے کے لیے ہوشے سے بھی راستہ جاتا ہے لیکن
ٹریکر حضرات کا کہنا ہے کہ کاندے کے علاقے سے ان چوٹیوں کا منظر زیادہ واضح
معلوم ہوتا ہے۔کاندے گاؤں اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ یہاں سے
ہوشے تک جانےکے لئے جیپ تبدیل کرنی پڑتی ہے۔چند سال پہلے لینڈ سلائیڈنگ کی
وجہ سے پہاڑی تودے تندو تیز دریا پر بنےپل اوربے شمار مکانات کو سمیٹتے
ہوئےدریا کی گہرائیوںمیںجا گرے تھے۔ مذکورہ پل ہوشے کی جانب جانے والے
راستے پر تعمیر کیا گیا تھا جس کے ٹوٹنے کے بعد جیپوں کے آگے جانے کا
راستہ مسدود ہوگیا ہے۔چند جیپ مالکان نے انتہائی تگ و دو کے بعدکچھ جیپیں
دریا کے دوسرے کنارے پر پہنچادی ہیں، جہاں سے وہ مسافروں کو ہوشے تک لےکر
جاتی ہیں۔ اس مقام پر سیاح جیپ سامان سمیت اتر کر کچھ دیر آرام کرتے ہیں
یا قریب میں واقع ہوٹل میں جا کرچائے اور اشیائے خورونوش سے لطف اندوز ہوتے
ہیں، مذکورہ ہوٹل پر ’’کے سیون ہوٹل‘‘ کے نام کی تختی لگی ہوئی ہے۔ اس کا
ماحول انتہائی سادہ ہے،لکڑی کی کھڑکیوں سے باہر کا منظر نہایت دل فریب نظر
آتا ہے۔مذکورہ ہوٹل میں دیواروں اور کھڑکیوں پرہرجگہ پر پوسٹر یا
اسٹیکرلگے نظر آتے ہیں۔ تمام ا سٹیکراور پوسٹرفلک بوس چوٹیوں اور مختلف
مہمات کی منظر کشی پر مبنی ہیں جن میں کئی چوٹیوںکا تعارف، پہاڑی دروں اور
گلیشئیروں کے متعلق معلومات ملتی ہیں۔اسی ہوٹل میں ایک پہاڑی چوٹی کی تصویر
بنی ہوئی ہے جس کےساتھ امین براک کے نام کا اسٹیکر چسپاں ہے۔’’امین براک‘‘
ہوشے کی وادی کی بلند وبالا چوٹی ہے،جس کی بلندی تقریباً17550فٹ ہے۔یہ ایک
ایسی عمودی دیوار کی شکل میںہے جس سے پتھروں اور برف کا گرنا معمول کی بات
ہے۔ اس کے بیس کیمپ کی بلندی 12750 فٹ ہے۔ بیس کیمپ سے یہ چٹان بالکل عمودی
حالت میں3600فٹ بلندی پر آسمان کی طرف اٹھتی ہوئی نظر آتی ہے۔اپنی ان
گوناگوں خصوصیات کی وجہ سے امین براک کو دنیا کی مشکل ترین چوٹی کہا جاتا
ہے ۔ اس کا نام پہلے کچھ اور تھا لیکن چند عشرے قبل اسے قصبے کے ایک
باورچی’’ امین‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیاہے جس کی اولوالعزمی اور بہادری کی
وجہ سے 1999ء میں ہسپانوی کوہ پیماؤں کی ایک ٹیم پہلی مرتبہ اس دشوارگزار
چوٹی کو سر کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ کاندے سےجیپ کے ذریعے چھ سات گھنٹےتک
کے پہاڑی سفر اور دو دن تک پیدل چلنے کے بعد امین براک کے بیس کیمپ تک
پہنچا جا سکتا ہے۔
دریائے ہوشے کو پار کرکے دوسری طرف پہنچنے کے لیے دریا پر لکڑی کا ایک تختہ
رکھا ہواہے جس پر سے سامان سمیت گزرتے ہوئے سیاح دوسرے کنارے پر اترتے
ہیں۔یہاں تبتی تعمیراتی فن کا نمونہ ایک قدیم مسجدہے اس کی خاصیت یہ ہے کہ
لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے اس کے گردونواح میں واقع تمام گھر تباہ ہوگئے تھے
لیکن مذکورہ مسجد کو معجزاتی طور پر کوئی گزند نہیں پہنچی تھی اور یہ آج
بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ یہاں سےتھوڑے ہی فاصلے پر جیپوں کا اڈہ ہے
جو ہوشے تک چند کلومیٹر کے سفر کے لیے تقریباً 1500روپے کرایہ طلب کرتی ہیں
اورایک گھنٹے کی مسافت طے کرکے وہ ہوشے کے بازار میں اتارتی ہیں۔ یہاں کی
سیاحت کے لیے مئی سے ستمبر تک موسم انتہائی مناسب ہوتا ہے، اور بلند وبالا
پہاڑوں، سر سبز میدانوں اور چٹانوں پر، ہرجانب دنیا بھر سے آنے والے، سیر
و تفریح کے شوقین افراد کے رنگین خیمے نظرآتے ہیں۔ جولائی کے مہینے میں
بھی یہاں کا موسم سخت سرد ہوتا ہے اورلوگ خود کو سردی سے بچانے کے لیے گرم
لباس پہنتے ہیں۔ یہ علاقہ بلند و بالا پہاڑی چٹانوں اور چوٹیوں سے گھرا ہوا
ہے ۔ بھوری اورسنہری فلک بوس چٹانیں، بلند و بالا میناروں کی شکل میںکسی
