سانحہ سیالکوٹ۔۔ پاکستان کا چہرہ داغدار؟

مذہب بے گناہ کی جان لینے کو ظلم عظیم سے تشبیہ دیتا ہے۔ اس قسم کی جنونیت اور انتہا پسندی کا مذہب سے کوئ تعلق نہیں۔

پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں ایک انتہائی افسوس ناک واقع پیش آیا جہاں توہین مذہب اور گستا خی پر نجی فیکٹری راجکو انڈسٹری کے جنرل مینیجر کو مشتعل ہجوم نے تشدد کر کے قتل کر دیا جس کے بعد اس کی لاش کو آگ لگا دی ۔

مظاہرین نے تشدد کرتے وقت لبیک لبیک کے نعرے لگائے جبکہ مشتعل افراد نے فیکٹری کا بھی گھیراؤ کر لیا اور وزیر آباد روڈ ٹریفک کے لئے بند کر دیا.(بول نیوز ویب ڈیسک- 3دسمبر 2021)

قارئین ! آج اس واقعہ کا راقم کو جب علم ہوا تب سے اب تک میڈیا کو بر سر اقتدار طبقے کہ مذمتی بیانات سے بھرا ہو پایا۔ مقتول سری لنکن شہری تھا۔ وفاقی وزرا سے لےکر آرمی چیف سمیت مذہبی جماعتوں کے قائدین نے اپنا بھر پور حصہ ڈالا ہے۔ مگر کیا مذمتی بیانات ان حادثات کا سد باب کرسکتے ہیں ؟

پڑوسی ملک میں اس طرح کی دیوانگی کو جواز فراہم کرنے والا ٹھیک وہی طبقہ ہے کہ جو ان واقعات کووطنِ عزیزمیں کسی نہ کسی دائرے میں درست خیال کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کی تعداد دونوں معاشروں میں فی زمانہ نہ صرف موجود ہے بلکہ اپنی بات کو منوانے پر قدرت بھی رکھتی ہے۔ حال ہی میں تواتر سے اسکی کئ امثال ہمارے سامنے رونما ہوئ ہیں اور ریاست کا واجبی سا کردار بھی عیاں ہے۔

آج ملک و قوم کی مذہب سے جذباتی وابستگی جہاں ایک طرف دشمنان دین کیلئے خطرہ ہے وہیں دوسری طرف اس جذباتیت کا کچھ عناصر غلط فائدہ بھی اٹھارہے ہیں اور اسکو اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کیلئے استعمال بھی کررہے ہیں جو کہ درحقیقت انتہائ قبیح فعل ہے۔

سانحہ سیالکوٹ ان امن پسند مسلمانوں کیلئے انتہائ تکلیف دہ ہے کہ جنہوں نے اسلام کا مقدمہ دیار غیر میں لڑا ہے اور اپنے قول و فعل سے ثابت کیا ہے کہ دنیا کا رویہ اسلام کے بابت قطعاً درست نہیں۔

یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ماورائے عدالت قتل کسی بھی مذہب کے نزدیک ممنوع ہے۔ شریعت میں اسکی سختی سے ممانعت کی گئ ہے۔ وطن عزیز میں قانون و اداروں کی بالا دستی ایک خواب ہے۔ جب تک عوام کا اعتماد اداروں پر بحال نہیں ہوگا اس طرح کے واقعات بدقسمتی سے رونما ہوتے رہیں گے۔ عدالتی کاروائیاں آج ایک مذاق بنی ہوئ ہیں۔ اس کی وجہ توہین عدالت کا کثرت سے سامنے آنا ہے۔ مجرمان کو کسی قسم کا خوف نہیں۔

ریاست کی رِٹ ہر جگہ چیلینج ہوتی ہوئ نظر آتی ہے۔ آج بطور امت اور پاکستانی دل بہت رنجیدہ ہے۔اس قسم کے واقعات اقوام عالم میں ہمارے لئے شرمندگی کا باعث ہیں۔ وہ تمام عوامل کہ جو اس بھیانک قتل میں شامل ہیں انکا مذہب سے کوئ تعلق نہیں بلکہ درحقیقت ان سے ہمدردی کا جذبہ رکھنے والے بھی اس قتل میں برابر کے شریک ہیں۔ بدقسمتی سے آج عاشق رسول ﷺ ہونے کے دعویدار تو ہر جگہ موجود ہیں مگر اتباع رسول ﷺ کے جذبے سے عاری ہیں۔ یہ رویّہ ہمارے دوغلے پن کا عکاس ہے۔

معاشرے میں ان واقعات کا رونما ہونا ہماری نفسیاتی صحت کی تنزّلی کامظہر ہے۔ جہاں ہم دین کے فلسفے کو سمجھنے کے بجائے کسی کی جان کو اپنے ہاتھوں سے لینے کو نیکی خیال کریں وہاں ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہم ایک ایسی ذات کے حکم کیخلاف ہیں کہ جو اپنے بندوں کو 70 ماوں سے زیادہ عزیز رکھتا ہے۔

مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَۚ كَتَبْنَا عَلٰى بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ اَنَّهٝ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْـرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِى الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَـمِيْعًاۖ وَمَنْ اَحْيَاهَا فَكَاَنَّمَآ اَحْيَا النَّاسَ جَـمِيْعًا ۚ وَلَقَدْ جَآءَتْـهُـمْ رُسُلُـنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُـمَّ اِنَّ كَثِيْـرًا مِّنْـهُـمْ بَعْدَ ذٰلِكَ فِى الْاَرْضِ لَمُسْـرِفُوْنَ (32)

ترجمہ : اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ ''جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی'' مگر اُن کا حال یہ ہے کہ ہمارے رسول پے در پے ان کے پاس کھلی کھلی ہدایات لے کر آئے پھر بھی ان میں بکثرت لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں ۔(تفہیم القرآن - سور ۃالمائدہ آیت نمبر 32)

امام احمد اور امام ترمذی نے روایت بیان کی:
رحم اور ہمدردی تو اس شخص کے دل سے نکال دی جاتی ہے جو بد بخت ہو۔

متلاشی حق
سید منصور حسین (مانی)

#Sialkot
 

Syed Mansoor Hussain
About the Author: Syed Mansoor Hussain Read More Articles by Syed Mansoor Hussain: 32 Articles with 23467 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.