افغانستان میں چین کے انسان دوست اقدامات

عالمی منظر نامے میں ایک بڑی ذمہ دار طاقت کے طور پر چین کی جانب سے افغانستان میں اقتصادی سماجی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کا سلسلہ جاری ہے۔ابھی حال ہی میں چین کی جانب سے افغانستان کے لیے عطیہ کردہ موسم سرما کے سامان کی دوسری کھیپ کابل پہنچی ہے۔اس کھیپ میں 70 ہزار سے زائد کمبل اور 40 ہزار سے زائد گرم ملبوسات شامل ہیں۔ یہ امداد ایک نازک لمحے میں چینی عوام کی جانب سے افغان عوام کے لیے گرمجوشی لائی ہے۔چین نے اس دوران یہ عزم بھی ظاہر کیا کہ وہ افغان عوام کو خوراک سمیت دیگر ہر قسم کی انسان دوست امداد جاری رکھے گا۔افغانستان کے لیے چین نے ہمیشہ یہ رویہ اپنایا ہے کہ افغانستان کے ایک اچھے پڑوسی کے طور پر، ملک کو درپیش موجودہ مشکلات پر قابو پانے میں مدد کی جائے۔افغان حکام نے بھی ہنگامی انسان دوست امداد کی بروقت فراہمی پر چین کا شکریہ ادا کیا ہے کیونکہ اس وقت افغان عوام مشکل وقت کا سامنا کر رہے ہیں۔امدادی سامان کے علاوہ افغانستان میں چینی سفارت خانے کی جانب سے افغان عبوری حکومت کی مدد کے لیے چند تعمیراتی منصوبے بھی سامنے لائے گئے ہیں جن میں افغان وزارت انصاف کے لیے پانی کی فراہمی کے منصوبے بھی شامل ہیں۔چین کا موقف ہے کہ افغانستان کے ایک دوستانہ ہمسایے اور مخلص دوست کے طور پر، افغانستان کی پرامن تعمیر نو اور اقتصادی ترقی کے لیے اپنی بھر پور مدد فراہم کی ہے۔اس کے علاوہ چین نے دوطرفہ تجارت کو بھی وسعت دیتے ہوئے افغان عوام کی موئثر امداد کی ہے۔ گزشتہ 02 ماہ میں ایک ہزار ٹن سے زائد افغان چلغوزہ چین میں فروخت کیا گیا ہے۔یوں چین نے افغانستان میں سماجی نظام کے استحکام اور معیشت کی بحالی میں ٹھوس تعاون کیا ہے۔چینی عوام کی افغان عوام سے ہمدردی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ چوتھی چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو کے دوران چائنا میڈیا گروپ کی خصوصی لائیو براڈکاسٹ میں سارا کا سارا 45 ٹن افغان چلغوزہ صرف چند منٹ میں فروخت ہوا ۔ یہ خبر چینی سوشل نیٹ ورکس کی ہاٹ سرچ لسٹ میں شامل رہی۔چینی شہریوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افغان جنگ سے متاثرہ افراد کی مدد ایک انتہائی اچھا فعل ہے اور اگر چلغوزے خرید کر افغان لوگوں کی مدد کی جا سکتی ہے تو کیوں نہ اس نیک عمل میں بھرپور طور پر شریک ہوا جائے۔

یہ بات قابل زکر ہے کہ رواں سال افغانستان میں چلغوزے کی فصل اگرچہ اچھی رہی لیکن وبا اور مقامی پیچیدہ صورتحال کے باعث کاشتکاروں کو فروخت میں مشکلات کا سامنا رہا ہے۔یوں چین نے آگے بڑھتے ہوئے افغان کسانوں کے لیے "چلغوزے کی فضائی راہداری " کھول دی ہے جس سے افغان چلغوزے کو براہ راست چینی مارکیٹ تک پہنچایا گیا ہے۔

افغانستان کی عبوری حکومت کا بھی یہ کہنا ہے کہ وہ چین کے ساتھ باہمی تجارت کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں اور باہمی احترام کی بنیاد پر چین سمیت دیگر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے خواہاں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ افغان عبوری حکومت نے سینئر چینی حکام کے ساتھ اپنی ملاقاتیں جاری رکھی ہیں اور دونوں جانب سے باہمی دوستانہ تعلقات کو مزید وسعت دینے کے لئے کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ جلد از جلد منجمد افغان اثاثوں کو بحال کرےتاکہ افغانستان کو موجودہ معاشی صورت حال کو بہتر بنانے اور عوام کے معاش کی مشکلات کو حل کرنے میں مدد ملے۔حالیہ دنوں افغانستان کو ملکی کرنسی "افغانی" کی قدر میں کمی کا بحران بھی درپیش ہے جو تاریخ میں اپنی کم ترین قدر تک پہنچ چکی ہے۔ افغان اقتصادی ماہرین نے خبردار کیا کہ افغانستان کو کرنسی کی قلت کا سنگین بحران درپیش آ سکتا ہے۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو افغانستان یقینی طور پر معاشی بحران کا شکار ہو جائے گا، جس کے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور عوام کو مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ اور افغان معاشی ماہرین دونوں کے نزدیک ، امداد کی معطلی اور افغان اثاثوں کا منجمد ہونا کرنسی قلت کے بحران کی بنیادی وجوہات ہیں۔ افغانستان میں طالبان عبوری حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد ، امریکہ نے افغانستان کے تقریباً 9 بلین ڈالر کے بین الاقوامی بینک اثاثے منجمد کر دیے تھے۔اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ بینک ڈپازٹس میں کمی، غیر فعال قرضوں کی شرح میں اضافے اور ناکافی لیکویڈیٹی کی وجہ سے افغان مالیاتی نظام چند مہینوں میں تباہ ہو سکتا ہے۔رپورٹ کے مطابق اگر ایک بار افغان بینکنگ سسٹم تباہ ہو جاتا ہے تو اس سے "سنگین" معاشی نقصان اور منفی سماجی اثرات مرتب ہوں گے۔ بینکنگ سسٹم کے خاتمے سے بچنے کے لیے، اقوام متحدہ کا ترقیاتی پروگرام ڈپازٹ انشورنس اسکیم متعارف کرانے، مناسب لیکویڈیٹی کے تحفظ، اور کریڈٹ گارنٹی اور قرضوں کی ادائیگی موخر کرنے کے اقدامات کرنے کی سفارش کرتا ہے۔

اس صورتحال میں افغانستان میں معاشی استحکام نہایت لازم ہے۔صرف اسی صورت میں امن و امان کا دیرپا اور پائیدار قیام ممکن ہے۔اگست میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے افغانستان کے لیے بین الاقوامی امداد معطل ہو کر رہ گئی ہے ۔ لیکن حالیہ دنوں یہ ایک اچھی پیش رفت ہوئی ہے کہ ورلڈ بینک کے ڈونرز نے انسان دوست امداد کے لیے 280 ملین ڈالرز منتقل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ توقع ہے کہ یہ رقم اس ماہ کے آخر تک دو امدادی اداروں کو براہ راست منتقل کر دی جائے گی۔ایک ذمہ دار ملک کے طور پر چین کی کوشش ہے کہ افغان عوام کے بہترین مفاد میں کسی انسانی المیے سے بچنے کی خاطر مستحکم معاشی سرگرمیوں کو آگے بڑھایا جائے۔دیگر ممالک بھی تعمیری رویوں سے چین کی تقلید کرتے ہوئے جنگ سے متاثرہ افغانستان کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1158 Articles with 452326 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More