طلسماتی دنیا کا حصہ معلوم ہوتی ہیں۔ اس وادی سے دنیا کے چار مشہور پہاڑی
ٹریکس کا آغاز ہوتا ہے جن میں مشا بروم بیس کیمپ ٹریک، کے سکس بیس کیمپ،
کے سیون اور نغمہ ویلی ٹریک شامل ہیں جب کہ گونڈو گورو پاس سے کنکورڈیا
یعنی کے ٹو بیس کیمپ کی طرف راستہ نکلتا ہے۔ مذکورہ پہاڑی چوٹیاں دنیا بھر
کے کوہ پیماؤں اور ٹریکرز کے لیے پرکشش حیثیت رکھتی ہیں۔ یہاں کے سیاحتی
مقامات قدرتی مناظر کے دل دادہ افراد کے لیے سحر انگیز ہوتے ہیں اور وہ
یہاں کے خواب ناک ماحول میں اس حد تک کھو جاتے ہیں کہ ان کا یہاں سے جانے
کا دل نہیں چاہتا۔ ایڈونچر کے شائقین لوگ قدرت کی صناعی سے لطف اندوز ہونے
کے لیے کئی کئی روز تک پہاڑی مقامات پر مقیم رہتے ہیں ، پیدل برفانی
علاقوں، دریاؤں اور پہاڑوں میں گھومتے ہیں، حسین نظاروں کو کیمرے کے لینسز
کے ذریعے محفوظ کرتے ہیں، جب کہ آنکھوں کے عدسوں کے ذریعےدل میںاتارتے
ہیں۔ ہوشے کا حسن برف پگھلنے کے بعد ایک نئے انداز میں جلوہ افروز ہوتا ہے،
رنگ برنگے مہکتےہوئے پھول، گھاس اور کھیت ،فطرت کے حسن کو دل فریب رنگوں
میں پیش کرتے ہیں۔ اس خوب صورت وادی کا شمار ملک کے انتہائی پسماندہ علاقے
میں ہوتا ہے۔ یہاں کے لوگ مفلوک الحال ہیں، بنیادی سہولتیں نایاب ہیں،
نوجوان تعلیم و ہنر سے بے بہرہ ہیں، جب کہ سخت موسمی حالات کی وجہ سے کاشت
کاری کے لیے بھی حالات ناموزوں ہیں۔ جب سے یہاں سیاحوں اور کوہ پیمائوں کی
آمد کا سلسلہ شروع ہوا ہے،آبادی کے بیشتر لوگوں نے گزر اوقات کے لیے
سیاحوں کا سامان اٹھانے کے لیے پورٹر، گائیڈ ،کوہ پیماؤں و ٹریکرز کے
معاونین کا پیشہ اختیار کرلیا ہے۔ غربت کے باوجود یہاں کے لوگ انتہائی
مہمان نواز، شائستہ اور ملنسار ہیں۔ ہوشے میں سال میں صرف دو فصلیں پیدا
ہوتی ہیں، جو پتھریلی زمین، طوفانی ہواؤں، برف باری، جدید زرعی آلات کی
نایابی اور کاشت کاروں کی محدودتعداد کی وجہ سے مقامی آبادی کے لیے بھی
ناکافی ہوتی ہیں۔ پہاڑی بلندیوں پر دشوار گزار علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں
تک پہنچنے کا واحد راستہ بھی لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے اکثرو بیشتربند رہتا
ہے ۔ تودے گرنے کی وجہ سے گھروں کو نقصان پہنچتا ہے۔ سخت موسمی حالات کی
وجہ سے یہاں شمالی خطے کے دیگر علاقوں کی طرح خوبانی، اخروٹ، سیب اور چیری
جیسے پھلوں کی پیداوار بھی نہیں ہوسکتی۔ پالتو جانور یہاں کے لوگوں کے لیے
انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جو دودھ اور گوشت کے حصول کے علاوہ
باربرداری اور نقل و حمل کے لیے بھی کام آتے ہیں، جن میں بھیڑ، بکریاں،
گائے، یاک شامل ہیں۔ یہاں کے پہاڑی جنگلات مارخور، برفانی چیتے، مارموٹ اور
خوب صورت پرندوں کی وجہ سے سیاحوں کے لیے دل چسپی کا باعث ہیں۔ یہاں کے
لوگوں کی ایک خصوصیت جو پاکستان کے کسی اور علاقے میں دیکھنے کو نہیں ملتی
وہ اپنی مدد آپ کا جذبہ ہے۔ آبادی کے تمام افرادایک اصول اور ضابطے کے
تحت زندگی گزارتے ہیں۔ سیاحت کے موسم میں کوہ نووردی اور سیاحوں کے ساتھ
خدمات انجام دینے والے پورٹراپنی محنت و مشقت کی کمائی میں سے دس فیصد حصہ
ہوشے کےاپنی مدد آپ کے تحت، تعمیرہونے والےاسکول کے لیے دیتے ہیں، جہاں
گاؤں کے تین سو سے زائد بچے علم کی روشنی سے معمورہورہے ہیں۔ یہاں کے چند
پڑھے لکھے افراد نے ایک سماجی بہبود کے ادارے کی بنیاد رکھی ہے جس کے تحت
تعلیم، صحت اور سیاحوں کو سہولتوں کی فراہمی ہے لیکن یہ تمام کاوشیں سرکاری
معاونت کے بغیر یہاں کی آبادی کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔
لیکن ان تمام دشوار کن حالات کے باوجود یہ ایک ایسا سیاحتی مرکز ہے جہاں
سیر کے لیے آنے والے لوگ یہیں بسنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔
|